سوشل میڈیا اور خلیل الرحمٰن کا عورت مارچ

816

ہا ہا ہا ہا۔۔۔ نہایت ہی نازک صورتحال ہے ۔کچھ کے لیے بلکہ بہت سوں کے لیے تو اِنتہائی دلچسپ صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ٹی وی چینلز کو ریٹنگ کی دوڑ سی لگ گئی۔ایک ایسا موضوع جسے ایک سال سے کوشش کی جا رہی تھی کہ امسال موضوع نہ بنے لیکن بغیر منصوبہ بندی کے ایسی صورتحال بن گئی کہ مدعا زیر بحث آہی گیا۔ خلیل الرحمٰن قمر سال 2020کی سب سے مقبول اور زیر بحث شخصیت بن گئے ہیں ۔کوئی حمایت میں تو کوئی مخالفت میں ،سوشل میڈیا سے لیکر قومی ٹی وی چینلز میں ۔ہیڈ لائن سے لیکر قومی اسمبلی تک ۔ سب طرف یہی موضوع ۔ ٹوئٹر پر ’ میری زبان میری مرضی‘ ، خلیل الرحمٰن قمر، Women Dignity March، معاشرہ بربادی مارچ، جیسے کئی ہیش ٹیگز مستقل ٹوئٹر وال پر گردش کرکے اس غیر اہم موضوع کو ٹاپ لسٹ میں شامل رکھنے کا کام انجام دیتے رہے۔ ہمیشہ کی طرح نئے نئے کری ایٹیو جملوں سے اس ایشو کو مختلف رنگ دیئے گئے ۔کوئی ماروی سرمد کی حمایت میں مولویوں کے خلاف نبر دآزما رہا تو کوئی خلیل الرحمٰن کی حمایت میں لبرلز اور سیکولرازم کے خلاف سخت جملوں کی پوسٹیں ڈالتارہا۔کسی نے کہاکہ خلیل الرحمٰن قمر ’دانش کی موت‘ پر اتنا مقبول ڈسکس نہیں ہوئے جتنا ماروی سرمد کو دو جملے کہنے پر ہوئے۔
مولانا خادم حسین رضوی کا یہ کلپ بھی بہت وائرل رہا جس میں انہوں نے فرمایاکہ،’’ کلمہ پڑھ لیا تو اب مرضی اللہ کی۔ نبی کریم ﷺ کے آخری عوامی اجتماع میں سخت ترین تنبیہہ یہی تھی کہ ’اتقوالنساء، اتقوالنساء، کہ نبی کریم ﷺ نے جاتے جاتے بھی یہی فرمایا کہ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ آج عورتیں اتنی بے باک ہو کریہ بات کہہ رہی ہیں کہ میرا جسم میری مرضی اور پاکستان کی با پردہ ، باحیاء ، غیرت مند خواتین کو گمراہ کر رہی ہیں۔‘‘ اسی طرح خلیل الرحمٰن کی حمایت میں ’’میرا جسم میری مرضی کہنے والوں کو میری زبان میری مرضی پر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘والی پوسٹ بھی بہت وائرل رہی ۔بنیادی طور پر جو اہم مسئلہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ فی الحال ایک ذو معنی نعرے کے مطالب و مفہوم کا۔ سب نے اس نعرے کو اپنے اپنے شعور ، علم و آگہی کے مطابق ڈیل کیا۔خود اُس مارچ کو یا اُس نعرے کو بنانے والوں کے ذہن میں شاید جو کچھ تھا وہ اُسے کیمو فلاج کر کے پیش کرتے رہے لیکن بہر حال اس کے فی الفور معنی جو اخذ ہوتے ہیں وہ بہر حال پاکستانی معاشرے و روایات کے مطابقت نہیں رکھتے۔ عائشہ غازی کی پوسٹ خاصی مقبول رہی جس میں انہوں نے ایک انتہائی اہم حقیقت یاد دلائی ہے جسے قطعی طور پر مائنس نہیں کیا جا سکتا،’’ماروی سرمد جیسی خواتین کی شان میں گستاخی پر سیخ پا اکثر چہرے وہی ہیں جو اس کائنات کی معزز ترین ہستیوں کے بارے میں زبان درازی کو آزادی اظہار رائے کہتے ہیں اور گستاخوں سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔گستاخوں کی قابلیت بتا بتا کر یہ جتاتے ہیں کہ ان کی دل آزار بکواس کو آزادی اظہار رائے سمجھ کر خوش دلی سے برداشت نہ کرنا اس معاشرے کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے۔لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ اس معاشرے کی اکثریت اب تک بظاہر ان عورتوں کو بھی عزت دینے پر قائل اور قائم ہے جو اخلاقیات، عزت اور غیرت کی نفی پر سرعام بضد ہیں ۔