ہم اور ہمارا معاشرہ

322

خولہ بنت ِ سلمان
قدیم یونان میں عورت وارث نہیں بن سکتی تھی‘ باوجود اس کے کہ یونان ایک تہذیب یافتہ معاشرہ تھا لیکن وہاں کی عورت تعلیم سے محروم تھی۔ عورت پر لازم تھا کہ نہ صرف شوہر کی تابعدار ہو اور بچوں کی پرورش وہ شوہر کی مرضی کے مطابق کرے۔ شوہر جب چاہتا بیوی سے اولاد چھین کر اسے ویرانے یا پہاڑوں پر چھوڑ آتا۔ یونانی عورت کا مرتبہ و مقام نہایت پست تھا۔
ہم دنیا کے کسی بھی معاشرے کا جائزہ لیں تو دیگر اخلاقی گراوٹوں کے ساتھ ساتھ عورت کی کمزور اور بدترین حیثیت کی ایک واضح تصویر آنکھوںکے سامنے آجاتی ہے۔ عورت تفریح کا باعث نہیں‘ عورت کی تحقیر و توہین اکثر قوموں میں معمول کی بات تھی اور ہے۔ مگر الحمدللہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے عورت کو احترام‘ حصار‘ حیا‘ پاکیزگی اور تقدس کے زیور سے آراستہ کیا اور اس کے احترام کے حوالے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھایا کہ عورت کے 4 اہم کردار ماں جب وہ بنتی ہے تو اس کی پائوں میں جنت لکھی۔ بیٹی ہے تو رحمت‘ بہن ہے تو پیار‘ بیوی ہے تو نعمت۔ ازدواجی رشتوں کو احترام دینے کے لیے میاں بیوی کو بھی حقوق و فرائض سے آشنا کیا جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تو عربوں خاص طور پر عورتوں کی حالت نہایت ابتر تھی۔ ہندوئوں میں خاوند کے مرنے کے بعد بیوی کو ’’ستی‘‘ کر دیا جاتا۔ ایسے حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت بن کر آئے۔ آپؐ کی بنیادی تعلیم کا مقصد عورتوں کو ان کے حقوق دلانا تھا۔ جس سے اس جاہل معاشرے نے محروم رکھا تھا۔ اپنے سے 15 سال بڑی خاتون سے شادی کرکے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ یعنی مومنوں کی ماں کا رتبہ ملا۔ بیٹیوں کو سراپا رحمت قرار دیا۔
مرد کو اونچی آواز سے بھی بولنے کو منع فرمایا کجا کہ وہ مار پیٹ یا گالم گلوچ کرے۔ عورت کو بھی چاہیے کہ وہ مرد سے بے جا فرمائش نہ کرے‘ رزق حلال کمانے میں مدد کرے۔ دونوں ہر حال میں نباہنے کی کوشش کرے۔ گھر دونوں سے مل کر بنتا ہے گھر کی اکائی مضبوط ہوگی تو معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔

حصہ