قہقہہ بارشاداں و فرحان زندگی

555

ظہیر خان
حیوان اور حیوانِ ناطق یعنی انسان میں کیا فرق ہے‘ دونوں ہی کھانا پینا کرتے ہیں‘ دونوں ہی کسی تکلیف میں واویلا کرتے ہیں مگر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے حیوان قاصر ہے جب کہ یہ قدرتِ خداوندی حیوانِ ناطق یعنی انسان کے حصّے میں آئی ہے۔ انسان خوشی کا اظہار مختلف انداز سے کرتا ہے مثلاََ کچھ احباب زیرِ لب مسکراہٹ ہی سے اپنا کام چلا لیتے ہیں‘ ہنسنا ہنسانا ان کے نزدیک ان کی سنجیدگی میں خلل پڑنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کچھ حضرات ہنس ہنس کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں‘ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو غسل خانے میں دورانِ غسل کوئی فلمی یا علاقائی گیت بے سُرے انداز میں گا کر کرتے ہیں۔ کچھ حضرات جن کے سامنے کے دانت خوش نما ہوتے ہیں قہقہوں کو مقدّم سمجھتے ہیں‘ بات بہت معمولی سی ہوتی ہے مگر ان کے قہقہوں سے دیوار تو کیا پڑوسی بھی مستفید ہوتے ہیں۔ ایک لطیفہ یاد آگیا… چونکہ دو فلیٹوں کے درمیان ایک ہی دیوار ہوتی ہے لہٰذا قہقہہ رسانی بآسانی ہوسکتی ہے۔ لڈّن اپنے برابر والے فلیٹ کے قہقہوں کو سُن سُن کر حیرت زدہ تھا کہ اس مہنگائی کے دور میں پڑوس کے میاں بیوی اس قدر خوش و خرّم زندگی کس طرح گزار سکتے ہیں جبکہ ہم میاں بیوی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تجسُّس نے اسے پڑوسی کے فلیٹ کی گھنٹی بجانے پر مجبور کردیا۔ پڑوسی مع بیگم سامنے کھڑے تھے۔ لڈّن نے بڑی انکساری سے کہا کہ برادرِ عزیز آپ حضرات کے قہقہے مجھے یہاں کھینچ لائے ہیں‘ ذرا یہ تو بتائیے کہ اس دورِ پُر آشوب میں جب کہ مہنگائی نے ہر کسی کی کمر توڑی ہوئی ہے آپ دونوں اس قدر خوش گوار زندگی کس طرح گزار رہے ہیں ذرا اس راز سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔ دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا گویا نظر نظر میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں کہ یہ رازِ نہانی فاش کیا جائے یا اسے راز ہی رہنے دیا جائے۔ آخر آنکھوں کے اشاروں نے فیصلہ کر ہی لیا کہ راز پڑوسی کو بتا کر نیکی کمائی جائے آخر پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ شوہرِ محترم اس طرح گویا ہوئے… ’’میرے ہر دل عزیز پڑوسی بھائی بات دراصل یہ ہے کہ جب میری بیگمِ بے بدل ماہرِ جنگ و جدل کے ناک پر غصّہ ہاتھ میں بیلن اور نشانے پر یہ مظلومِ بے اختیار بے یار و مددگار ہوتا ہے اور وہ بیلن میری طرف پوری طاقت سے پھینکتی ہیں تو اگر بیلن ٹھیک نشانے پر لگتا ہے تو میری بیگم دو انگلیوں سے فتح کا نشان بنا تی ہیں اور زوردار قہقہہ لگا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتی ہیں اور اگر میرے پینترا بدلنے پر نشانہ خطا ہو جاتا ہے اور بیلن دیوار سے جا ٹکراتا ہے تو میں دو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا ہوں اور زوردار قہقہہ لگا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہوں۔ بس یہی ہے ہماری قہقہہ بار شاداں و فرحاں زندگی گزارنے کا راز۔‘‘ لڈّن یہ خوشگوار خبر برداشت نہ کرسکا اور وہیں گر کر بے ہوش ہوگیا۔
کچھ احباب ہنسنے ہنسانے کے معاملے میں خود کفیل جب کہ کچھ بخیل ہوتے ہیں۔ کتنا بھی اور کیسا بھی لطیفہ انہیں سنا دیا جائے مگر مجال ہے جو چہرے پر ـذرا بھی مسکراہٹ آجائے۔ شاید ان کے خیال میں ہنسنے ہنسانے سے انسان کے معیار اور اس کے وقار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اگلے پر ان کا رعب اور دبدبہ متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کے افراد اکثر سرکاری دفاتر میں پائے جاتے ہیں‘ خاص طور پر افسرانِ بالا۔
کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو سدا ہنستے مسکراتے رہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ایک سوغات ہے جو انہیں عطا کی گئی ہے۔ میرے آفس میں بھی ایک خاں صاحب اس صفت سے آراستہ ہیں، شکلاََ خوبصورت ہیں، باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں‘ جب بھی ملاقات ہوتی ہے ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں‘ قہقہہ ایسا زوردار لگاتے ہیں ساری فضا گونج اٹھتی ہے۔ اکثر آفس کینٹین میں ملاقات ہوتی ہے صرف ہم ہی نہیں کینٹین میں بیٹھے سارے افراد ہی ان کے قہقہوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ ایک دن دورانِ ملاقات پہلے خیریت دریافت کی پھر بولے کہ طبیعت تو ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت اگر طبیعت خدا نا خواستہ ٹھیک نہیں بھی ہے تو آپ کے قہقہوں کے طفیل سے ٹھیک ہو جائے گی۔ زوردار قہقہہ لگایا اور آگے بڑھ گئے۔
غرضیکہ ہنسنا مسکرانا قہقہے لگانا انسانی صحت کے لیے مفید ہے آپ نے کسی بھی محفل میں کسی پہلوان یا پہلوان نما خاتون کو سنجیدہ نہیں دیکھا ہوگا یہ لوگ ہمیشہ ہنستے مسکراتے اور قہقہہ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں آپ بھی ہنسیے مسکرائیے‘ قہقہہ لگائیے اور پہلوان ہوجائیے۔

