خواتین کو مردوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں

854

پاکستان کو اُس کی حقیقی منزل اور مقصد سے دور لے جانے کے لیے مستقل نان ایشوز کو لیپا پوتی کرکے زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ اِنہی میں سے ایک موضوع ’خواتین کے حقوق‘ ہے۔ بیرونی ایجنڈے پر اس کی کئی شاخیں مختلف نعروں اور عنوانات کے ساتھ ہمیں آج پھیلی نظر آتی ہیں۔ ورکنگ وومن ویلفیئر آرگنائزیشن ٹرسٹ خواتین کے زیرانتظام پاکستان کی ایک رجسٹرڈ این جی او ہے۔ یہ غیر سیاسی تنظیم پاکستانی خواتین کو آئین و قانون میں حاصل بے شمار حقوق پر عمل درآمد کی جدوجہد کے ساتھ خواتین کی رہنمائی، تربیت اور معاشی خود انحصاری کی راہیں بھی کھولتی ہے۔ عالمی یوم خواتین کی تاریخ مغربی ممالک میں خواتین کے سلب کردہ بنیادی حقوق کی سو سال قبل کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ پاکستان میں الحمدللہ خواتین کو بہترین آئینی حقوق دیئے گئے ہیں اور قانون سازی بھی ہوئی ہے، تاہم صرف عمل درآمد کروانے کا ہی مسئلہ درپیش ہے۔ ورکنگ وومن ویلفیئر آرگنائزیشن ٹرسٹ اس حوالے سے رائے عامہ بنانے اور اقتدار کے ایوانوں تک بات پہنچانے کے لیے مختلف سرگرمیاں ترتیب دیتا ہے۔
عالمی یوم خواتین کے موقع پر اقوام متحدہ کی پیش کردہ تھیم ’صنفی برابری‘ کو پاکستان کے تناظرمیں سمجھنے اور صائب الرائے خواتین سے ڈسکس کرنے کے لیے مقامی ہوٹل میں ’’صنفی برابری، حقیقی نقطہ نظر‘‘ کے عنوان سے ایک فورم کا انعقاد کیا گیا۔کانفرنس کی صدارت ٹرسٹ کی صدر عابدہ فرحین نے کی، جبکہ فورم میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف ورکنگ وومنز نے بھرپور انداز سے اپنے تجربات و آراء پیش کیں۔ ڈسکشن سے قبل ملک کی معروف ماہر تعلیم، استاد، این ایل پی ٹرینر امینہ مراد نے موضوع پر بریفنگ بذریعہ ملٹی میڈیا پریزنٹیشن پیش کی اور یہ سمجھایا کہ ہر دن ہی عورت کا دن ہوتا ہے اور ہم روزانہ اس دن کو مناتے ہیں۔ عالمی دن کا معاملہ مغرب میں اُس وقت سے شروع ہوا جب خواتین کے پاس کسی قسم کے بنیادی حقوق، حتیٰ کہ ووٹ دینے کا بھی حق نہیں تھا۔ آج کی جدید دنیا میں یہ جدوجہد نیو لبرل فیمنزم کی شکل میں نازل ہے۔ یہ سماج کا اسٹرکچر اور لوگوں کے نقطہ نظر کو بدلنے کا کام کررہی ہے، اس لیے ان نعروں اور سلوگن کے پیچھے حقیقی نقطہ نظر کو جاننا ضروری ہے۔ اُن خواتین کا آج بھی یہ مسئلہ ہے کہ پیٹ میں موجود بچے کا پتا نہیں ہوتا کہ باپ یا شوہر کے خانے میں کیا نام لکھنا ہے، جسے وہ اپنے نعروں کے ساتھ دوسروں پر بھی انڈیلنا چاہ رہے ہیں۔ اب حال یہ ہوچکا ہے کہ معروف مبلغِ اسلام یاسر قاضی کہتے ہیں کہ ’’انہوں نے اس کے لیے جو حل نکالا ہے اُس سے تو لگتا ہے کہ وہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اسی طرح مغرب کے معروف اکنامسٹ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’کیا زکوٰۃ ہی آخری راستہ ہے معاشی بحران سے بچنے کا۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ عورت کے تمام حق بتانے والا ہمارا ہی دین ہے جو خانگی زندگی، وراثت، تعلیم سمیت ہر مرحلے پر رہنمائی دے رہا ہے۔ مرد کی جنت ہمارے قدموں تلے ہے۔ انہوں نے مدلل انداز میں سمجھایا کہ قراردادِ مقاصد کی موجودگی کے بعد پاکستان کا آئین جتنا خواتین کے حقوق کا محافظ بن چکاہے اس سے بڑھ کر کوئی چارٹر نہیں، اور اگر ہم شریعت نافذ کیے بغیر چاہ رہے ہیں کہ مسئلہ حل ہوجائے تو ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں قوانین کو امپلیمنٹ کرنے اور عورتوں کی عزت کرنے والے حکمران لانے ہوں گے، کیونکہ جو بہترین حقوق ہمیں شریعت نے عطا کیے ہیں وہی مسئلے کا اصل حل ہیں۔
