ویمن امپاورمنٹ

356

حمیرا خالد
۔’’کیا زمانہ آگیا ہے، کبھی سوچا نہ تھا کہ عورت اتنی بے وقعت بھی ہوگی۔‘‘ بیگم شیراز نے آہ بھرتے ہوئے سامعین کی طرف دیکھا۔ وہ ایک بڑے پلیٹ فارم پر خواتین امپاورمنٹ کے سیمینار میں شریک تھیں۔ خواتین کے مسائل کی کہانیاں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں۔ وقت پر شادیاں نہ ہونے کی وجہ سے کہیں بچیاں نفسیاتی ہورہی ہیں، تو کہیں مائیں ذہنی دبائو کے تحت دوائیں کھانے پر مجبور ہیں۔ کل ہی تو جہاں آرا بیگم اپنی اکلوتی بیٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوئی جارہی تھیں۔ یوپی انڈیا کے اعلیٰ خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ اعلیٰ تہذیب اور حیا کی چادر میں پرورش ہوئی، لیکن بھلا ہو نئی تہذیب کا، انگریزی تعلیم نے بول چال ہی نہ بھلائی، کھانا پہننا بھی فراموش کردیا۔ اب گھر کی پکی ہنڈیا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور دروازے پر ریڈی میڈ کھانا آموجود ہوتا ہے۔ ایک پھیکا سیٹا، بے رنگ و بو… مگر آراستہ و پیراستہ خوان، جو کسی من و سلویٰ سے کم نہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان بے ہنگم کھانوں سے زبان کا ذائقہ ہی تبدیل نہیں ہوا جسم بھی فربہ ہوگئے۔ اب تلاش کرتے پھرتے ہیں کیسے اور کب تک ورزش سے جسم کو سڈول بنایا جائے… ورنہ یہ بے ڈول جسم مسائل کا طومار ہے۔
جہاں آرا کی بچی خوش شکل، اعلیٰ تعلیم یافتہ، صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود رشتے کے معاملے میں انتہائی بدنصیب یوں ہی تو تھی۔ کوئی ایک جھلک دیکھ کر دوبارہ رخ نہ کرتا۔ ہر کسی کو دبلی پتلی، بلند قامت اور گوری رنگت کی جو چاہ تھی۔ جہاں آرا بتا رہی تھیں کہ وہ تو اب شادی شدہ بچوں والے، طلاق یافتہ لڑکے کو بھی قبول کرلیں گی۔ اگرچہ پارہ پارہ ہوتے دل سے زبان لڑکھڑا رہی تھی، آنکھوں سے آنسو کی لڑی بہہ رہی تھی۔ اس بے باپ کی بچی کے سوا اُن کا کوئی تھا بھی تو نہیں۔
مسز شیراز سوچ رہی تھیں کہ ایسی ہی بچیاں یقینا کسی امپاورمنٹ کی مستحق ہیں۔ مسز جمال کا بیٹا جو باپ کے کاروبار میں واجبی سا حصہ دار تھا، لیکن عیاشی کی زندگی میسر تھی، تعلیم بھی ڈگری کی حد تک تھی ورنہ اخلاقی حالت تو ناقابلِ بیان۔ رشتہ ان کو بھی میسر نہ تھا۔ اسی کوشش میں بچے کی عمر 30 سے اوپر نکل گئی تھی، مگر بہو ابھی بھی کم عمر چاہیے تھی اور قد کاٹھ بھی عمدہ درکار تھا۔ ہاں مال دار نہ بھی ہو تو کچھ لینا دینا نہیں، لیکن صورت کے معاملے میں اونچ نیچ گوارا نہیں۔ اب اس چوکھٹے میں کوئی کیونکر فٹ ہوسکے! اسی لیے بچے کے سر پر سہرا نہ سجا سکیں۔ اللہ ایسے بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے۔ نفس زور آور ہوجائے تو روکے نہیں رکتا۔ اس مخلوط معاشرے میں دست درازی سے محفوظ رہنے کے لیے کتنی امپاورمنٹ درکار ہوگی؟ مسز شیرازی سوالیہ نشان تھیں۔ شبانہ بیگم کا تو قصہ ہی الگ تھا۔ دو بچیاں کُل کائنات تھیں۔ حیا و تہذیب سے مالا مال۔ اعلیٰ تعلیم نے ان کے اخلاق و کردار کو اور بھی سنوار دیا تھا۔ فرماں بردار ایسی کہ دنیا رشک کرے۔ کتنے ہی گھرانوں سے پیغام آئے، لیکن شبانہ بیگم اپنی تنہائی اور بڑھاپے کا سوچ کر گھبرا اٹھتیں کہ بچیوں کو ہرگز بھی دور دیس نہیں بیاہیں گی۔ خاندان میں جس نے بڑھ کر گلے لگانا چاہا اتفاق یہ کہ وہ سبھی وطن سے دور لے جانے والے… دیکھتے ہی دیکھتے وہ وقت آ لگا کہ جب باپ صاحبِ فراش ہوگئے اور شبانہ بیگم تنہا بچیوں کے نصیب سے کشتم کشتا تھیں۔ اللہ اللہ کرکے چھوٹی بچی کے نصیب نے زور مارا اور اپنے گھر کی ہوئی۔ لیکن شبانہ بیگم کی ضد نے ایسی بندش کی کہ اب ماں بیٹی مستقبل سے خوف زدہ تھیں کہ نہ جانے کون کس کو تنہا چھوڑ جائے۔ اللہ جانتا ہے عورت کسی عمر میں بھی ہو، اس کا امپاورمنٹ کے بغیر سماج میں رہنا ممکن نہیں۔ مسز شیرازی ان ڈھیر ساری چلتی پھرتی کہانیوں کے تانے بانے بُنتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھیں تو زبردست تالیوں سے استقبال ہوا۔ ایک معروف کونسلر اور میچ میکر کے طور پر اُن کی بہت خدمات تھیں۔ وہ انتہائی دکھی لہجے میں ان تمام مسائل کی سنگینی کا اعتراف کررہی تھیں جو اس وقت کے معاشرے میں ہر طرف عورت کو درپیش ہیں، اور یہ احساس بھی قابلِ تحسین ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو عورت کو اس کی بے بسی اور لاچاری سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے خواتین کی بعض انجمنیں بہت ذوق شوق سے اس مشن پر کام کررہی ہیں، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی…
