جدید ترقی و تمدن اور مولانا مودودیؒ

900

مریم جمیلہ مرحوم/ ترجمہ: شفیق الاسلام فاروقی/ مرتب: اعظم طارق کوہستانی
اس مختصر مضمون کا مقصد‘ معروف عالمی شخصیت مولانا مودودی کی تحریروں سے یہ بات سامنے لانا ہے کہ عصرِ حاضر کی نشات جدید کی فکر اور ترقیات کے تمدنی پہلو پر آپ کی کتنی گہری نظر تھی۔
اس مضمون میں جدیدیت (Modernity) کے مسئلے میں ذاتی رائے سے قطع نظر میں مولانا مودودی کی سوچ و فکر کو یک جا پیش کر رہی ہوں تاکہ ایک قاری اپنی جگہ یہ فیصلہ کر سکے کہ آپ عصرِحاضر میں اسلام کی نشات جدید کو جدید کاری سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کس حد تک کوشاں تھے!
اس حقیقت کا مولانا مودودی کے انتہائی معتمد اور بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد نے ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تحریکِ اسلامی کی بین الاقوامی محاذ پر تہذیب جدید کی توجہ، قرنِ اولیٰ کے صحیح اسلامی ذرائع کی طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں پر کسی قسم کی سودے بازی اور پسپائی کے بغیر پیش آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، گویا کہ اس کے ہاں ’جدید کاری‘ کے لیے تو ’ہاں‘ ہے، مگر مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ’جدیدیت‘ کاشکار ہونے کے لیے’ہرگز نہیں‘ ہے۔ تحریکِ اسلامی ایک طرف پوری طرح سے ترقی اور جدید کاری کا بخوبی ادراک رکھتی ہے، دوسری طرف مغرب زدگی اور سیکولرازم کا بھی شعور رکھتی ہے۔ اس کش مکش میں دونوں نظریات کے حامل انتہاپسند ہیں، خواہ وہ مغرب زدہ ہیں خواہ عام روایتی عناصر، سوچنے سے عاری ہیں۔۱ ؎
آگے چلیے، میری رائے میں مغربیت اور جدیدیت کے درمیان کوئی حد امتیاز قائم کرنا عبث ہے کہ نتائج کے لحاظ سے دونوں قطعی یکسانیت کے حامل ہیں۔
اب آیئے! مولانا مودودی کے ایک اور رفیق کار جناب خرم مراد مرحوم (۹۶ – ۱۹۳۲ء) کے ہاں، جو جدید اصطلاحات کے استعمال کے بارے میں کہتے ہیں:
مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بعض مغربی الفاظ جو ہماری روزمرہ کی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، وہ اب حقیقت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب معاملہ ہم پر ہے کہ ہم ان کو اپنے ہاں جگہ دیں یا نہ دیں، اور انھیں بس اغیار کے الفاظ سمجھ کر ان سے اجتناب کریں۔ لیکن جب تک ہم اس روش پر جمے رہیں گے، مغرب، اسلام کے بارے میں کچھ سننے کا روادار نہ ہو گا — اب جہاں پر معاشرے پر حاوی کسی اجنبی کلچر کی اصطلاحات کا غیر ضروری استعمال اپنے اندر کئی خطرات رکھتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ اپنی پیش رفت کے لیے اسے (بڑی حکمت سے) استعمال میں لایا جائے۔ چنانچہ بعض اصحاب جو بعض مغربی الفاظ کے شدت سے خلاف ہیں، وہ بھی ان کے بعض الفاظ کو استعمال کرنا کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے نزدیک ’تحریک‘ (movement) ، ’نظام‘ (system) اور ’انقلاب‘ (revolution) کے الفاظ نا پسندیدہ ہیں، تو اسلامی جمہوریت، اسلامی ری پبلک اور اسلامی سٹیٹ وغیرہ کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا بذات خود یہ الفاظ مغربیت اور اس کے مضمرات کے حامل نہیں؟ بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐ کا کامل اور صحیح شعور ہی حقیقی رہنما ہو سکتے ہیں — اس مقصد کے لیے صرف وہ الفاظ ہی استعمال کیے جائیں جو دونوں ثقافتوں میں غیر جانب دار (نیوٹرل) اور انسانی فکروعمل کے حامل ہوں۔ موثر(dynamic) نظریہ (ideology) اور جمہوریت (democracy) اب کسی کلچر کے لیے غیر نہیں رہے۔۲ ؎
مولانا مودودی کی پرورش اور تربیت ایک ایسے اسلامی گھرانے میں ہوئی، جہاں آپ کے والدین دونوں بے داغ پاکیزہ سیرت کے مالک تھے۔ ابھی آپ کی عمر تقریباً سترہ برس تھی کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ لیکن جیسے ہی آپ عمر کے اس حصے میں داخل ہوئے، آپ کو بیرونی اثرات نے آلیا اور عارضی طور پر اسلام سے منسوب مروجہ ہیئت نے آپ کا اعتماد متزلزل کردیا‘ تا آنکہ قرآن و حدیث کے والہانہ انداز میں مطالعے نے دوبارہ اسے پوری طرح بحال کر دیا، جس کا آپ نے ان الفاظ (جولائی ۱۹۳۹ء) میں تذکرہ کیا ہے:
’’دوسرے رفقا کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کیا حال ہے‘ مگر اپنی ذات کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ‘ اسلام کو جس صورت میں‘ میں نے اپنے گرد و پیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا‘ میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا‘ وہ یہی تھا کہ اس بے روح مذہبیت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا‘ کیونکہ میرے اندر نازی فلسفے کی طرف کوئی میلان نہیں ہے کہ محض حیات قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور ازسرنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ تھا۔ اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کیا‘ جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل اور انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نے انفرادی حسنِ سیرت اور اجتماعی عدل کا ایک ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا‘ جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا — پس درحقیقت میں ایک نو مسلم ہوں۔ خوب جانچ کر اور پرکھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لیے فلاح و صلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے۔ میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں‘ بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں‘ اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے‘ جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔ بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آئو اُس ظلم و طغیان کو ختم کر دیں جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے‘ انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹا دیں اور قرآن کے نقشے پرایک نئی دنیا بنائیں‘ جس میں انسان کے لیے بحیثیت انسان کے شرف و عزت ہو‘ حریت اور مساوات ہو‘ عدل اور احسان ہو۔۳؎
