بہادر یار جنگ اکیڈمی کے زیراہتمام نواب میر عثمان کی یاد میں مشاعرہ

875

نثار احمد نثار
۔27 فروری 2020 کی شب بہادر یار جنگ اکیڈمی کراچی کی جانب سے ریاست حیدرآباد دکن کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خان کی برسی کے موقع پر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پروفیسر سحر انصاری کی صدارت تھی جو کہ بوجوہ تشریف نہ لاسکے لہٰذا منتظمین مشاعرہ نے اختر سعیدی کی صدارت میں پروگرام شروع کیا۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بہادر یار جنگ اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری پروفیسر خواجہ قطب الدین نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس ادارے کے تحت 29 فروری 2016ء کو نواب عثمان علی خان کی یاد میں مشاعرہ کیا تھا یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ نواب عثمان علی خان ریاست حیدرآباد دکن کے آخری فرماں روا تھے ان کی علمی و ادبی خدمات کے سبب انہیں ’’محسنِ اردو‘‘ کہا جاتا ہے۔ تحریکِ قیام پاکستان میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہ مسلمان کے سچے خیرخواہ تھے۔ بہادر یار جنگ اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر سید وسیم الدین نے نواب عثمان علی کو منظوم خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ بتایا کہ نواب صاحب کی خدمات علم دوستی اور علم پرستی کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی خاص طور پر نواب صاحب کا پہلا کارنامہ جامعہ عثمانیہ کا قیام 1921 میں ہوا جس میں تعلیم و تربیت کے نئے دور کا آغاز ہوا‘ جہالت کی تاریکیوں میں اس یونیورسٹی کا اہم کردار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نواب عثمان علی خان نے دارالترجمہ قائم کیا جس کے تحت معروف انگریزی کتابیں اور بہت سی دوسری اہم کتب کے ترجمے اردو میں کیے گئے۔ ان تراجم سے علم دوست شخصیات نے استفادہ کیا۔ میر عثمان علی خان ایک نفیس انسان تھے ان کی ریاست میں عدل و انصاف کا بول بالا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ زندگی کی سہولتیں میسر ہوں تاکہ ان کی زندگی آسان گزرے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد 1948 میں نواب میر عثمان علی خان نے پانی کے دو جہاز سونے سے لدے ہوئے پاکستان روانہ کیے جس کی مالیت اس وقت کے حساب سے 20 کروڑ روپے تھی۔ اس کثیر رقم سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان 1948ء میں قائم ہوا۔ انہوں نے سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ناظم تقریب سلمان صدیقی نے کہا کہ بہادر یار جنگ اکیڈمی شعر و ادب کے حوالے سے بھی ایک معتبر حوالہ ہے اس پلیٹ فارم سے اردو زبان و ادب کے لیے ادبی محافل سجائی جاتی ہیں۔ آج بھی بہت عمدہ تقریب کا اہتمام کیا ہے اس وقت بھی پنڈال میں سامعین کی بڑی تعداد موجود ہے جب کہ آج کراچی میں دو بڑے اداروں کے مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن بہادر یار جنگ اکیڈمی میں پنڈال بھرا ہوا ہے اور شعرا کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ یہ ان کے لیے اعزاز ہے کہ وہ آج کے اہم اور یادگار مشاعرے کے صدر قرار پائے‘ آج کی محفل میں شعرا کی تعداد کم تھی اس لیے ہر شاعر نے تین تین غزلیں سنائیں ورنہ عام طور پر ہر شاعر ایک ہی غزل سناتا ہے جو کہ اس کا سب سے اچھا کلام ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بہادر یار جنگ اکیڈمی کے تمام عہدیداران و اراکین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں یہ ادارہ بھرپور حصہ لیتا رہے گا۔ اس موقع پر شعرائے کرام کی خدمت میں ٹی اے ڈی اے بھی پیش کیا یعنی کیش ایوارڈ ۔ مشاعرے کے اختتام پر تمام شعرائے محفل کو شاندار عشائیہ پیش کیا گیا جس میں حیدرآبادی کھانوں سے بہت لطف آیا۔ یہ مشاعرہ ہر لحاظ سے کامیاب تھا اس قسم کے مشاعرے دوسرے اداروں کو بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ مشاعرے میں اختر سعیدی‘ اجمل سراج‘ حجاب عباسی‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ صفدر علی انشاء اور غلام مصطفی عاجز نے اپنا کلام نذر سامعین کیا اس کے علاوہ ڈاکٹر وسیم نے نواب عثمان علی خان کے چند اشعار پیش کیے۔

