مہلت

417

سیدہ عنبرین عالم
۔’’لاالٰہ الا اللہ‘‘… محمد ادریس شاہ ہلکی ہلکی آواز میں پڑھتے جارہے تھے، ساتھ ساتھ کپڑوں کی کٹنگ بھی جاری تھی۔ وہ اپنے کام میں محو تھے۔ ماشاء اللہ علاقے کے سب سے بہترین درزی تھے۔ چار ملازم بھی تھے۔ روز کے 8 سے 9 سوٹ سی لینا معمول کی بات تھی۔ ادریس صاحب انتہائی عبادت گزار آدمی تھے، وہ سمجھتے کہ انسان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت کی امانت ہے۔ بار بار تذکرہ کرتے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اس لیے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ان کے ملازم بھی کام کے دوران اپنے پاک رب کا نام لیتے رہتے۔ ماحول کا اثر تھا کہ کام میں برکت پڑ گئی تھی، اور آخرکار ادریس صاحب کا اپنے گھر کا خواب بھی پورا ہوا۔ ان کے تین بیٹے تھے، اس لیے ایسا گھر لیا کہ چار منزلیں ہوں، سب سے نیچے ادریس صاحب اور ان کی بیگم، اور اوپر کی تین منزلوں پر تین بیٹے رہیں۔ ابھی تو بچے چھوٹے تھے۔ رفیع 18 سال کا، شفیع 15 سال کا، اور سمیع 13 سال کا، مگر ادریس صاحب نے ان کے مستقبل کے لیے گھر بنا لیا تھا۔ فی الحال تو سب نیچے رہ رہے تھے اور اوپر کی منزلیں کرائے پر اٹھا دی تھیں۔ چھوٹا سمیع، ادریس صاحب کا بہت لاڈلا تھا اور ان کے قابو میں بھی آجاتا تھا، اس لیے اسکول کے بعد اُسے دکان پر کام بھی سکھاتے اور مسلسل اُس کے ذہن میں دین، اور دل میں عشق الٰہی انڈیلتے رہتے۔
سمیع: ابا! یہ حضرت خالد بن ولیدؓ ہر وقت حالتِ جنگ میں کیوں رہتے تھے؟ دوسری طرف حضرت ابوہریرہؓ ہر وقت صرف احادیث پر کام کرتے رہتے تھے، کیا ان دونوں کو جنت میں بھیج دیا جائے گا؟
بابا: بیٹا، یہ سب تو اللہ کے فیصلے ہیں کہ وہ کس کو کیا صلاحیت دیتا ہے‘ انسان کی بس یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ جس صلاحیت سے نوازا گیا ہے، اُسے اپنے رب کی راہ میں صرف کرے۔
سمیع: لیکن اگر حضرت خالد بن ولیدؓ کو احادیث یاد نہیں ہوں گی تو وہ اپنے مفتوح علاقوں میں پیارے نبیؐ کا دین کیسے رائج کریں گے؟ اور اگر حضرت ابوہریرہؓ جہاد میں حصہ نہیں لیں گے تو ان کے ایمان کی آزمائش کیسے ہوگی؟
بابا: اُف یہ آج کل کے بچے… بیٹا، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ابلیس کو کیوں دھتکارا گیا‘ حالانکہ وہ ہزاروں سال میرے اللہ کا سب سے زیادہ مقرب رہا، کیا اس کا قصور صرف ایک نافرمانی تھا؟
سمیع: بابا، وہ مخلص نہیں تھا، اس کی عبادت بھی منصب حاصل کرنے کے لیے تھی، اللہ کے لیے نہیں تھی۔
بابا: درست بیٹا۔ اس کے پاس تین ’ع‘ تھے، چوتھا نہیں۔ یعنی اس کے علم تھا، عقل تھی، عبادت تھی، مگر عشق نہیں تھا۔ یاد رکھنا جس کے پاس عشق ہے، وہی جیتے گا چاہے باقی تین ’ع‘ نہ ہوں۔ لیکن جس کے پاس سب کچھ ہے، عشق نہیں ہے، وہ ہمیشہ رسوا ہوگا۔
سمیع: اس بات کا میرے سوال سے کیا تعلق؟
بابا: (مسکراتے ہوئے) بیٹا، جس کے پاس عشق ہوتا ہے، اس کی سب بتیاں جل اٹھتی ہیں۔ عشق وہ بیج ہے جس سے علم، عقل، عبادت، شجاعت اور رحمت کے پودے نمو پاتے ہیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں زیادہ نہیں رہے، لیکن وہ مومن تھے، ان کے پاس عشق تھا، اس لیے جہاں جہاں وہ قدم رکھتے، فتح بھی حاصل کرتے اور بندوں کے دلوں کو اللہ کے نور سے بھر دیتے۔ میرے بیٹے! ہم بچپن میں کہانیوں میں ایک پارس پتھر کا ذکر سنتے تھے، اس پتھر سے جو چیز چھو جائے وہ سونا بن جاتی۔ ایک مومن بھی پارس کی مانند ہوتا ہے، اس کے قریب، اس کی صحبت میں جو ہوتا ہے وہ بھی رفتہ رفتہ مومن بن جاتا ہے۔ یہ عشق کی طاقت ہے، خلوص کا جادو ہے۔ اگر حضرت ابوہریرہؓ اور ان کی ٹیم مسلسل احادیث ریکارڈ کرنے کا کام نہ کرتی تو آج ہم تک جو دین پہنچتا وہ آدھا، ادھورا ہوتا۔ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین لیڈر تھے، وہ جانتے تھے کہ کس صحابیؓ کو کس کام کے لیے مختص کرنا ہے۔ وہ بلالؓ کو اذان کا حکم دیتے ہیں، علیؓ کو خیبر پر حملے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ علیؓ کو اذان کا حکم نہیںدیتے اور بلالؓ کو خیبر فتح کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ ایسا وہ لیڈر کرسکتا ہے جس کی جڑیں عوام میں ہوں۔ جو بھوکے، ننگے عوام کے درمیان سے لینڈ کروزر میں گزر جاتے ہیں وہ ہرگز نہیں جان سکتے کہ اپنے عوام کی صلاحیتوں کو کیسے استعمال کرنا ہے۔
سمیع: (سوچتے ہوئے) ابھی ہمارے پاس نہ وہ لیڈر ہے، نہ وہ عشق ہے۔ امتِ مسلمہ کا ہر فرد صرف دو روٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اور جو مسلمان وسائل رکھتے ہیں وہ حلال حرام کے فرق سے بے نیاز اپنے پیٹ کو ایسا جہنم بنا چکے ہیں جو مسلسل ’’ہل من مزید‘‘ پکارے جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں بہت کم مسلمان ایسے ہیں جو اپنی صلاحیتیں دین کی راہ میں صرف کررہے ہیں۔ حکومتی سطح پر عوام کی صلاحیتوں اور تخلیقی قوتوں کی تربیت تو درکنار، لکھنا پڑھنا سکھانے والے اسکول بھی کسی لائق نہیں۔ بیشتر استاد رشوت اور اقربا پروری کے ذریعے ملازمت حاصل کرتے ہیں۔
بابا: ہاں بیٹا! صورتِ حال خاصی گمبھیر ہے، ہم جیسے لوگ جو تمام باتوں کو سمجھتے ہیں، وہ بھی فرائض سے غافل ہیں، اور صرف اللہ کے ناموں یا قرآنی آیات کے ورد کو عادت بناکر ذمہ داری سے فارغ ہیں۔
سمیع: بھلا ایک درزی دینِ اسلام کی بقا کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے! آپ میں تو کوئی ایسی صلاحیت بھی نہیں جو دین کو نفع پہنچائے۔ جو کماتے ہیں اس سے گھر بنالیا، ابھی تک قرضے اتار رہے ہیں۔
بابا: ہاں بیٹا! ایک بات سوچو، میں زندگی کے 48 سال محنت کرتا رہا، آج کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی بھر کیا کرتے رہے؟ تو میں کہوں گا بس ایک گھر بنا لیا جسے میرے مرتے ہی میرے بچے بیچ کر رقم کے حصے بخرے کرلیں گے۔ دو عمرے کیے، نمازیں، روزے، ذکرِ الٰہی اور بس… اگر آج انڈیا اور پاکستان کی جنگ ہو، ایک بم میرے گھر پر گرے تو میری 48 سال کی محنت مٹی کا ڈھیر… اگر یہی محنت میں اللہ کی راہ میں کرتا تو آخرت تو سنورتی۔
سمیع: معاش کی تگ و دو گناہ نہیں ہے، بے شک آپ دین کی خدمت نہیں کرسکے لیکن اگر آپ نے جوانی دین کی بقا میں خرچ کردی ہوتی تو آج آپ بے گھر ہوتے، نہ کوئی ہنر ہوتا، نہ ذریعہ معاش، آپ کے بچے سڑکوں پر کچرا چن رہے ہوتے۔
بابا: (چہرے پر کرب لیے ہوئے) بیٹا! شام، عراق، لیبیا اور مصر کے خوش حال لوگوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ پہلے نوکری کرلیں، شادی کرلیں، بچے پال لیں، گھر بنا لیں، اس کے بعد دین اور وطن کے لیے کچھ کریں گے۔ انہیں اللہ نے مہلت نہیں دی۔ میرے بچے! آج وہ ایک ایک روٹی کو ترس رہے ہیں، ان کے بیوی بچے ان کی آنکھوں کے سامنے چیتھڑے ہوگئے اور وہ شدید برف باری میں سڑکوں کے کنارے پڑے بھیک مانگ رہے ہیں۔ نہ ان کے گھر کام آئے، نہ پیسہ، نہ خاندان۔ اللہ نے پاکستان کو بڑی ڈھیل دی ہے، ہم کو اس مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ فی الوقت ہمیں آدھی روٹی کم کھانی پڑے مگر اپنی روح بچا لو، عشق بچالو، مہلت کم ہے۔