مولانا مودودی نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز تیرہ سال کی کم عمری میں، ’آزادی نسواں‘ کے حامی ایک عرب ادیب قاسم امین (قاہرہ ۱۹۰۰ء) کی عربی تصنیف المرۃ الجدیدہ ]جدید خاتون[ کے اُردو ترجمے ] ۱۹۱۶ء[ سے کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے مغربی فکر کو اپناتے ہوئے ’’پردہ‘‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اگرچہ سید مودودی کے والد اور آپ کے عرب استاد نے کتاب کے مضمون سے بیزاری کا اظہار کیا‘ لیکن اس اُردو ترجمے کی ]روانی‘ سلاست اور چٹخارے دار محاورے[ زبان پر عش عش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم بعدازاں آپ جس انداز سے ’’پردہ‘‘ کی پُرزور تائید کے ساتھ عورت کے بارے میں کلاسیکل انداز فکر کے مظہر نظر آتے ہیں‘ اسے طبعی امر سمجھنا چاہیے — اگرچہ وہ مسودہ محفوظ نہیں‘ ] اور نہ شائع ہوا ہے[ تاہم اپنی جگہ یہ امر ایک راز ہی رہے گا کہ آپ نے اتنی کم عمری میں المرۃ الجدیدہ جیسی کتاب کو کیوں ترجمے کے لیے منتخب کیا۔
محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے قبل کلاسیکل عربی ادب اور شاعری کے بارے میں مولانا مودودیؒ،بالخصوص قبل از اسلام شاعری کے بارے میں ایک سخت رائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
ذرا ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دیکھو‘ — عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا — اس کے اردگرد ایران‘ روم اور مصر کے ملک تھے‘ جن میں کچھ علوم و فنون کا چرچا تھا مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سب سے جدا کر رکھا تھا۔ — خود عرب میں کوئی اعلیٰ درجے کا تمدن نہ تھا‘ نہ کوئی مدرسہ تھا‘ نہ کوئی کتب خانہ تھا‘ نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا تمام ملک میں گنتی کے چند لوگ تھے جن کو کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا‘ مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے — وہاں کوئی باقاعدہ حکومت بھی نہ تھی۔ کوئی قانون بھی نہ تھا — آزادی کے ساتھ لوٹ مار ہوتی تھی — اخلاق اور تہذیب کی اُن کو ہوا تک نہ لگتی تھی۔ (دینیات ۱۹۷۷ء‘ ص ۶۰ – ۶۱)۴؎
مولانا مودودی نے پیغمبر اسلام حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے بلند ترین مقام کی وضاحت کے لیے شان دار کام کیا ہے‘ اسے آپ رسالہ دینیات میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
پھر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی تعلیم و تربیت سے انھی عربوں کو وحشت اور جہالت سے نکال کر اعلیٰ درجے کی مہذب قوم بنا دیا۔ جو عرب کسی قانون کی پابندی پر تیار نہ تھے‘ ان کو ایسا پابند قانون بنا دیا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی پابند قانون نظر نہیں آتی — یہ تو وہ اثرات ہیں جو عرب قوم پر ہوئے۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اثرات اس امی صلی اﷲ علیہ و سلم کی تعلیم سے تمام دنیا پر ہوئے — حیرت یہ ہے کہ جنھوں نے اس کی پیروی سے انکار کیا‘ وہ بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکے — اس نے قانون اور سیاست اور تہذیب و معاشرت کے جو اصول بتائے وہ اتنے پکے اور سچے اصول تھے کہ مخالفوں نے بھی چپکے چپکے ان کی خوشہ چینی شروع کر دی۔ (دینیات ‘ ص ۶۸ – ۶۹۔ ibid, p 52)
اسی پر مولانا مودودی بس نہیں کرتے‘ بلکہ جب آپ وہاں کے ماضی بعید کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تو حاضر کے مقابلے میں آپ حیران کن انداز میں انسانیت کی سوچ کا رخ ایک صحیح طرف موڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ متعدد مقامات پر تحریر فرماتے ہیں: یہ رسول اللہؐ ہی ہیں‘ جنھوں نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نکالا اور خردمندی کا راستہ دکھایا‘ حقیقت پسندی کے ادراک اورعقل و دانش کی قدر سکھائی۔ یہی وجہ ہے‘ جس نے انسانیت کو سائنسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔
(جاری ہے)

کلچر

سید مودودیؒ

اب ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے لوچ دار انداز ِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے روکتا ہے، کیا وہ یہ پسند کر سکتا ہے کہ عورت سٹیج پر پر آ کر گائے ، ناچے، تھرکے،بھاوّ بتائے ؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں؟یا کلبوں میں اور مخلوط مجالس مین بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت کریں اور ہنسی مذاق کریں ؟یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کیا گیا ہے ؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے، اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کردی جائے۔

حصہ