فُٹ نوٹ: یہ رائے صرف آزادی اظہار رائے پر ہے، خواتین کے حقوق پر نہیں۔‘‘ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ تمام قبیلہ جو امہات المومنین خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے خلاف زبان استعمال کرتے ہیں ، نبی کریم ﷺ ، قرآن اور اسلام کے خلاف جو لب و لہجہ سوشل میڈیا ودیگر ابلاغی محاذوں پراستعمال کرتے ہیں یہ بات شاید سب ہی بھول گئے کہ ماروی سرمد کا تعلق اُسی قبیلہ سے ہے ۔اس لیے سب کو عورت سے بدتمیزی یا گالم گلوچ یادآئی عورت کی جانب سے کی گئی بد زبانی تو یاد ہی نہیں آئی۔یہ بات ٹھیک ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر کے ذہن میں یا اُن کو اس بات کا علم ہی نہ ہو وگرنہ وہ اگر یہ بات پروگرام میں یاد دلا دیتے توایک امکان ہے کہ ٹی وی چینلز اس موضوع کو آگے ہی نا بڑھاتے۔مفتی عدنان کاکا خیل لکھتے ہیں کہ ’’ایک عورت‘‘ میرا جسم میری مرضی‘‘ کہہ کر بدکاری و بے حیاء کے جائز ہونے پر اصرار کر رہی تھی اس پر مرد نے اس کو گالی دے دی۔ گالی دینا زیادہ سے زیادہ‘‘ فسق‘‘ ہے مگر حرام قطعی کو حلال کہنا تو‘‘ کفر‘‘ ہے۔اب بتائیے زیادہ برا کس نے کیا اور زیادہ مذمت کا مستحق کون ہے؟نوٹ: ہم کسی بھی مکالمے میں گالی گلوچ کو ہرگز درست نہیں سمجھتے۔‘‘ ڈاکٹر اسامہ لکھتے ہیں کہ ،’’میڈیا نے اس دور میں کیا کچھ نہیں بیچا، اخلاقیات، اقدار روایات اور اب جھوٹ کا کاروبار سرعام۔وجہ صرف اور صرف ریٹنگز۔ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر تنازع اب ہر جگہ بک رہاہے، لیکن اس سب سے بڑھ کر جھوٹ بک رہاہے۔ کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ عامر لیاقت حسین کونسے ڈاکٹر ہیں؟ MBBS یا PhD اور انہوں نے یہ ڈگری کہاں سے حاصل کی؟اگر یہ دونوں میں سے کوئی ڈاکٹر نہیں تو پھر ایک صف اول کا چینل جھوٹ کا پرچار کیوں کررہاہے؟تذکرہ عامر لیاقت کاہو تو یاد آیا کہ انہوں نے خود ساختہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وفاقی جامعہ اردو میں ایم اے اسلامک لرننگ میں داخلہ لیا پرچے ان کی جگہ کوئی اور دیتا تھا کلاس انہوں نے ایک نہیں لی۔ یہ معاملہ کھل گیا تو ایک انگریزی روزنامے کے صحافی نے خبر فائل کی ایڈیٹر نے خبر دبا دی دو دن بعد مذکورہ صحافی نے پوچھا کہ سر وہ خبر تو معلوم ہوا کہ رمضان قریب ہے اور ان کا چینل عامر لیاقت سے رمضان نشریات کے لیے مذاکرات کررہاہے۔لہذا خبر نہیں چھپ سکتی۔ اس صحافی نے کچھ عرصے بعد دلبرداشتہ ہوکر صحافت چھوڑ دی اور ایڈیٹر صاحب اب صحافیوں کو ایک اعلی ادارے میں صحافتی اصول اور اخلاقیات سکھانے پر مامور ہیں۔ سب کردار ابھی زندہ ہیں تصدیق کی جاسکتی ہے۔ لہذا کل ملاکر یہ ہے ہماریمیڈیا کی اخلاقیات۔‘‘
امسال بھی خواتین مارچ نے کئی ماہ قبل سے تیاری شروع کر دی تھی ،بنیادی طور پر تو یہ ورکنگ وومن یا پیشہ وارانہ خواتین کا عالمی دن ہے جسے International Working Womens Dayکہا جاتا ہے۔1917میں سوویت یونین میں خواتین کو ووٹ دینے کا اختیار ملا تو اُس وقت سے یہ دن منایا جانے لگا ۔کوئی 40000کے قریب خواتین نے احتجاجی مارچ کر کے روس کی سوشلسٹ حکومت سے اختیار منوایا۔خواتین کے لیے مساوی شہری حقوق کے لیے 1904میں انٹرنیشنل وومن سفریج الائنس جرمنی میں بنا ۔