حیا

526

ام عاذب
حیا اسلام کا بنیادی وصف ہے۔ اس کا مفہوم بہت وسیع اور گہرا ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو منکرات سے روک کر نیکی اور خیر کے راستے پر ڈالتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حیا اور ایمان ساتھ اور اکٹھے رہتے ہیں، دونوں میں سے ایک اٹھالیا جائے تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے۔‘‘ (بیہقی)
اس کائنات میں ’’عورت‘‘ اللہ رب العزت کی ایک انتہائی خوب صورت تخلیق ہے۔ اور خوب صورت، نازک اور قیمتی اشیا کی حفاظت بھی اُن کی قیمت کی مناسبت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے رب نے ہماری جھولیوں میں جو نازک آبگینے ڈالے ہیں ان کی حفاظت اور تعمیر حقیقتاً ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ نبی آخرالزماںؐ کے فرمان کے مطابق ’’جس شخص نے دو یا دو سے زائد بچیوں کی پرورش اور تربیت بہترین طریقے پر کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ یہ نازک کلیاں کہ زمانے کی ہوس کار نگاہیں جن کی نزاکت کو جلا کر ختم کردیتی ہیں، ان نازک کلیوں کا حسن تو دراصل ’’حیا‘‘ میں ہے۔ ایک نوجوان بچی جب بے حجاب گھر سے نکلتی ہے تو اُس وقت والدین کے امتحانی لمحوں کا آغاز ہوجاتا ہے، مگر ہم میں سے کتنے والدین ہیں جو ان لمحوں کی آزمائش کو محسوس کرتے ہیں؟
اسکول اور کالج سے آگے بڑھ کر والدین کے امتحانی لمحات کا ایک اور منظر دیکھتے ہیں۔ بیٹی کی رخصتی کی خوب صورت تقریب کا موقع ہے، ہمارے جگر کا ٹکڑا ہماری بیٹی آج دلہن کے روپ میں انتہائی حسین لگ رہی ہے۔ بیٹی کی اور ہماری بھی خواہش ہے کہ ان حسین لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کروا لیا جائے۔ لیجیے فوٹو سیشن کا آغاز ہوگیا۔ فوٹوگرافر کی نگاہوں کا ہر زاویہ ہماری لختِ جگر کا وجود۔ آج ہمارے معاشرے میں رخصت ہونے والی بیٹی اپنے شوہر کی ہونے سے پہلے ہی والدین کی آنکھوںکے سامنے جن نگاہوں کا شکار بنتی ہے، کیا والدین اس کو محسوس کرتے ہیں…؟ یقینا نہیں۔ اور بات صرف یہیں تک نہیں رہتی۔ فوٹو سیشن کے بعد بارات کی آمد کے ساتھ ہی ’’انٹری سیشن‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ شوہر کے پہلو میں چلتی ہوئی اس نازک کلی کی حیا کے تار تار بکھیر دیے جاتے ہیں۔ مگر نہ والدین اس بے حیائی کے منظر کی نزاکت کا احساس کر پاتے ہیں اور نہ ہی شوہر۔ کیوں کہ یہ سب تو آج کل ’’اِن‘‘ ہے ناں۔
جدیدیت کے دلدادہ ہم والدین اپنی ہی بچیوں کی بے لباسی پر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ حسین سے حسین تر بننا اور پھر اس حسن کی میڈیا پر تشہیر کی خواہش نے شرم و حیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عورت کے معنی ہیں ’’چھپی ہوئی چیز‘‘، ایسا قیمتی موتی جسے چھپاکر رکھا جائے۔ اور عورت کا یہ قیمتی وصف ’’حیا‘‘ ہر معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر آج الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے چھپا کر رکھے جانے والے ان موتیوں کو بالکل بے قیمت کردیا، اور پھر ایسا ہوا کہ جس خوب صورت تہذیب کی نمونہ کردار اُم المومنین حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمۃ الزہرہؓ ہوں، وہاں معاشرے کی سفاک نگاہوں نے اس کردار کو بے وقعت بنادیا ہے۔ اس سارے منظرنامے میں ہمیں بہرحال یہ سوچنا ہوگا کہ آج بے حیائی کے اس طوفان میں اپنی نسلِ نو کے ساتھ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اپنی اسلامی اقدار و روایات کو ازسرِنو زندہ کرکے اور اپنے گھروں اور معاشروں میں ان کو رواج دے کر اپنے بچوں کو ہمیں خود اپنی بنیادوں سے جوڑنا ہوگا۔

حصہ