مکالمہ

516

صائمہ عبدالواحد
ٹرن…ٹرن…فون کی گھنٹی بجتی ہے۔
ریسیور اٹھاتے ہی ایک مرد بھاری آواز میں ہیلو کرتا ہے۔ فون کرنے والی خاتون سلام کرتی ہیں اور ریسیور اٹھانے والے شخص سے مخاطب ہوتی ہیں ’’میں آج کی عورت ہوں، سنا ہے آپ بیک وقت مرد و عورت کے حقوق کے علم بردار ہیں۔‘‘
’’جی! آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔‘‘
آج کی عورت : سنا ہے آپ رائٹر بھی ہیں!
رائٹر: جی جی آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔
آج کی عورت: اوہ! اس کا مطلب ہے کہ آپ میرے مسائل لازماً دنیا کے مردوں تک پہنچائیں گے۔
رائٹر : جی خاتون! ہم اپنے قلم کا پورا حق ادا کریں گے، آپ فرمائیے،کیا کہنا چاہتی ہیں۔
آج کی عورت : بات شروع کرنے سے پہلے آپ کو یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ تحمل سے میری بات سنیں گے۔
رائٹر: جی جی خاتون، میں جانتا ہوں اگر عورت بولنا شروع کردے تو اسے کون چپ کروا سکتا ہے!
آج کی عورت: اس کا مطلب ہے آپ میری بات تسلی سے سنیں گے۔ بات شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں مردوں کے خلاف نہیں ہوں، اور نہ ہی میں مرد کی قوّامیت کے خلاف ہوں۔ بنیادی طور پر میں کسی ایک مرد کو خواتین کے حقوق کا قاتل بھی نہیں سمجھتی۔ میں یہ دیکھتی ہوں کہ بعض اوقات عورت مرد کے ساتھ مل کر دوسری عورت کے حقوق کی دشمن بن جاتی ہے۔ میں آپ کو الجھانا نہیں چاہتی، مگر کیا کروں میں خود ڈسٹرب ہوں، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو حقوق مجھے اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیے ہیں وہ مجھے ایک اسلامی معاشرے میں کیوں نہیں مل رہے!
اگر میں دو بیٹوں کے بعد پیدا ہوئی تو خیر ہے، میرے آنے پر خوشی بھی منائی جائے گی، مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ لیکن اگر میں کسی گھر میں چوتھی یا پانچویں بیٹی بن کر پیدا ہوگئی تو سمجھ لیجیے میرے نصیب وہیں سے پھوٹ گئے۔ مجھے منحوس، باپ پر بوجھ، اور نہ جانے کون کون سے القابات سے نوازا جائے گا، بلکہ مجھے ہی نہیں، مجھ سمیت میری تمام بہنوں کو طعنے ملیں گے، اور یہ طعنے دینے والیاں کوئی اور نہیں بلکہ میری اپنی پھوپھی، دادی اور میری دوسری رشتے دار عورتیں ہی ہوں گی۔
میں پڑھائی میں بہت اچھی ہوں لیکن مجھے آگے پڑھنے کا موقع نہیں دیا جاتا، میرا باپ مجھے آگے پڑھانا چاہتا ہے، مگر میرے معیار کے مطابق رشتہ نہ ملنے پر پریشان رہتا ہے۔ میں پڑھ لکھ کر اچھی نوکری کرنا چاہتی ہوں، مگر اس معاشرے کے وحشی مرد میرے ماں باپ کو خوف زدہ رکھتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اگر پڑھی لکھی ہو اور جاب کرتی ہو تو سسرال والوں کا لالچ بڑھ جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے نکھٹو اور آوارہ لڑکے کے لیے ایک کماؤ بیوی لے آئیں اور پھر آرام سے اس کی کمائی کھائیں۔ اگر میں بہت زیادہ پڑھی لکھی ہوں، نوکری پیشہ ہوں تو میرے شوہر، میرے سسرال والوں کو میرے کردار پر شک ہونے لگتا ہے، بعض اوقات مجھ پر بدکردار ہونے کا الزام لگا کر مجھے گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ میں اپنی حدود میں رہ کر دنیا میں جینا چاہتی ہوں، لیکن کیا کروں یہ مردوں کا معاشرہ مجھے جینے ہی نہیں دیتا۔
میرا شوہر مجھے ہر وقت طلاق کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، مجھ سے میرے بچے چھین کر مجھے میری مامتا سے دور کردیتا ہے، مجھے تڑپاتا ہے، مجھے طلاق دے کرمیرے ماں باپ کی عزت کو اپنے پیروں تلے روند دینا چاہتا ہے۔