گویا خود یورپ و مغرب میں خواتین حقوق کے انتہائی بدترین حالات تھے۔Clara Zetkin نامی جرمن مارکسسٹ خاتون حقوق کی رہنما نے 1910 International Socialist Woman’s Conferenceمیں پہلی مرتبہ اسے منانے کی تجویز پیش کی ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1975میں اسے خواتین حقوق و عالمی امن سے جوڑ کر گود لے لیا۔بہر حال یہ جان لیں کہ مسئلہ مغرب اقوام کا تھا وہیں جدو جہد کے مختلف مراحل طے کرتا ہوا ہمارے ملک میں ’تحریک نسواں ‘کے نام پر کسی اور شکل میں پہنچا ہے۔اب اسے عالمی انداز میں منانے کے لیے نعرے ، سلوگن دیئے جاتے ہیں۔ امسال بھی Generation Equality کی تھیم رکھی گئی ہے جس کا مقصد ( مرد و عورت) کو رنگ، نسل، زبان، عمر، مذہب، ملک کے فرق مٹا کر برابر ی کی جانب لانا مقصود ہے۔ دنیا کے 27ممالک میں خواتین کے لیے اس دن آفیشل چھٹی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں آئین، قانون، مذہب میں پہلے ہی خواتین کوبحیثیت مجموعی بہترین حقوق دیئے گئے ہیں ، ہر طرح کی آزادی ، تعلیم، نوکری، کاروبار وغیر ہ سے لے کر سیاسی معاملات میں بھی بے پناہ سہولیات و حقوق حاصل ہیں وہاں ان کے اندر موجود اصل ایشوز کو ڈسکس کرنے یا موضوع بنانے کے بجائے غیر حقیقی موضوعات کو ایشو بناکر اصل موضوع سے موڑا جارہا ہے۔
گذشتہ ایک دہائی سے بیرونی ایجنڈے پر جو کچھ پاکستان میں کیا جارہا ہے وہ اب سب کو سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے۔ پچھلے سال جس طرح سے عورت مارچ کے نام پر جو سلوگن استعمال کیے گئے انہوں نے توسب کو یہی پیغام دیا ہے ۔اسلیے بات رکی نہیں اورمذہبی جماعتوں نے عورت آزادی مارچ کے خلاف مزاحمت کا اعلان کردیا۔ جمعیت علمائے اسلام ف اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے عورت مارچ کے خلاف علیحدہ علیحدہ درخواستیں جمع کرائی ہیں۔جماعت اسلامی نے بھی 8 مارچ کو جی 7 میں عین اسی مقام پر صبح 10 بجے اپنے عورت مارچ کا اعلان کیا ہے جہاں فیمنسٹوں کی جانب سے عورت آزادی مارچ کیا جارہا ہے۔کراچی میں 7مارچ کو جماعت اسلامی بڑا مارچ کرے گی۔جامعہ حفصہ کی مہتمم ام حسان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ 8 مارچ کو حیا مارچ کے نام سے جوابی احتجاج کریں گی کیونکہ اس احتجاج کی شرکاء پردے میں ہوں گی۔اسلام آباد انتظامیہ میں عورت آزادی مارچ کے خلاف دو درخواستیں جمع کرائی جاچکی ہیں، جن میں ایک درخواست مدرسہ جامعہ محمدیہ کے مہتمم علامہ تنویر علوی جبکہ دوسری درخواست شہدا فاؤنڈیشن پاکستان کے ترجمان حافظ احتشام احمد کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عورت آزادی مارچ کے انعقاد سے تصادم کا خدشہ ہے۔علامہ تنویر علوی نے کہا کہ ہم خواتین کے حقیقی مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسائل حل ہوجائیں لیکن جو لوگ یہاں فحاشی اور مغربی ثقافت فروغ دینا چاہتے ہیں، انہیں پاکستان کی اکثریت ناپسند کرتی ہے۔اُدھر عورت مارچ کے منتظمین نے وال چاکنگ خراب کرنے پر مزید وال چاکنگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔فیمنزم کیا ہے؟ مرد ہو یا عورت؛ باہر آکر کہے کہ مجھے میرے گھر والوں سے انصاف دلوا د،ماں باپ اپنی اولاد کیخلاف روڈ پر آجائیں،اولاد اپنے والدین سے شکایات کی فائلیں اٹھا کر میدان میں اتر آئے!