ورکنگ وومن ٹرسٹ کی رکن ماریہ طلحہ نے بریفنگ سیشن کے بعد ڈسکشن فورم کا آغاز کرتے ہوئے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا، اور ورکنگ وومن کے مقاصد اور عالمی یوم خواتین کے تناظرمیں گفتگو کاآغاز کرتے ہوئے اس فورم کے مقاصد بیان کیے، اور ڈسکشن فورم میں چانسلر جناح یونیورسٹی برائے خواتین اور فرسٹ وومن بینک کی پہلی صدر اکرم خاتون کو پروفیشنل ماحول میں خواتین کو درپیش چینلجز و کام میں بہتری پر اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ اکرم خاتون نے کہاکہ مجھے اعزاز رہا کہ میں نے بینکنگ کے دور میں بطور ٹرینی افسر سے کام کا آغاز کیا۔ پروفیشنل کام کا تقاضا ہے کہ جس پیشے میں جائیں وہاں علمی و عملی طور پر ایکسل کریں، جب آپ پروفیشن میں ایکسل کریں گی تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ کوئی آپ کی جانب آنکھ اُٹھا کر دیکھے۔ پہلا خواتین بینک کھلا تو بطور صدر میرے لیے بڑا چیلنج تھا، لیکن ہم نے ثابت کیا کہ انتھک محنت و لگن سے خواتین بھی بینک چلا سکتی ہیں۔ اسی موضوع پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سینئر استاد و خاتون صحافی پروفیسر شاہدہ قاضی نے کہاکہ ’’ساٹھ کی دہائی عورتوں کے لیے بہت اچھی رہی۔ جب جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تو میں شعبۂ صحافت میں واحد طالبہ تھی، اساتذہ نے بہت سپورٹ کیا، پہلی پوزیشن آئی، گولڈ میڈل ملا تو سب نے سیلیبرٹی بنا دیا۔ شروع میں اشتہار کاری میں شوق تھا، لیکن وہاں کا ماحول اچھا نہیں تھا۔ روزنامہ ڈان میں پہلی خاتون رپورٹر کے طور پر کام کیا اور خوب انجوائے کیا۔ پیشہ ورانہ زندگی میں کوئی ڈسکریمینشن نہیں ملی۔ آج ماحول یکسر بدل گیا ہے، ہر جگہ خواتین بھری ہوئی ہیں، سخت مقابلہ ہے، سخت جان ہوکر کام کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو منوانا ہوگا، یہی اصل چیلنج ہے۔
سابق صدر فرسٹ وومن بینک طاہرہ رضا نے کہاکہ خواتین کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ہر فیصلہ سازی کے فورم میں عورتوں کو نہیں لائیں گے، مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ملک میں مواقع دیں گے خواتین کو، تو یقینا وہ آگے نکلیں گی۔ سوشل سپورٹ سسٹم اور آئینی و قانونی تحفظ دینے سے خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی۔سندھ گورنمنٹ اسپتال کی سینئر ڈاکٹر عذرا خالد نے اپنے تجربات کے تناظر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ خواتین حقوق کے تناظر میں اہم ترین کردار خود خواتین کا ہے۔ بطور ماں ہم اپنی اولادوں کو اگر ماں، بہن کی عزت کرنا سکھائیں گے تو ہی مسئلہ جڑ سے حل ہوگا۔ تربیت گھر سے ہی شروع ہوتی ہے، وہیں سے شعوری طور پر عورت کا مقام اذہان میں منتقل ہوتا ہے۔ عزت تحفتاً نہیں ملتی، اس لیے مردوں کو بھی ٹریننگ یا کونسلنگ دینے کی ضرورت ہے، اچھی تربیت مسئلہ حل کرے گی۔