سمیع: بابا! آپ اور میں دین کے لیے کیا کرسکتے ہیں! کون سا انقلاب آجائے گا! ہمارے پاس تو صحیح لیڈر تک نہیں ہے۔ ہم بے سمت، بے عقیدہ، جذبے سے عاری ہجوم ہیں۔ ہم نہ امت ہیں، نہ عاشق۔
بابا کچھ دیر چپ رہے، وہ جانتے تھے کہ سمیع جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔
بابا: عافیہ صدیقی کو جانتے ہو ناں… تنہا عورت، چھوٹے بچوں کا ساتھ۔ مگر وہ نہیں ڈری۔ حکمرانوں نے اسے بیچ دیا، مگر وہ نہیں ڈری۔ بیٹا! ہم تو کڑیل مرد ہیں، سوچو ہم سے کیسی پوچھ گچھ ہوگی۔ آج میرے رب کا دین لاوارث ہے، بتائو ہم کیا جواب دیں گے بیٹا! ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہے، رب کو راضی کرنے کا راستہ۔ اپنا راستہ ڈھونڈو۔ اللہ وظیفوں، نعتوں اور لنگروں سے راضی نہیں ہوگا جب کہ دین بے عافیت ہے، عافیہ بے عافیت ہے۔ اپنا عشق اللہ کے سامنے ثابت کرو۔ بحیثیت باپ میرا جو فرض تھا، میں نے ادا کردیا۔ جو مجھے کسی نے نہیں سمجھایا تھا، وہ میں نے تمہیں سمجھا دیا ہے۔ آج کی نسل ہم سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ تم جانتے ہو تمہیں کیا کرنا ہے۔
…٭…
سمیع نے کچھ عرصے میں میٹرک کرلیا۔ رفیع اور شفیع الیکٹریشن کا کام سیکھ کر دبئی چلے گئے تھے۔ اب سمیع کی مکمل توجہ باپ کے کاروبار پر تھی۔ وہ نیٹ سے دیکھ کر ایسے ایسے ڈیزائن تیار کرتا کہ اس کے بنائے ہوئے لباس ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔ پانچ سال کی محنت کے بعد اس نے ایک بوتیک کھول لیا، کئی ملازم رکھ لیے اور باہر کے ملکوں سے بھی آرڈر لینے لگا۔ ادریس صاحب اب بھی اس بوتیک کے کٹنگ ماسٹر تھے۔ سمیع باقاعدہ فیشن شوز بھی کروانے لگا تھا۔ آج تک وہ راستہ تلاش کر رہا تھا اپنے رب کو راضی کرنے کا… اور وہ راستہ اب واضح ہونے لگا تھا۔ لندن، امریکا، فرانس، جرمنی جہاں بھی وہ دیکھتا کہ کسی مارکیٹ میں انڈین ایکسپورٹر کی حکومت قائم ہو چکی ہے، اپنا برانڈ پیش کر دیتا۔ مشرقی و مغربی امتزاج سے بنائے گئے اس کے اچھوتے ڈیزائن اس قدر دیدہ زیب ہوتے کہ سال دو سال میں سمیع کی ایکسپورٹ بڑھ جاتی اور انڈین ایکسپورٹر کی چھٹی ہوجاتی۔ وہ آٹھ سال میں تقریباً 20 انڈین ایکسپورٹرز کو ناکوں چنے چبوا چکا تھا۔ اس کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل چکا تھا۔ وہ پاکستان کے لیے نہ صرف کثیر زرمبادلہ کما رہا تھا، بلکہ دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان زیر عتاب ہوتے، وہ جتنی ہوسکے، مدد کرتا۔ کئی اسلامی تنظیموں سے اس کے رابطے تھے، ایسی تنظیمیں جو اسلام کی سربلندی کے لیے کام کررہی تھیں، جو مجبور اور بے کس مسلمانوں کا سہارا تھیں۔ وہ بھی راہِ خدا کا مجاہد تھا، وہ معاشی محاذ پر لڑ رہا تھا۔ وہ انڈیا کے کئی برانڈ فیل کرچکا تھا اور پاکستانی برآمدات بڑھ گئی تھیں۔ وہ ایک ایسا مجاہد تھا جس کے ہاتھ میں تلوار نہیں بلکہ سوئی دھاگہ تھا۔
…٭…
سمیع اب 55 سال کا ہوچکا تھا۔ وہ ادریس صاحب کی قبر پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’بابا! مجھے صرف کپڑے سینے آتے تھے، اپنے اس ہنر سے ہی میں اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے جو کرسکا، میں نے کیا۔ مجھے اللہ نے یہی صلاحیت دی تھی، میں نے اسی کو اللہ کی راہ میں استعمال کیا۔ میں نے اپنے رب سے سچا عشق کیا ہے، کاش وہ سوہنا رب میرے عشق کو قبول کرلے۔ میرے پاس روزِِ قیامت پیش کرنے کو کچھ بھی نہیں، صرف تھوڑا سا عشق!‘‘ وہ کہہ رہا تھا اور اس کی آنکھیں تر تھیں۔

حصہ