ورکنگ ویمن کے مسائل

480

افشاں مراد
گھر کی سیڑھیاں چڑھتے، اور دروازہ کھولتے ہوئے مجھے اپنے بیٹے کے چلّانے کی آواز آئی، اس کے ساتھ ہی بیٹی کے بھی کچھ زور سے بولنے کی آواز نے مجھے پریشان کردیا۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے میں نے زور سے کہا ’’یہ کیا ہورہا ہے، کیا بدتمیزی ہے،یہ ایک دوسرے سے بات کرنے کا کون سا طریقہ ہے!‘‘مجھے دیکھ کر دونوں بچے خاموش ہوگئے۔ ’’مما، بھیا مجھے تنگ کررہے ہیں‘‘۔ بیٹی نے شکایت کی۔ ’’مما میں نے کہا میرے کپڑے استری کردو تو یہ منع کررہی ہے‘‘۔ بیٹے نے اپنی شکایت پیش کی۔ ’’مما ہم لوگ ویسے ہی سارا دن کام کرکرکے تھک جاتے ہیں، اوپر سے بھیا اپنے کام بتا دیتے ہیں، ہمیں نہیں کرنے ان کے کام‘‘۔ بیٹی نے بے چارگی سے کام نہ کرنے کی وجہ بتائی تو مجھے اس پر ترس بھی آیا اور پیار بھی۔ میری جاب نے میرے بچوں کو بہت زیادہ مصروف کردیا تھا۔ وقت سے پہلے اور کم عمری میں ہی انہوں نے سارے گھر کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی تھی۔ میں نے اس جھگڑے کو نظرانداز کرکے اپنا عبایا وغیرہ اتارکر باورچی خانے کی راہ لی جہاں رات کا کھانا پکانا تھا۔ شام کے ساڑھے سات بجے میری واپسی ہوتی تھی جس کے بعد مجھے گھر میں داخل ہوتے ہی پہلے باورچی خانے کی خبر لینی ہوتی تھی، کیونکہ بچے کھانے کے منتظر بیٹھے ہوتے تھے۔ صبح ساڑھے سات بجے نکل کر جب شام ساڑھے سات بجے اپنی جاب سے واپسی ہوتی تھی تو اس وقت میرا دل بھی آرام کرنے کے لیے تڑپ رہا ہوتا تھا، لیکن بچوں کی بھوک اس خواہش پر غالب آجاتی تھی۔
میرے شوہر کی شدید بیماری اور اُن کے صحت یاب ہونے کے عرصے میں مجھے جاب کرنا پڑی، ورنہ میرے شوہر نے کبھی اس کی اجازت نہیں دی، ان کا کہنا تھا کہ ’’باہر کی دنیا میں جتنی خواری ہے، تمہیں اس میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ اس لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود میں نے کبھی نوکری کی کوشش نہ کی۔ لیکن شوہر کی اچانک شدید بیماری نے مجھے مجبور کیا کہ گھر سے نکل کر نوکری کرکے گھر کو چلایا جائے۔ میرے چاروں بچوں نے اس معاملے میں بھرپور ساتھ دیا، جبکہ ان کی عمر اتنی نہ تھی۔ بڑا بیٹا نویں جماعت میں، اور بیٹیاں اس سے چھوٹی تھیں۔ ماسی رکھنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ اکیلے گھر میں ماسی کو کون دیکھتا! اور آج کے حالات کے حساب سے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجاتا تو مزید مشکلات…!
