یوم خواتین۔۔۔ خوگرِ حمد کا گلہ

674

افشاں نوید
بہت مشکل تھا کہ اس اخیر عمر میں شکوہ زبان پر لاتا۔ اگر اقبال نے شکوہ اور جوابِ شکوہ نہ لکھی ہوتی تو شاید وہ شکوے جو جائے نماز پر کرتا تھا، کفر کے زمرے میں آجاتے۔ اقبال بابے نے بتایا کہ خوگرِ حمد گلہ بھی کرسکتاہے۔
کبھی بہت تھک کر کہتا تھا کہ مولا مجھ مرد کو تو تُو نے پیدا ہی ذمہ داریوں کے لیے کیا ہے۔ ایک صنفِ نازک پیدا کرکے مجھے اس کی چاکری پہ لگا دیا۔ وہ جسمانی کمزور، میں قوی… لیکن میری ساری کمزوریاں اس کا ممتا بھرا وجود ڈھانپ لیتا۔ وہ ہر رشتے میں ماں جیسا دھڑکتا دل رکھتی ہے۔
میں نے زندگی لگائی، زندگی بھر کی کمائی لگا دی۔ میرے پاس تو الماری بھی نہ تھی کہ کپڑے ہی نہ تھے۔ ماں کی الماری میں ہی دو چار جوڑے میرے بھی سما جاتے تھے۔ دو بہنوں کا میں اکلوتا بھائی۔ میرے بچپن میں باپ ٹی بی کے مرض میں خون کی الٹیاں کرتے کرتے دنیا سے منہ موڑ گیا۔ ماں رات دن سلائی کرتی۔ میں میٹرک میں تھا، ماں کی حالت دیکھی نہ جاتی۔ ٹیوشن پڑھانا شروع کردی۔ پھر ایک دوست کے ابا کے میڈیکل اسٹور پر رات تک بیٹھا رہتا۔ ماں بھی پائی پائی جوڑتی۔ اس کے دوپٹے کے پلو میں ہمیشہ گرہ لگی رہتی۔ میں بھی کارنس پر بچھے پھٹے پلاسٹک کے نیچے کچھ نہ کچھ پس انداز کرتا، کہ ماں نے جانے کتنی بیسیاں ڈالی ہوئی تھیں۔ کہیں سو کی،کہیں دوسو کی۔ اب ماں کان میں ڈالتی کہ بیٹا دو بہنوں کی شادی تمہیں باپ بن کر کرنی ہے۔ خدا کی قسم! میں بیس برس کی عمر میں خود کو باپ سمجھتا تھا اپنی بہنوں کا۔ ماں کی عظمت کو سلام، اس نے بہنوں کو پڑھایا، مگر ان کو گھر کے کاموں کے سوا کبھی تلاشِ معاش میں نہ کھپایا کہ یہ پرایا دھن ہیں، آج ہیں کل پرائے دیس ہوں گی۔ ماں نے گھٹی میں یہی ڈالا کہ یہ مہمان ہیں، سو، مہمانوں جیسا اکرام تھا اُن کا۔ میں ان کی آنکھوں میں خوشی تلاش کرتا تھا۔ جب دفتر سے گھر آتا وہ لپک کر چٹخنی کھولتیں، اور ان کی نظریں میرے چہرے کے بجائے میرے ہاتھوں پر ہوتیں۔ لپک کر شاپر لے لیتیں جس میں کبھی جلیبیاں ہوتیں، کبھی نمک پارے، کبھی سموسے، کبھی زیرے کے رجب ماموں کی بیکری کے بسکٹ یا کیک رس۔ تب ماں چائے چولہے پر چڑھا دیتی۔ ماں گوالے سے دودھ ہمیشہ خود لاتی۔ ایک لمبی لائن میں لگ کر دودھ لینا پڑتا۔ اقرار بھائی کے باڑے پر چار بجے سے لائن لگ جاتی اور پانچ بجے جھاگ دار تازہ دوہے ہوئے دودھ کی تقسیم شروع ہوتی۔ ماں کی ضد تھی کہ دودھ باڑے سے ہی آنا ہے۔
گرم گرم چائے کی خوشبو کیا پھیلتی کچے صحن میں کہ میری دن بھر کی تھکن اور کلفت دور ہوجاتی۔
اب بہنیں بیس برس کے پیٹے میں داخل ہوگئی تھیں۔ مجھ سے پانچ برس چھوٹی تھیں، یہ جڑواں بہنیں۔