سینئر صحافی صفیہ ملک نے اپنے صحافتی تجربات کی روشنی میں بتایا کہ ’’ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں کام کے دوران تو ہمیں یہ سکھایا گیا کہ عورت کو ایسا باوقار دکھانا ہے کہ لوگ اس کے پیروں کو دیکھیں، چہرے کو نہیں۔ آج میڈیا عورت کو جس طرح دکھا رہا ہے، اس سے معاشرے میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ زندگی میں کامیابی کے لیے گھر کا ماحول اہم ہے۔ آگے بڑھنے میں باپ کی پشت پناہی کا اہم ترین دخل ہوتا ہے۔ جو اعتماد باپ کی محبت دیتی ہے وہ بہت موٹیویشنل ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے اپنے والد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’میرے والد نے مجھے ’حدود‘ بتائیں اور کہا کہ اس کے اندر کام کرنا ہے۔ جو کام کرنا ہے کرلو، لیکن شکایت نہیں آنی چاہیے۔ باپ نے اس انداز سے ذمہ داری ڈالی کہ میری وجہ سے پورے خاندان کا نام جڑ گیا۔‘‘
ڈسکشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے الما یونیورسٹی میں میڈیا اینڈ ڈیزائن کی ڈین ڈاکٹر رفیعہ تاج نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں مسئلہ انصاف کا ہے، عورت ہی عورت کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ ایک نعرہ لگا ہے، اس کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے۔ نقطہ نظر سے اختلاف ہونے پر لعن طعن کرنا باعثِ افسوس ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ خواتین کی اکثریت جانتی ہی نہیں کہ ان کا حق کیا ہے؟ جینڈر اویرنیس بھی نہیں ہے؟اس کے لیے بطور مسلم اگر ہمارا معاشرہ شریعت کی بنیاد پر استوار ہو جائے تو مسئلہ حل ہوجائے۔
معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نوشین شہزاد نے کہا کہ خواتین کی بے شمار خوبیاں ہیں، کسی تنازعے میں خواتین حل نکالنے پر مامور ہوں تو وہ مسئلے کا اچھا حل نکال لیں گی۔ مردوں کی جسمانی ساخت عورتوں سے زیادہ مضبوط ہے لیکن بہت کچھ عورتوں سے کم بھی ہے۔ انہوں نے مردوں کو بھی خواتین کی ہارمونل تبدیلیوںکے بارے میں سمجھانے پر زور دیا جس سے عورتوں کے ساتھ مثبت رویہ و برتاؤ سامنے آتا ہے۔ انہوں نے میڈیا پر بھی زور دیا کہ ڈراموں سے صنفی ایشوز کو سمجھاکر طلاقیں کم کی جا سکتی ہیں۔
صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ کی وائس چیئر پرسن عالیہ صارم نے کہا کہ اگر خواتین اپنے شوہروں اور محرم رشتوں کو ساتھ رکھیں گی تو ہی کچھ کرسکیں گی۔ ماڈرن ازم نے جو نئے نعرے لگائے ہیں ان کی کوئی وقعت نہیں۔
سینئر ماہرِ قانون رعنا خان ایڈووکیٹ نے عورت مارچ کے نعروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ تمام قوانین موجود ہیں، اور وہ خواتین انتہائی قابلِ رحم ہیں جنہیں اسلامی مملکت میں رہنے اور آئینی تحفظ کا شعور ہی نہیں۔ دیہاتوں میں خواتین کو آگاہی دینا ضروری ہے۔ فورم میں مرد حضرات کی عدم شرکت پر منتظمین کو متوجہ کرتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ صنفی برابری پر بات ہورہی ہے لیکن مرد نہیں بیٹھے، تو کس سے حقوق مانگیں اور سمجھائیں؟ آئین کی شق 27,31,34,35,37 میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ملازمت، قومی دھارے میں لانے، خاندان، معاشرتی انصاف سمیت سب کچھ بہترین طور سے ڈسکس کیا گیا ہے۔
لاہور سے سینئر استاد، سماجی رہنما ڈاکٹر حمیرا طارق نے انتہائی خوش اسلوبی سے خواتین حقوق کے نعرے کی تفہیم کرتے ہوئے کہاکہ نام نہاد فیمنزم کا شکار خواتین لاعلمی کی بنیاد پر مردوں سے برابری کے حقوق مانگ رہی ہیں، جبکہ ہمارے دین نے انہیں مردوں سے بھی زیادہ حقوق دیئے ہیں۔ برابری کا نعرہ تو عورت کے لیے خسارہ ہے، جبکہ خالقِ کائنات نے ہمیشہ عورت کو برتر کردار عطا کیا ہے موسیٰ ؑ سے لے کر آج تک، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں، امہات المومنین میں ہر جگہ دینِ حق نے خواتین کو اعلیٰ ترین مقام و حقوق عطا کیے ہیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تو اب مزید کیا مثال پیش کی جائے۔ مرد کا قوّام ہونا استحقاق ہے کہ اُس کو خرچ کرنے کا پابند کیا گیا ہے، عورت کو نہیں۔ انہوں نے عورت مارچ کے منتظمین سے اپنی ملاقات میں کمیونی کیشن گیپ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب ہم نے بیٹھ کر پاکستانی خواتین کو درپیش ایشوز کو ڈسکس کیا اور حقیقی مسائل پر بات کی تو وہ سب ہماری بات سن کر حیرت اور حمایت کے ساتھ خوش بھی ہوئیں۔ اُنہیں سمجھایا گیا کہ عورت مارچ کرنے پر اعتراض نہیں، اصل اعتراض اُن ذومعنی اور معاشرتی اقدار کے خلاف نعروں و سلوگن پر ہے جو حقیقی مسائل کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ عورت کے تمام حق بتانے والا ہمارا ہی دین ہے جو خانگی زندگی، وراثت، تعلیم سمیت ہر مرحلے پر رہنمائی اور حقوق دے رہا ہے، انہیں اپنانے میں ہی ہمارے لیے عافیت و سلامتی ہے۔
لیاری سے تعلق رکھنے والی خاتون سماجی رہنما صبیحہ شاہ نے کہاکہ خوداعتمادی اور مضبوط قوتِ ارادی سے خواتین ہر مشکل آسان کرسکتی ہیں۔ جامعہ کراچی کی استاد جہاں آرا لطفی نے سرمایہ دارانہ نظام کو ان تمام مسائل کی اصل جڑ قرار دیا جس نے عورت کا سب سے زیادہ استحصال کیا ہے۔ ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک لبنیٰ فاروق نے کہاکہ ہم اب بھی بہت سارے حقیقی ایشوز و معاملات سے لاعلم ہیں، اس کے لیے اپنے تعصبات سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر مہوش احمد نے کہاکہ سب سے پہلے مردو عورت کے درمیان جنسی فرق کو قبول کرنا ہوگا، پھر سب کے مقررہ کردار جو پہلے ہی سے ڈیفائن ہیں، اُنہیں مانیں، تبھی معاشرے میں صنفی امتیاز کا مسئلہ حل ہوگا۔ اس سلسلے میں عدم تحفظ کا کوئی احساس نہیں ہونا چاہیے۔ وومن رائٹس انسانی حقوق میں سے ہیں، اس لیے مرحلہ وار بات منوانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
ڈائریکٹر رہبرِ نسواں نسرین اعجاز نے ڈسکشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مردوں کی کونسلنگ انتہائی ضروری ہے جس کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مقامی انگریزی روزنامے سے طویل عرصے سے وابستہ سینئر صحافی شہر بانو نے کہاکہ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو گھر سے باہر نکلی تو باپ نے کہاکہ چادر پر داغ نہ آئے کہ تعلیم صرف نوکری کے لیے نہیں بلکہ شعور کے لیے بھی ہوتی ہے۔ سوشل ایکٹیوسٹ سائرہ بانو نے کہاکہ 80 فیصد خواتین تک بات نہیں پہنچتی، اس پر کام کی ضرورت ہے۔ ڈسکشن فورم میں پاکستان بلائنڈ فاؤنڈیشن کی شکیلہ یاسمین، ڈاکٹر یاسمین ممتاز، نسرین فیاض، ثروت گیلانی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ ورکنگ وومن ٹرسٹ کی نائب صدر حمیرا قریشی نے ڈسکشن میں پیش کی جانے والی مجموعی تجاویز پیش کیں جن سے شرکاء نے اتفاق کیا۔ اُن کے مطابق پاکستان میں بہترین قوانین موجود ہیں جن پر عمل درآمد پاکستان میں خواتین کے بہت سارے مسائل حل کر سکتا ہے۔
عابدہ فرحین، صدر ورکنگ وومن ٹرسٹ نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ ورکنگ وومن ٹرسٹ وہ ادارہ ہے جو صرف کانفرنس ہال میں بات نہیں کرتا بلکہ ہمارا ولیج ایمبرائڈری پروجیکٹ اور ہمارا ٹریننگ و آگہی پروگرام اُنہی خواتین میں کام کررہا ہے جنہیں حقیقت میں آگہی و شعور کی ضرورت ہے، ہم سب کو اس مشن میں ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں جو دین اور آئین میسر ہے وہ ہمارے حقوق کے سلسلے میں ایک نعمت سے کم نہیں، اس پر عمل درآمد کی جدوجہد ہمیں ساتھ مل کر کرنی ہوگی۔

حصہ