بزم نگارادب پاکستان کی تقریب پزیرائی اور مشاعرہ

گزشتہ دنوں کراچی کی ادبی تنظیم بزم نگار ادب پاکستان نے ریحانہ احسان اور روبیہ ممتاز کے شعری مجموعے کی تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ مہمانان خصوصی منیف اشعر ملیح آبادی اور زیب اذکار تھے۔ مہمانانِ اعزازی ریحانہ روحی اور ریحانہ احسان تھیں۔ مہمانان توقیری روبینہ ممتاز اور خالد میر تھے۔ تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت واحد حسین رازی نے حاصل کی۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے حصے میں شعری مجموعوں پر گفتگو کی گئی جس میں نسیم شیخ نے کہا کہ روبینہ ممتاز بہت عرصے سے شاعری کر رہی ہیں اس سے قبل ان کا ایک شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ’’روبی‘‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے دلی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے مناظر بھی قلم بند کیے ہیں۔ ان کی شاعری سچے جذبوں کی عکاس ہے جب کہ ریحانہ احسان کے شعری مجموعہ ’’روشنیوں کے ایک ہالے میں‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے زیب اذکار نے کہا کہ وہ ریحانہ احسان کو 4 عشروں سے سن رہے ہیں ان سے اکثر و بیشتر مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ان کی شاعری میں نسائی مسائل نظر آتے ہیں جب کہ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں زندگی کے مختلف مناظر Paint کیے ہیں ان کا ترنم بھی بہت اچھا ہے امید ہے کہ یہ مزید ترقی کریں گی۔ پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ انہوں نے ریحانہ احسان اور روبینہ ممتاز کے حالیہ مجموعے تو نہیں پڑھے تاہم وہ ان دونوں شاعرات سے واقف ہیں۔ ان دونوں شاعرات کی شاعری ان کی سماعت میں محفوظ ہے یہ دونوں بہت عمدہ اشعار کہہ رہی ہے انہیں لفظوں کی نشست و برخواست پر دسترس حاصل ہے‘ ان کے یہاں غمِ دنیا بھی موجود ہے اور غزل کا اپنا رنگ بھی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اردو محاورات کا برمحل استعماِل کیا ہے۔ دونوں شاعرات پختہ کار ہیں تاہم روبینہ ممتاز سے ریحانہ احسان سینئر ہیں وہ ان دونوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ نگار ادب پاکستان‘ ادب کے فروغ کے لیے تواتر سے ادبی پروگرام منعقد کر رہی ہے اس تنظیم کے سربراہ جو سخاوت علی نادر بہت محنت و لگن کے ساتھ شاندار مشاعرے کر رہے ہیں‘ ان کے پرخلوص ساتھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں یہ تنظیم اچھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ آج کا مشاعرہ بھی ان کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس موقع پر بزم نگار ادب کی جانب سے خالد میر‘ ریحانہ احسان اور روبینہ ممتاز قادری کو نگار ادب ایوارڈ پیش کیا گیا جب کہ منیف اشعر کی خدمت میں اجرک پیش کی گئی۔ پروگرام کے دونوںدور کی نظامت واحد حسین رازی نے کی جب کہ پروفیسر منظر ایوبی‘ منیف اشعر‘ زیب اذکار حسین‘ ریحانہ روحی‘ ریحانہ احسان‘ خالد میر‘ روبینہ ممتاز‘ فیاض علی فیاض‘ عبدالمجید محور‘ حامد علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ حنیف عابد‘ نسیم شیخ‘ عظیم حیدر رسید‘ یوسف چشتی‘ افسر علی افسر‘ افضل ہزاروی‘ واحد رازی‘ ضیا زیدی‘ چاند علی‘ وسیم احسن‘ اسحاق خان‘ یاسر سعید صدیقی‘ کاشف علی ہاشمی‘ شائق شہاب‘ عتیق الرحمن سید‘ شجاع الزماں خان‘ عاشق شوقی‘ علی کوثر‘ مرزا حیات خصر‘ ساجدہ محبوب‘ ناز عارف طاہر سلیم سوز‘ خالد دانش اور دیگر شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا اور خوب داد وصول کی۔