میں تمام شوہروں کو برا نہیں کہتی۔ میرا شوہر بہت اچھا ہوتا ہے۔ میرے اور میری اولاد کے ناز نخرے اٹھاتا ہے۔ کہیں میں اپنی اولاد کی خاطر رسوا ہوتی ہوں، کہیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں رسوا ہوتی ہوں۔ اگر کسی کی دوسری بیوی ہوں تو پھر میرا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ میرے شوہر کے مرنے کے بعد اُس کے پہلے بچے ساری جائداد پر قابض ہوجاتے ہیں، جبکہ اللہ نے میرا حصہ مقرر کیا ہے۔
اگر میں کسی وڈیرے یا جاگیردار کی بہن ہوں تو میرا جاگیردار بھائی میری شادی قرآن سے کروا دے گا۔ مجھے کمرے میں بند رکھا جائے گا۔ کیونکہ میرے بھائیوں کو ڈر ہے کہ میری شادی کے بعد میرے شوہر، میرے بچے میرے باپ کی جائداد میں حصے دار بن جائیں گے۔ جب کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے مجھے اس وراثت میں حصے دار ٹھیرایا ہے۔
آج میں دیکھتی ہوں کہ فیمنزم کا نعرہ لگانے والیاں میرے بنیادی مسائل سے ناآشنا ہیں۔ میں گھروں میں کام کرنے والی ماسی ہوں، میرے چھ سے آٹھ بچے ہیں، میرا شوہر یا تو کماتا ہی نہیں، یا پھر اس کی کمائی میں ہمارا گزارا نہیں ہوتا۔ میں اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے کام کرتی ہوں۔ دیکھا جائے تو میں ہر شعبے سے وابستہ ہوں، میں نرس ہوں، بس میں کنڈیکٹر ہوں، میں ڈاکٹر ہوں، میں ایک آفس میں کام کرتی ہوں، میں ٹیچر ہوں، میں پروفیسر ہوں، میں پائلٹ ہوں، پولیس اور فوج کے شعبے سے بھی وابستہ ہوں۔ غرض میں صبح نکلتی، اور شام، اور کبھی کبھار رات کو سڑکوں پر دھکے کھاتی گھر پہنچتی ہوں۔ اس معاشرے کے وحشی مرد میری اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، مجھے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں، مجھ پر ہر روز تشدد کرتے ہیں، میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری پھول سی بچی کو مسل کر رکھ دیتے ہیں۔ میں حوا کی بیٹی کسی جگہ محفوظ نہیں۔ میں فیمنزم کا نعرہ لگانے والیوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ میں یورپ کی عورت کی طرح آزادی نہیں چاہتی، مجھے یورپ کی عورت کی طرح حقوق نہیں چاہئیں، میں مردوں کے مدمقابل آنا نہیں چاہتی۔ بس مجھے عزت کی روٹی اور اپنے گھر کا سکون چاہیے، جہاں میں اپنے بچوں کو اپنے پروں میں ڈھانک کر انہیں اس معاشرے کے وحشی درندوں سے بچا سکوں۔ ان کی صحیح تربیت کرکے انہیں معاشرے کا بہترین مرد بنا سکوں، ایسا مرد مرد جو عورت کو عزت دینا جانے۔
میرا خیال ہے رائٹر صاحب میں آپ کا زیادہ وقت لے رہی ہوں، مگر کیا کروں ابھی تو میری بات شروع ہوئی ہے۔
رائٹر: بہن فرمائیے، حقیقت یہ ہے کہ میں بھی سننا چاہتا ہوں کہ آج کی عورت کیا کہنا چاہتی ہے۔
آج کی عورت : سچ پوچھیے تو آپ کے منہ سے بہن کا لفظ سن کر بہت اچھا لگا۔ بہن اور بیٹی کے الفاظ ہمارے لیے وقار کا باعث ہیں۔ میں آپ کو بتلاؤں آدھے لباس پہن کر پھرنے والیوں کو میں عورت نہیں سمجھتی۔ میں تو ان کو آج کی عورت کے لیے ذلت کا سامان سمجھتی ہوں۔ ہم عورتوں کا وقار اسی لیے بلند نہیں ہوتا کیونکہ عورتیں روپوں کی خاطر کھلونا بنتی ہیں اور تمام عورتوں کی عزت مٹی میں ملا دیتی ہیں۔
لیکن یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ کبھی مرد عورت کو کھلونا بنا دیتا ہے اور اسے جیسے چاہے استعمال کرتا ہے۔ اس میں تو ان عورتوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔
میں عورتوں کے ٹی وی اور میڈیا پر کام کرنے کے خلاف نہیں ہوں، اور نہ ہی میں عورت کے گھر سے باہر کام کرنے کے خلاف ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ عورت اپنی عزت اور وقار کو قائم رکھے، اپنے علم وہنر کا استعمال کرے مگر اپنے دائرے میں رہ کر۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ عورت کے سپرد وہ کام کیے جائیں جن کو کرتے ہوئے اس کی خانگی زندگی اور اس کے بچے متاثر نہ ہوں۔ میں فیمنزم کا نعرہ لگانے والیوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ آج ہر شعبے میں عورت کو گھسیٹا جا رہا ہے، جبکہ عورت و مرد کے دائرۂ کار الگ ہیں، ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں بھی الگ ہیں۔ عورت فل ٹائم جاب نہیں کرسکتی اور نہ ہی نائٹ ڈیوٹی کرنا اس کے لیے آسان ہے، تو کیوں ناں اس حوالے سے کام کیا جائے کہ عورتیں جن شعبوں میں بآسانی اپنے فرائض سر انجام دے سکتی ہیں اُنہی شعبوں سے عورتوں کو منسلک کیا جائے۔ ہر شعبے میں عورت کو نہ گھسیٹا جائے۔
میرے نزدیک فیمنزم کا نعرہ لگانے والی عورتیں بھی مردوں کے ہاتھ کھلونا ہیں۔ یہ دراصل عورت کے حقوق کی علم بردار نہیں بلکہ کیپٹلزم کی شاخ ہیں۔ یہ عورت کو گھر سے باہر نکال کر کاروبار کو چمکانا چاہتی ہیں۔
اگر عورت مرد ایک ہی دائرے میں کام کریں گے، اگر عورت مرد کے برابر کمائے گی، اس کے شانہ بشانہ قدم سے قدم ملا کر چلے گی، تو پھر کیوں کر مرد کو قوّام سمجھے گی! کیسے اسلامی معاشرہ وقوع پذیر ہوگا!
اسلام کا مطلوب معاشرہ عورت کو اس کے بنیادی حقوق فراہم کرسکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہرشعبے میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو نہ گھسیٹا جائے۔ جیسے رائٹر ہونا، لکھنے لکھانے کا کام… عورتیں یہ بآسانی گھر بیٹھے کرسکتی ہیں۔
رائٹر کھنکارتے ہوئے…
آج کی عورت: نہ نہ رائٹر صاحب ! میں آپ کے رائٹر ہونے کے خلاف نہیں ہوں، یہ تو ذہنی صلاحیتیں ہیں جو مرد و عورت میں بیک وقت ہوسکتی ہیں۔ مگر اس میدان میں عورتیں بھی بہترین خدمات سرانجام دے سکتی ہیں، بلکہ دے رہی ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ اسلام کی آغوش میرے لیے رحمت، اور مرد کا ساتھ ہی میرے تحفظ کا ضامن ہے۔ میں ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنا چاہتی، لیکن جو مرد اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہے ہیں اُن تک اپنی بات ضرور پہنچانا چاہتی ہوں۔
میں آج کی عورت مرد کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں اس کے لیے رحمت ہوں، اس کے وجود کا حصہ ہوں ایک بیٹی کی صورت میں۔ مَیں اس کی جنت ہوں ایک ماں کی صورت میں۔ مَیں اس کی بہترین رفیق اور ساتھی ہوں ایک بیوی کی صورت میں۔ مَیں اس کے بچپن کی دوست ہوں ایک بہن کی صورت میں۔ وہ میرا ایک حق ادا کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو میں خود ہی اس کے سارے حق ادا کردیتی ہوں۔ میرے وجود میں کائنات نے سارے رنگ بکھیر دیے ہیں۔
ایک مرد کا مکان گھر نہیں بن سکتا جب تک ایک عورت اسے گھر نہ بنائے۔ تو پھر ایک بستی، ایک شہر، ایک ملک کے مکانات میرے بغیر کیسے گھروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں جب تک کہ میں ان میں اپنی وفا اور محبت کے رنگ نہ بھر دوں! میں ان رنگوں کو بھرنے کا موقع چاہتی ہوں، میں اپنے ملک، اپنے شہر اور اپنے گھر کو ہرا بھرا گلستان دیکھنا چاہتی ہوں، بلکہ ایک بات اس سے بڑھ کر کہنا چاہتی ہوں کہ تخلیقِ کائنات میں… میں اکیلی رنگ نہیں بھر سکتی جب تک کہ مجھے ایک محرم مرد کا ساتھ میسر نہ ہو۔ رائٹر صاحب آپ سن رہے ہیں ناں؟
رائٹر: جی جی! آپ درست کہہ رہی ہیں، بلکہ آپ نے مجھے ایک نئی سوچ اور ایک نیا زاویہ فراہم کیا ہے، اور معاف کیجیے گا میں بھی اسی معاشرے کا ایک مرد ہوں اور مجھ سے بھی کئی عورتیں attached ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میں بھی جانے انجانے کہیں نہ کہیں ان عورتوں کے حقوق غصب کرنے کا مرتکب رہا ہوں۔
عورت ریسیور رکھ دیتی ہے، مگر ساتھ ہی اس معاشرے کے ایک مرد کو ایک نئی سوچ دے جاتی ہے۔