اور شرم ورم بالکل اتار دی جائے! بوائے اینڈ گرل فرینڈز بھی ایکدوسرے سے شکووں کی پٹاری کھول کر سڑکوں پہ نکل آئیں!
یہ دن ہوتا ہے؛ جب کوئی ملک ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے!
جتنی جلدی ترقی چاہئے، اتنا جلدی یہ کام کرنا پڑتا ہے!
کیونکہ عدالتیں، مارکیٹ، ملٹی نیشنل کمپنیز، کارپوریٹ کلچر، ڈیموکریسی؛ یہ سب تب ہی پروان چڑھتے ہیں!
اور انہی کی کامیابی کا نام ملکی ترقی ہوتا ہے!
کیونکہ جدید مارکیٹ؛ عدالتی و پارلیمانی، ڈیموکریٹک سیٹ اپ اور کارپوریشنز کی ”ٹوٹل بقا” ؛
دنیا سے فیملی یونٹ کے خاتمے و تباہی پر منحصر ہے! نظامِ سرمایہ داری خاندانی نظام پر بہیمانہ ضربیں لگائے بنا چار سانسیں بھی نہیں لے سکتا! چنانچہ یہ؛ خاندانی نظام کو نیست و نابود کئے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔۔!!
ظاہر ہے جب کوئی آزاد ہے؛ تو وہ خالق کے باندھے ہوئے رشتوں و تعلقات کو کیونکر قبول کرے گا؟ اور وہ خدا کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی کا پابند کیوں ہوگا؟ یہ سارا منجن تو چلتا رہے گا اس کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل اس ہفتہ بھی کسی نہ کسی درجہ میں موضوع گفتگو رہا ۔افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر بھی خوب بات چلتی رہی۔مزہ جب آیا کہ اس معاہدہ کا کریڈٹ بھی یوتھیوں کی جانب سے عمران خان کو دیا گیا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکہ کے دباؤ پر پاکستان نے اپنی ایجنسی کے ذریعہ طالبان کے کئی گروپس کو آمادہ کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ روس ہو یا امریکہ دونوں کے خلاف جاری جہاد میں پاکستان نے اپنا کوئی نہ کوئی یا کسی قسم کی پشتیبانی کا کردار خفیہ طورپر ہی سہی لیکن رکھا ضرور۔دوسری جانب یہ بھی انکار نہ کی جانے والی حقیقت یہی ہے کہ طالبان نے اپنے جذبہ ایمانی سے یہ 20سالہ جنگ لڑی اور اس میں 60ملکوں کی فوج کو اس طرح گھٹنے ٹکوائے کہ وہ قیام امن کے خوشنما نعرے اور فوج نکالنے کے بہانے معاہدے کی ٹیبل پر آگیا۔ مزہ تو جب آیا کہ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے طالبان رہنما ملا برادر کو فون کیا اور 35منٹ کی اس فون کال میں اقرار کیا کہ ’You are tough people‘۔ ویسے معاہدہ دستخط ہونے کے بعد افغان افواج پر طالبان نے حملہ کیا جو کہ معاہدہ میں شامل نہیں تھے جس کا بدلہ امریکی افواج نے لیا ، اس کے بعد آخری اطلاعات تک یہ معاہدہ عملاً ختم ہو گیا اور جنگ بندی دوبارہ ختم ہو گئی۔بہر حال مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر امریکی شکست اور ایمان کی فتح بھر پور انداز سے منائی گئی۔
دوسری جانب بابائے کراچی نعمت اللہ خان کی خدمات کے تذکرے اور یادیں بھی اُن کے چاہنے والوں کی جانب سے جاری رہیں۔ محمد خالد صدیقی نے اپنے جذبات یوں بانٹے۔

حصہ