آرٹس کونسل کراچی میں سالگرہ مشاعرہ

آرٹس کونسل کراچی فنونِ لطیفہ کی تمام اصناف کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ روزانہ کی بنیاد پر یہاں پروگرام ہو رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ احمد شاہ کی سربراہی میں اس ادارے نے بہت ترقی کی ہے۔ اس کریڈٹ پر بے شمار کامیاب پروگرام موجود ہیں۔ احمد شاہ نے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جوکہ اپنی ذمہ داریاں پوری طرح سے ادا کر رہی ہیں۔ اسپیشل یونٹ کمیٹی کاشف گرامی کی نگرانی میں کام کر رہی ہے جس کے تحت فروری میں پیدا ہونے والے شعرا کے ساتھ سالگرہ مشاعرے کا اہتمام کیاگیا جس میں کیک کاٹا گیا اور شعرائے کرام کی خدمت میں پھولوں کے تحائف پیش کیے گئے۔ اس سالگرہ مشاعرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی۔ محمود شام مہمان خصوصی تھے جب کہ منصور سحر نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر صاحب صدر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آرٹس کونسل کراچی میں سالگرہ مشاعروں کا انعقاد قابل فخر اور قابل تحسین ہے۔ سالگرہ مشاعروںٍ میں ہر نسل کی نمائندگی ہو رہی ہے یہ سلسلہ اردو ادب کی پروموشن میں اہم کردار کا حامل ہے۔ صدر آرٹس کونسل محمود احمد شاہ نے آرٹس کونسل کو فن و ثقافت کا بنیادی مرکز بنا دیا ہے اس ادارے میں ہونے والے تمام پروگرام نہایت شان دار ہوتے ہیں۔ آج بھی بہت عمدہ سامعین آئے ہیں جس کا تمام کریڈٹ احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ احمد شاہ نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہم نے جب سے آرٹس کونسل کراچی کا چارج سنبھالا ہے پوری دیانت داری اور خلوص سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد اہالیان کراچی کو علمی و ادبی پروگرام کی فراہمی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم زندگی کے تمام شعبوں کو نمائندگی دے رہے ہیں ہمارے تمام ایونٹ باہمی مشاورت سے ہوتے ہیں میں اپنی ٹیم کا کیپٹن ہوں جہاں میری ضرورت ہوتی ہے میں رہنمائی کرتا ہوں۔ عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے جس سے اردو کی ترویج و ترقی میں مدد ملتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ شعرائے کرام کا سالگرہ مشاعرہ یادگار پروگرام ہے ہم سب کی خوشیوں میں شریک ہیں۔ مشاعرے میں صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سرور جاوید‘ راشد نور‘ سیما غزل‘ سلیم فوز‘ یعقوب غزنوی‘ طاہر سلطانی‘ عزیزالدین خاکی‘ عطا تبسم‘ صفدر صدیق رضی‘ تزئین راز زیدی‘ اصغر خان‘ نسیم شیخ‘ شائق شہاب‘ تبسم فاطمہ رضوی‘ عباس ممتاز‘ ظفر معین بلّے‘ سبیلہ انعام صدیقی‘ غنی الرحمن انجم‘ ڈاکٹر شمع افروز‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ حیا غزل‘ ماہ نور خان زادہ‘ رشکِ حبیبہ‘ علیزہ زہرہ‘ طوبیٰ حیات اور صدام حسین سومرو نے کلام سنایا۔

غزلیں

پروفیسر جاذب قریشی

جیسا میں ہوں مجھے ویسا نہیں رہنے دیتا
مجھ کو اک چہرہ شکستہ نہیں رہنے دیتا
اس کے ہونٹوں کو وہ اظہارِ ہنر آتا ہے
جو کہانی کو ادھورا نہیں رہنے دیتا
تیری خوشبو کے تعاقب میں بہت اُڑتا ہوں
تُو مرے جسم کو پیاسا نہیں رہنے دیتا
جس کی دیوار پہ مہتاب اتارے میں نے
وہ مرے گھر میں اجالا نہیں رہنے دیتا
پہلے وہ دشتِ سفر میں مجھے خود بھیجتا ہے
پھر کسی پیڑ میں سایہ نہیں رہنے دیتا
دھوپ کے شہر سے میں لوٹ تو جاتا لیکن
موسمِ شب مجھے زندہ نہیں رہنے دیتا
وہ نہیں جانتا پرواز کی لذت ورنہ
کسی پنجرے میں پرندہ نہیںرہنے دیتا

پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی

زندگی ہم ایسے بسر کر رہے ہیں
تھک چکے ہیں لیکن سفر کر رہے ہیں
نیند تو کب کی لے گئیں اس کی آنکھیں
مرغ اب اعلانِ سحر کر رہے ہیں
کیسے ہم سورج کے تعاقب میں نکلیں
جب کہ سایہ ہم پر شجر کر رہے ہیں
دشتِ امکاں ہے اور پرندوں کے بچے
اُڑنے کی ضد بے بال و پَر کر رہے ہیں
اک یہی کیا کم ہے کہ تیرے طرف دار
اس خرابے میں بھی گزر کر رہے ہیں
ہجر سے اب تنہا نہیں لڑ سکیں گے
آئینے کو ہم با خبر کر رہے ہیں
آنے والے شاداب لمحے ابھی سے
میرے ذہن و دل پر اثر کر رہے ہیں

حصہ