نازشِ فخر دو عالمؐ

الماس مہکری

نازشِ فخرِ دو عالم نورِ چشمِ مصطفیؐ
مطہرِ حسنِ رسالت ہر ادائے فاطمہؓ
بانوئے شاہ ولایت مادرِ کل اولیاء
ہے بنائے دین و ایماں بر بنائے فاطمہؓ
آیتِ تطہیر کی تفسیر تھا دورِ حیات
انتہائے قدس و حرمت ابتدائے فاطمہؓ
شمعِ ایماں ماہِ عرفاں رہبرِ دنیا و دین
محفلِ ہستی میں پھیلی ہے ضیائے فاطمہؓ
چادرِ فرق مبارک رہن بہرِ سائلین
عام تھا فیض و کرم جود و سخائے فاطمہؓ
ہے معطر نگہت زہراؓ سے گلزارِ حرم
آبروئے طبقۂ نسواں عطائے فاطمہؓ
اللہ اللہ یہ مقامِ عظمت و شانِ بتولؓ
امتِ مرحوم ہے وقفِ ثنائے فاطمہؓ
جس سے راضی ہوں محمدؐ اُس سے راضی ہے خدا
اور محمدؐ کی رضا ہے بر رضائے فاطمہؓ
دونوںعالم میں اسی کا بول بالا ہو گیا
اٹھ گئے جس کے لیے دستِ دعائے فاطمہؓ
جادہ دنیا میں رہبر نقشِ پائے فاطمہؓ
ظلِ رحمت ہے سرِ محشر ردائے فاطمہؓ

عورت

مہوش کمال

٭ ایمان کے بعد ایک بڑی نعمت اچھی بیوی ہے۔ (حضرت عمرؓ)۔
٭ عورتوں کو سونے کی پیلاہٹ نے ہلاک کر رکھا ہے۔ (حضرت ابوبکر صدیقؓ)۔
٭ نیک عورت امورِ دنیا سے نہیں بلکہ اسبابِ آخرت سے ہے۔ (امام غزالیؒ)۔
٭ عورت کی بدخلقی پر صبر کرنے والا حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابر ثواب پائے گا۔ (امام غزالیؒ)۔
٭ خوب صورت عورت ایک ہیرا ہے اور نیک دل عورت ایک خزانہ ہے۔ (شیخ سعدیؒ)۔
٭عورت سے باتیں کرتے وقت وہ سنیے جو اس کی آنکھیں کہتی ہیں۔ (وکٹر ہیوگو)۔
٭عورت کا دل، اس کے دماغ پر حکومت کرتا ہے۔ (اسپنسر)۔

حصہ