یوم حیا

880

(نام نہیں لکھا)
اسلام خواتین کو وہ عزت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو درحقیقت مغرب کو میسر نہیں ہے جب کہ کچھ بد نصیب خواتین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغرب کی عورت آزاد ہے بلکہ میری نظر میں مغرب کی عورت سے زیادہ مظلوم کوئی عورت نہیں ہے لیکن ہم صحیح اور غلط جانے بغیر مغرب کی اندھا دھند تقلید پر کیے جارہے ہیں‘ اُن کے تہوار کو اپنا رہے ہیں‘ وہ نیو ائر منائیں گے تو ہم بھی منائیں گے‘ کرسمس آئے گا تو وہ منائیں گے‘ ویلنٹائن ڈے آئے گا تو ایک دھوم مچ جائے گی۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ویلنٹائن ڈے کے نام پر اپنی شرم و حیا کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔ ارے ہمیںتو اس شرم و حیا کا پیکر بن جانا چاہیے‘ ہمیں تو اسلام نے فلاح کا راستہ دکھایا ہے‘ فلاح و کامیابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہے۔ حجاب‘ پردہ‘ حیا یہ سب میرے اللہ کا حکم ہے تو پھر کیوں نہ اس کی تعمیل کروں‘ میں کیوں نہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کروں‘ آخر ہم حقوق نسواں کے نام پر کون سی آزادی چاہتے ہیں؟ بے حیائی کو پروموٹ کرکے ہم کون سے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
حیا ایمان کی علامت ہے‘ پاکیزگی کی علامت ہے اور اللہ پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو۔‘‘
حیا ایمان کی تکمیل ہے‘ جس شخص میں حیا ہے تو اس میں ایمان بھی موجود ہے اور جس میں حیا نہیں تواس میں ایمان بھی موجود نہیں کیوں کہ شیطان کا پہلا وار حیا پر ہوتا ہے۔ ’’آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے ان میں سے جو ظاہرہوں (ان کو بھی) اور جو چھپے ہوئے ہوں (ان کو بھی)‘‘ (اعراف 33)
بس جب میرے رب کا حکم ہے تو اس کی تعمیل تو ہم سب کا فرض ہے۔ آج ہم آزادی کے نام پر اتنے روشن خیال ہو گئے ہیں کہ مغربی روایات کو اپنا کر اپنی اخلاق حدود کو پامال کر رہے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ پوچھا کہ ’’اے فاطمہ! مسلمان عورت کی سب سے بڑی صفت کیا ہونی چاہیے؟‘‘
حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ ’’ابا جان! عورت کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اور اولاد پر شفقت کرے‘ اپنی نگاہ نیچی رکھے‘ اپنی زینت چھپائے اور نہ خود کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھنے پائے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر بہت ہی مسرور ہوئے۔ کتنا پیارا جواب تھا جانِ پدر کا اور ہم سب کے لیے کتنی پیاری نصیحت بھی۔ ہم خواتین کے سامنے ہماری صحابیاتؓ کی طرز زندگی ہے۔ جگہ جگہ قرآن کریم میں ارشادات کے ذریعے ہمارے لیے رہنمائی ہے پھر تو ہمارے پاس بھٹکنے کا کوئی معقول جواز ہے ہی نہیں۔ پس تو پھر ہمیں آج سے عہد کرنا ہے کہ ہم کو مغربی روایات کو ختم کرکے حیا کو فروغ دینا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں ہمیں یوم حیا سے اپنی نسلِ نو کو آشنا کرنا ہے۔ بے حیائی کے سیلاب سے خود کو بھی بچانا ہے اور دوسروںکو بھی بچنے کی ترغیب دینی ہے۔

حصہ