چنانچہ اب بچے صبح اسکول چلے جاتے اور میں آفس چلی جاتی۔ چونکہ آفس خاصا دور تھا اس لیے وہاں پہنچنے میں بھی زیادہ وقت لگتا، اور واپسی میں بھی رش اور فاصلہ مصیبت بن جاتے تھے۔ آفس سے بھی سارا دن فون پر بچوں سے رابطہ رکھتی اور کام سے متعلق مختلف ہدایات دیتی جاتی تھی۔ دوپہر میں اسکول سے واپس آکر بچے گھر کی صفائی ستھرائی کرتے، کچن کے کاموں کو دیکھتے اور رات کا رکھا ہوا کھانا وغیرہ کھاکر اپنی پڑھائی میں لگتے۔ کیونکہ ٹیوشن کا غیر ضروری خرچہ برداشت کرنا ممکن نہ تھا اس لیے بچے پڑھائی میں ایک دوسرے کی مدد کردیا کرتے تھے۔ میرے گھر آنے تک ان کی بھوک عروج پر ہوتی اور وہ بے چین ہوتے تھے کہ ’’مما کھانا کب پکے گا‘‘۔
شوہر کی صحت یابی کے بعد، ان کو نئی نوکری ملنے تک کے عرصے میں بچوں نے گھر اور اپنے والد دونوں کا ہر ممکن خیال رکھا۔ لیکن ان تمام بھاری ذمہ داریوں نے ان کو مسلسل دبائو میں لانا شروع کردیا تھا جس کا اثر ان کے مزاجوں پر بھی آنا شروع ہوگیا تھا۔ دوسرے کزنز کو ہنستا بولتا دیکھ کر اب میرے بچے بھی فرسٹریٹڈ ہونا شروع ہوگئے تھے، پھر پڑھائی میں بھی ماشاء اللہ ہمیشہ ٹاپ کرنے والے بچے… ان کو اپنی پوزیشن کی بھی فکر تھی۔
میں یہ سب دیکھ رہی تھی لیکن حالات ایسے تھے کہ میرا فوری طور پر جاب کو چھوڑنا ممکن بھی نہیں تھا۔ ایسے وقت میں جب عورت کبھی گھر سے باہر نہ نکلی ہو (نوکری وغیرہ یا باہر کے کاموں کے لیے) اور ایک دم اس کو مردانہ اور زنانہ سب کام کرنے پڑ جائیں تو یہ اس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ میرے شوہر نے مجھ پر کبھی باہر کا کوئی کام نہیں ڈالا تھا۔ بچوں کی فیس جمع کروانا ہو، بلوں کی ادائیگی ہو، گھر کا سودا سلف ہو، یا دوسرا کوئی بھی باہر کا کام… ہر کام وہ خود کرنا پسند کرتے تھے کہ میں کرلوں گا، اور میں بے فکر ہوجاتی۔ اب جو یہ بھاری بھرکم ذمہ داریاں نوکری سمیت میرے سر پر پڑیں تو پتا چلا کہ ایک خیال کرنے والا شوہر اور باپ کیسی چھپر چھائوں ہوتے ہیں، اور یہ اللہ کی عطا کردہ کتنی بڑی نعمت ہے، اور ان کا چھن جانا یا وقتی طور پر دور چلے جانا عورت کی زندگی کا کتنا بڑا خلا ہے، اور ان بغیر دنیا کیا سے کیا ہوجاتی ہے، یہ مجھے خوب پتا چل گیا تھا۔ اور وہ بچے جن کو ماں کھانا بھی اپنے ہاتھ سے کھلاتی تھی، ان پر پورے گھر کی ذمہ داریاں پڑ جائیں تو سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں بچوں کو سمیٹ کر رکھنا، اپنے بیمار شوہر کا خیال رکھنا، نوکری پر بھی حاضر دماغ رہنا اور پھر واپس آکر بھی اپنے فرائض نبھانا، اور پھر خاندانی معاملات بھی خوش اسلوبی سے چلانا… ایسے مراحل تھے جن سے ہر حال میں گزرنا تھا۔ پوری ہمت اور حوصلے سے الحمدللہ ان سب سے گزر گئی۔ لیکن جب میرے شوہر کی نوکری بحال ہوئی اور ان کی صحت بھی بہتر ہوئی تو مجھے ایک فیصلہ کرنا تھا، کہ مجھے انڈیپینڈنٹ ہوکر اپنا کمانا ہے یا پھر بچوں کے مستقبل کے لیے نوکری چھوڑنے کا کڑا فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن اپنے بچوں کو دیکھتے ہوئے مجھے صرف ایک لمحہ لگا اپنا استعفیٰ لکھنے میں۔ میرے باس نے میرا استعفیٰ دیکھ کر بہت سمجھایا کہ دیکھو تم اپنا کما رہی ہو، اتنی اچھی جاب ہے، کیوں پھر اپنے ہاتھ پیر کٹوا کر گھر بیٹھنا چاہتی ہو! تو میں نے اپنے باس کو ایک ہی جواب دیا ’’سر میں اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے نوکری کرنا چاہتی تھی کہ ان کے فیوچر میں یہ پیسے کام آئیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں اگر نوکری کرتی رہی تو میں اپنے بچوں کا فیوچر دائو پر لگا دوں گی‘‘۔ اور پھر میں نے نوکری چھوڑ دی۔ آج ماشاء اللہ سارا خاندان میرے بچوں کی تربیت کی مثال دیتا ہے کہ ہر قسم کے حالات میں انہوں نے اپنی ذمہ داری کیسے بخوبی نبھائی اور پڑھائی میں بھی اپنی پوزیشن گرنے نہ دی، اور برے حالات میں گھر کو بھی سنبھالا۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں نے درست وقت میں درست فیصلہ کیا، ورنہ میں اپنے بچوں کے مزاج، ان کے رویوں میں جو تبدیلی محسوس کررہی تھی، ہوسکتا ہے کہ میں اپنے کیرئیر میں تو آگے بڑھ کر کوئی جیت اپنے نام کرلیتی، لیکن اپنے بچوں کو ضرور ہار جاتی۔ آج میرے ساتھ کی تمام خواتین مختلف میڈیا گروپس، چینلز اور اخبارات میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں، بہترین پوزیشن پر ہیں، اور میں کہاں ہوں؟ محض ایک ہائوس وائف…! کبھی کبھار مایوسی کا ایک دورہ ضرور پڑتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو ضائع کردیا، لیکن پھر یہ سوچ کر اطمینان ہوجاتا ہے کہ میری تعلیم نے مجھے یہ شعور ضرور دیا کہ مجھے کس وقت کیا فیصلہ لینا ہے، اور بچوں کی تربیت میں میری یہ تعلیم میری رہنما بنی۔ آج اپنے ساتھیوں کو آگے سے آگے بڑھتا دیکھ کر کبھی دل میں ملال ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ اطمینان بھی ہے کہ میں نے ایک ذمہ دار ماں ہونے کا فرض پوری دیانت داری سے نبھانے کی کوشش کی۔
ایک عورت کو اپنی راجدھانی (اپنا گھر)کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے معاملات، اپنے شوہر کے معاملات، خاندانی معاملات، اور اگر نوکری پیشہ ہے تو وہاں کے معاملات کی چومکھی لڑائی لڑنی ہوتی ہے۔ عورت کا گھر سے نکلنا کوئی آسان سلسلہ نہیں ہے، اسے نوکری پر جانے سے پہلے اور آنے کے بعد گھر کی تمام ذمہ داریاں بھی بخوبی انجام دینا ہوتی ہیں۔ پھر اگر بچے چھوٹے ہیں تو ان کے الگ مسائل، بڑے ہیں تو ان کے علیحدہ مسائل۔ پھر نوکری پر کیا صورت حال ہے ؟ کس ادارے میں کام کررہی ہے، وہاں کیا معاملات ہیں؟ ان سب سے نمٹنے کے لیے شیر کا جگر اور اُلّو کا دماغ چاہیے ہوتا ہے، کیونکہ کہیں بھی ایک ذرا سی کوتاہی اس کے تمام کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ میری وہ دوست جنہوں نے شروع سے نوکری کی اور آج بھی رہی ہیں، انہوں نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیں، کہاں کہاں کمپرومائز کیا، کس طرح بچے نظرانداز ہوئے، اپنی چھوٹی بڑی خوشیوں کو نظرانداز کیا، بھاگتی دوڑتی زندگی نے سب کو تھکا دیا۔ کیونکہ عورت کی بنیادی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا تو ممکن نہیں، بچے پیدا کرنے سے لے کر اُن کو پالنے تک کی ذمہ داری تو ہر حال میں عورت کی ہی ہے، اور یہ کیسا کٹھن مرحلہ ہے، جس پر گزرے اسے ہی پتا ہوتا ہے۔
موجودہ برق رفتار دور میں ہر شخص ترقی کی دوڑ میں بھاگا چلا جارہا ہے۔ ہر مرد وزن اس ریس میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ لیکن ترقی کی اس دوڑ میں شامل ہوکر ہم کیا کچھ کھو رہے ہیں، کیا اس پر کبھی کسی نے غور کرنے کی کوشش کی؟ بچوں سے لگائو، محبت، انسیت، اور بچوں کا اپنے ماں باپ اور اپنے رشتے داروں سے لگائو اور محبت آج اسی لیے عنقا ہے کہ ہم نے پیسے کے لیے اپنے مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے، اور افسوس اس بات کا کہ ہمیں اس کا کوئی ادراک بھی نہیں۔

حصہ