مرض کی وجوہات کو نظرانداز کرکے محض مرہم پٹی کردی جائے تو عارضی تدبیر تو ہوجاتی ہے لیکن امراض وبائی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت تو اس بات کی ہے کہ خاندان کا استحکام اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ مغرب کی آزادی کو جنت تصور کرکے ہم نے بہت دھوکا کھایا ہے۔ اس نقصان کی تلافی کرتے ہوئے ہم پھر دھوکے پہ دھوکا کھا رہے ہیں۔ مغربی اقوام جو خود اپنے معاشروں کو ظلم و زیادتی اور ناانصافی سے نہ بچا سکیں، ہم اُن سے ہی تعلیم اور تعمیر میں مدد لینے کے خواہاں ہیں۔ ہمارے ملک میں بڑے منظم طریقے سے ذہن سازی کی جارہی ہے۔ یہ کام بیرونی امداد سے ہماری اپنی این جی اوز کرتی ہیں۔ یہ انجمنیں عمدہ صلاحیت رکھنے والی لڑکیوں کو استعمال کرتی ہیں۔ مسز شیراز امپاورمنٹ دلانے کا نعرہ لگانے والی این جی اوز کی حقیقت کھول رہی تھیں جو محض کاغذی رپورٹس پر تعمیر و اصلاح کے سبز باغ دکھا رہی ہوتی ہیں۔ مسز شیراز نے بتایا کہ افسوس تو یہ ہے کہ غریب گھرانوں کی ذہین بچیاں ان کی آلۂ کار بن جاتی ہیں، ان کے نزدیک خاندانی نظام سے بغاوت کرنا، اسلامی حد بندیوں کو پامال کرنا ہی عورت کی امپاورمنٹ ہے۔ اس مقصد کے لیے گائوں، بستیوں کا رُخ کیا جاتا ہے، خیراتی سرمائے سے سائیکلیں تقسیم کی جاتی ہیں، تعلیم کی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے سادہ لوح بچیوں کو سائیکلنگ سکھاکر خودمختاری کی تعلیم دی جاتی ہے، خاندانی روایات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بننے سنورنے اور خوب صورت تراش خراش کے لباس کی چاہت پیدا کرکے ان بچیوں کو قریب کرلیناکچھ بھی دشوار نہیں ہوتا۔ وہ جلد ہی ان کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں۔ وہ ادب، احترام، حیا جو باپ اور بھائی کے سائے میں حاصل تھی، اب امپاورمنٹ کے نام پر ہر لڑکی بغاوت پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ انہیں یہی تو سبق دیا جاتا ہے کہ عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں، عورت وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو مرد بھی نہیں کرسکتا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے عصمت پارہ پارہ ہوتی ہے تو کوئی حرج نہیں، ہاں باپ اور بھائی جیسے رشتوں سے ضرور شاکی رہا جائے۔
مسز شیراز خبردار کررہی تھیں کہ ایسی این جی اوز نے جا بجا بیرونی امداد سے بہت اعلیٰ دفاتر کھول رکھے ہیں جہاں نوجوان بچوں اور بچیوں کو عارضی ملازمت بھی ملتی ہے، خیراتی وظائف پر بیرونِ ملک کے سفر اور تعلیمی مواقع بھی۔ پُرکشش مستقبل کے سنہرے خواب غریب خاندان کے بچوں کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں۔ والدین کی قید و بند سے رہائی، شادی کی فکر نہ بچوں کا جھنجھٹ، آزادی ہی آزادی، میں اور میری مرضی… یہ ہے وہ ناسور جو اندر ہی اندر ہمارے خاندانی نظام کو کھوکھلا کررہا ہے، ہر رشتہ دوسرے سے شاکی بنا دیا گیا ہے۔ اصل امپاورمنٹ جو گھر کی ملکہ کو حاصل تھی، اس سے چھین لی گئی ہے۔ عورت نے گھر کی دہلیز چھوڑی تو معاشرہ قندیل بلوچ، حریم شاہ جیسے کرداروں کو جنم دینے لگا مگر ملکہ کا تاج نہ پہنا سکا۔
اب سے پہلے جو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا، اب وہاں مکمل سناٹا تھا۔ چمکتے دمکتے چہروں پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی، گھاس کی جڑوں میں پانی سرایت کرچکا تھا، اور سوکھی جڑوں کو سیراب کررہا تھا۔ سامعین کچھ سوچنے پر مجبور تھے۔ اس دور کے فتنے کس غضب کے ہوتے ہیں۔ مسز شیراز نے حق گوئی کا قرض اتار دیا تھا۔

حصہ