اسد اقبال

آدمی جب مُنکشِف ہو بات کے اظہار سے
خُو جھلکنی چاہیے اَسلاف کی کردار سے
میرے اپنے ہی سبب سے ہے جو ہے میرا زوال
کس طرح کیوں کر کوئی شکوہ کروں اغیار سے
دین کے بارے میں کرتا ہے مُدلَلّ گفتگو
میں گزشتہ شب ملا ہوں ایک دنیا دار سے
اب یہ نقطہ کون سمجھائے امیرِ وقت کو
کچھ مسائل حل نہیں ہوتے فقط گُفتار سے
سرحدیں کر دی گئی ہیں جان کر ٹیڑھی اسد
یہ لکیریں ہوں گی سیدھی ایک دن تلوار سے

سعید سعدی

خزاں کی رُت میں خیالِ بہار لے ڈوبا
ترا فراق ہمیں دیکھ یار لے ڈوبا
نہیں وہ عشق نہیں اور کچھ ہوا ہوگا
اسی لیے تو تمھیں وہ خمار لے ڈوبا
سنا تھا ہم نے گزرتا ہے وقت تیزی سے
مگر ہمیں تو یہاں انتظار لے ڈوبا
مجھے اتار کے شیشے میں اس نے ہنس کے کہا
تمھیں خبر ہے؟ تمھیں اعتبار لے ڈوبا
کبھی نگاہ کرو اس زوال کی جانب
حقیقتوں سے تمھارا فرار، لے ڈوبا
ہیں منتظر کہ پکارے گا ایک دن ہم کو
مگر اسے تو ، انا کا حصار لے ڈوبا
کسی طرح نہیں آتا ہمارے قابو میں
یہ دل ہی تھا جو ہمیں بار بار لے ڈوبا
ہے عاجزی بھی ضروری مگر خیال رہے
یہ کل نہ کہنا پڑے انکسار لے ڈوبا

حصہ