فاروق میرا لنگوٹیا یار، میرے کڑے وقتوں کا ساتھی، اُس نے اپنی کار شام کے اوقات میں مجھے دے دی کہ بہنوں کی شادی عزت سے ہوجائے۔ اب میں دفتر سے گھر نہ آتا، شام سے رات گئے تک اوبر چلاتا۔ اسٹاک ایکسچینج میں تو میں شیئرز گننے اور ٹیلی فون کالوں کی دنیا میں قید تھا۔ اب ٹیکسی ڈرائیوری نے میرا ایکسپوزر بہت بڑھایا۔
خداوندا یہ تیری دنیا… میں پہروں سر پکڑے سوچتا کہ مولا یہ تُو نے زیادہ ہی اختیار دے دیئے ہیں اس فسادی مخلوق کو۔
میں اور اماں کامیاب ہوگئے۔ دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی دن طے پاگئی۔ شادی کی رات اماں شامیانے میں خوب روئی تھی، اور رات گئے میرے کندھے پر سر رکھ کر کہ… پتر تُو نے باپ بن کر نبھا دیا رشتوں کو۔
سچ پوچھیے تو ماں کے سوا میرے پاس تھا ہی کیا؟ میری بہنیں میری خوشیوں کا حاصل تھیں۔ ان کی خوشیاں خریدتا تھا اور ان کی جھولی میں ڈال کر اپنے حصے کا پیار پاتا تھا۔
اب ماں تنہا ہوگئی۔ اس نے جھٹ پٹ میری شادی کردی۔ اس کی بچپن کی سہیلی کی بیٹی تھی۔ شہلا زندگی میں کیا آئی کہ مجھے بہار کا مفہوم سمجھ میں آگیا۔ رنگ اور خوشبو مجھے اچھے لگنے لگے، جو کبھی کبھی یاسیت کے دورے پڑتے تھے اس کی دھنک رنگ چنری سب دکھ چھپا لیتی تھی اماں کے بھی اور میرے بھی۔
اس نے آتے ہی گھر سنبھال لیا۔ وہ بھی چودہ جماعت پاس باشعور لڑکی تھی۔ مجھے تو رب سے الفاظ مانگنا پڑتے تھے۔ میری لغت میں شکرکے سب لفظ اس کی محبت کے سامنے تھوڑے پڑ گئے تھے۔
زندگی اُس وقت لرز کر رہ گئی جب میری بہن شادی کے تین برس بعد بیوہ ہوگئی۔ اس کا میاں برساتی نالے میں بہہ گیا۔ ایک دن بعد لاش ملی۔ اس کی سوا سال کی بیٹی تھی اور گود میں بیٹا۔ یہ تین لوگ پھر ہماری زندگی میں شامل ہوگئے۔ میری ماں اور بیوی نے ہاتھوں کا چھالا بناکر رکھا میری بہن نجمہ کو۔ بہن خوددار تھی، اُس نے بھی اسکول میں ملازمت کرلی۔ ماں دن میں اُس کے بچے سنبھالتی، اب پھر رات گئے تک اماں کے کمرے سے سلائی مشین کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
ہاں میں بتانا بھول گیا کہ اللہ نے شادی کے ایک برس بعد میرے گلشن کو مہکا دیا جب حمزہ دنیا میں آیا۔ دو برس بعد میری بیٹی مریم پیدا ہوئی۔ جب اسپتال میں نرس نے بتایا کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے تو لمحے بھر کو میں کانپ گیا۔ اُس رات میں بہت کھل کے رویا تھا۔ مولا میں کہاں اس قابل کہ بیٹی کا باپ بنوں! تُو نے مجھے اس رتبے کے قابل سمجھا۔ اب تک میری زندگی میں تین عورتوں ماں، بہن اور بیوی کا پیار تھا۔ مریم کو جب میں نے دیکھا تو بھینچ لیا اس کو سینے سے لگا کر۔ جب کوئی آدمی بیٹی کا باپ بنتا ہے تو خود کو آسمانی مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔ مجھے لگتا تھا میرے نصیبوں کو بھی پَر لگ گئے ہیں۔
دنیا بھر کے باپوں کا سروے کرلیں، وہ بیٹے کے بارے میں عقل اور بیٹی کے بارے میں جذبات سے کام لیتے ہیں۔ بیٹی کی محبت کا کوئی بدل نہیں۔ جب وہ بولنے لگی اور بانہیں میرے گلے میں ڈال کر بابا کہتی تھی تو میں سوچتا تھا کہ باپ کیسے بیٹیوں کو بیاہ دیتے ہیں؟
میرے پاس تو جگرا نہیں کہ بیٹی کسی کو دے سکوں…
میری تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہی مریم تھی۔ بہن کے دو بچے، دو میرے… یہی کُل کائنات ٹھیرے۔ سگے بہن بھائیوں جیسے… میں کبھی بھول جاتا کہ کون سا میرا بچہ ہے، کون سا بہن کا۔
جوانی میں تو کبھی خیال نہ آیا، مگر اب مارچ کے مہینے میں بیبیاں پوسٹرز اٹھاکر کھڑی ہوتی ہیں کہ تمہارا کھانا کیوں گرم کروں؟ تمہارا جوتا کیوں پالش کروں؟ تمہارا موزہ کیوں ڈھونڈوں؟… تو سوچتا ہوں کہ… کیا ہم ہی وفادار نہیں!!
مغربی معاشرے کا مرد اپنی جوانی تو انجوائے کرلیتا ہے۔ نہ ماں کا حق ادا کرتا ہے نہ بہن کا۔
ایک کے بعد ایک گرل فرینڈ بدل کر جوانی کے مزے لوٹتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ سنگل مدر اور اسٹیٹ مل کر پال لیتے ہیں۔ وہ بھنورا بنا پھول پھول کا رس کشید کرتا پھرتا ہے۔
ایک مسلمان مرد تو ان چار محترم نسوانی رشتوں کو نبھانے میں اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ یہ رشتے ہی تو اس کے جیون میں رس گھولتے ہیں۔ گھاٹے میں کوئی بھی نہیں تھا کہ قانونِ فطرت یہی ہے۔
آج ستّر جب برس کی عمر میں پوتی پوتوں کی چہکار سے میرا آنگن مہکتا ہے، میں نے اپنا سات نمبر کا چشمہ صاف کرکے ان نعروں کو دوبارہ پڑھا ہے۔ ہڈیاں زندگی بھر کی مشقت اور رشتوں کے بوجھ سے نہیں ان نعروں سے چٹخ گئی ہیں… میری چٹختی ہوئی ہڈیاں کہہ رہی ہیں کہ یہی reformation of Islam ہے!
میری (مرد کی) قربانیوں کا صلہ اسے الزام کی صورت میں نہ دو… ہاں، ہاںreformation کی ایک صورت میرے ذہن میں آئی ہے… تو سنو…
لے ذرا سی مٹی کی اک چکنی ڈلی
ڈال پانی، گوندھ اس کو زور سے
اور بنا دو بت حسین و لاجواب
ایک بت کی شکل ہو تیری طرح
دوسرا بت ہو میری طرح
بت شکن بن کر انھیں اب توڑ دے…
اب بنا پھر دونوں کے بت…
ایک اپنا…… اک میرا…
اب میرے بت میں ہے کچھ تیرا وجود…
اور تیرے بت میں ہے کچھ پیکر میرا…
زندگی کی کون سی طاقت بتا…
تجھ کو کر سکتی ہے اب مجھ سے جدا…
(چینی شاعر مادام کوآن کی نظم کا اردو ترجمہ)

حصہ