قرآن کا موضوع

8583

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
قرآن الہامی کتاب اور انسان کے لیے مکمل ہدایت اور رہنمائی کا صحیفہ ہے جو عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ اس پائے کی کتاب نہ صرف عربی زبان میں بلکہ دنیا کی کسی زبان میں موجود نہیں کیوں کہ یہ ادب کا بلند ترین اور مکمل ترین شاہکار ہے۔ پورے قرآن میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہوا نہیں ہے۔ قرآن میں جس مضمون کو بھی ادا کیا گیا ہے موزوں ترین الفاظ اور مناسب ترین اندازِ بیان میں اداکیا گیا ہے۔ بعض مضامین کو بار بار مگر ہر مرتبہ نئے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے جس سے تکرار کی بدنمائی کہیں پیدا نہیں ہوتی۔ پورے قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھ لیں‘ ہر لفظ اپنی جگہ نگینہ جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ کلام اتنا مؤثر کہ بڑے سے بڑے مخالف کو سر دھننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ خود عربی زبان میں کوئی کتاب اپنی زبان کے لحاظ سے اس قدر و قیمت کی حامل نہیں۔ اس کی فصاحت و بلاغت‘ اس کے محاورے آج تک عربی زبان میں رائج اور جاری ہیں۔
قرآن دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار‘ اخلاق‘ تہذیب اور طرز زندگی پراتنی گہرائی سے اثر ڈالا ہے کہ دنیا میںاس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کتاب نے ایک وحشی اور بدو قوم کو بدل ڈالا۔ اسی قوم نے قرآنی احکام کو اپنا کر دنیا کے بڑے حصے کی اصلاح کر ڈالی۔ قرآن پر عمل کرنے سے خیالات کی تشکیل اور مستقل تہذیب کی تعمیر کی گئی۔
قران کا موضوع ازل سے ابد تک پوری کائنات پر حاوی ہے۔ یہ کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم و آئین پر ایک وسیع کلام ہے جس میں کائنات کے خالق‘ اس کی صفات‘ اس کے اختیارات کے ساتھ ساتھ انسان کے فرائض کو بیان کیا گیا ہے جس میں انسان کے فکر و عمل کے صحیح راستے کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جو صحیح اور غلط راستوں کا تعین کرکے پوری نظامِ زندگی سے بحث کرتا ہے۔ وہ حیاتِ انسانی کے ہر پہلو‘ جس میں عقائد‘ اخلاق‘ تزکیہ نفس‘ عبادات‘ معاشرت‘تہذیب‘ تمدن‘ معیشت ‘ سیاست‘ عدالت‘ قانون سے متعلق مربوط ضابطۂ حیات بیان کرتا ہے۔
قرآن انسان کی اعمال پر بحث کرتے ہوئے اس کے اخروی نتائج کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ کس طرح دینوی زندگی کا محاسبہ ہوگا‘ کیسی کیسی زبردست شہادتیں ثبوت کے طور پر پیش کی جائیں گی۔ خالق کائنات ایک منصف کی طرح ہر اچھائی برائی کا فیصلہ کرے گا‘ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیح ہوگی۔
قرآن 23 سال میں تدریجاً نازل ہوا۔ یہ اصلاحی اور قرآنی ہدایات وقتاً فوقتاً حالات کے مطابق نازل ہوتی گئیں۔ اس لیے اسلامی تحریک جن جن مراحل سے گزرتی گئی اس کے مطابق کبھی طویل خطبوں کی شکل میں کبھی مختصر جملوں میں یہ ہدایات اللہ کی طرف سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی چلی گئیں۔ دنیا کی تاریخ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا رہنماموجود نہیں جو کبھی واعظ ہے تو کبھی معلم اخلاق‘ کبھی ایک ستائی ہوئی مظلوم جماعت کو تسلیاں دیتا ہوا شفیق و مہربان سربراہ‘ کبھی ایک اسلامی فلاحی ریاست کا سربراہ مملکت ہے‘ کبھی برسر جنگ فوج کا قائد‘ کبھی ایک فاتح ہے‘ کبھی ایک شارع اور مقینن۔ ان تمام حیثیتوں کے ساتھ مختلف حالات اور واقعات آپؐ کی حیاتِ مبارکہ میں پیش آتے رہے اور آپؐ ان تمام حیثیتوں سے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے رہے۔ قرآن ایک مکمل‘ مربوط اور جامع نظامِ فکر و عمل ہے جس میں کہیں کوئی تناقص اور تضاد نہیں۔ اس میں ابتدا سے انتہا تک ایک ہی مرکزی خیال اور سلسلہ فکر کار فرما ہے۔ عائد و اعمال کی جو بنیاد اوّل روز قرآن میں رکھی گئی وہ آخری آیت تک نظر آتی ہے جس رہنما کی زبان سے یہ تمام خطبات اور تقاریر جاری ہوئے ہیں اس کی اپنی زبان قرآنی زبان سے مختلف ہے۔ احادیث کے مطالعے سے یہ فرق صاف نظر آتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی کتاب کی زبان الہامی زبان ہے۔ بحیثیت انسان کے آپؐ پر دورانِ نبوت جو مظالم توڑے گئے ان کے اثرات اور جذبات اس زبان سے بالکل مختلف ہیں جو قران ایسے مواقع پر استعمال کرتا ہے۔ اس میں جذبات کے بجائے ہدایات نمایاں ہیں۔
قرآن میں جو علوم بیان کیے گئے ہیں وہ کائنات ہیں‘ وہ کائنات اور انسان سے متعلق ہیں۔ یعنی باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں خود انسان اپنا مشاہدہ کرے تو اس حقیقت پر گواہی کے لیے اسے اندازہ ہو جائے گا کہ انسان کی پیدائش کا سبب ایک خورد بینی کیڑا اور خورداندہ ہے جس کو ملا کر انسان کی تخلیق کی گئی۔ پھر انسان کے اندر ایک زبردست خود کار مشین نصب ی گئی جو روزِ پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے‘ غذا ہضم کرنے‘ خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے‘ فضلات خارج کرنے‘ تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزا تیار کرنے اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے حتیٰ کہ تھکاوٹ کے بعد آرام کے لیے سلا دینے تک کا کام یہ مشین خود کرتی ہے۔ انسانی دماغ میں عقل‘ فکر‘ تخیل‘ شعور‘ تمیز‘ ارادہ‘ حافظہ‘ خواہش‘ احساسات‘ جذبات‘ میلانات و رجحانات اور دوسری ذہنی قوتوں کی انمول دولت ہے۔ انسانی وجود ایک مکمل سلطنت ہے جس کا مالک و مختار اللہ خالق کائنات ہے۔
قرآن میں اس بات کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے کہ خدا کا قانونِ مکافات انسانی تاریخ میں برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکو کاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ جن قوموں نے انبیائے علیہم السلام کی نافرمانی کی اور اپنی زندگی کا پورا رویہ توحید‘ رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم رکھا وہ ہلاکت اور عذاب کی مستحق ٹھیریں۔ خدا کا قانونِ اخلاق جو انبیائے علیہم کے ذریعے انسانوں کو دیا گیا اس کے مطابق انسانی اعمال کی بازپرس ضروری ہے جس خدا نے انسان و حیوان کو رزق دیا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان تمام نعمتوں کے بارے میں انسان سے بازپرس کرے جو نعمتیں اس نے دی ہیں۔ انسان کو فی الواقع اس دنیا میں غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ بنا کر یونہی نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اپنی مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اللہ کے سامنے اسے ہر عمل کا حساب دینا ہے۔
قرآن کے تمام مضامین انسانی زندگی سے بحث کرتے ہیں۔ انسانی فلاح و خسران کے بارے میں قرآن بہت وضاحت سے اپنے پڑھنے والوں اور عمل کرنے والوں کا احاطہ کرتا ہے۔ قرآن کا بنیادی موضوع بھی یہی ہے کہ اس زندگی میں انسان کی اصلاح اور اخروی زندگی میں اس کی فلاح کو کیسے یقینی بنایا جائے‘ وہ تمام امور جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس زندگی میں انسان کی روحانی اور اخلاقی کامیابی کے ضامن ہیں یا اخروی زندگی میں انسان کی دائمی اور حقیقی کامرانی کے لیے ضروری ہیں ان سب امور سے قرآن مجید میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن کی رو سے انسان ایک جامع اور متوازن وجود ہے اور اس کو اخروی کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہیے قرآن نہ صرف انسان کے ماضی کا تذکرہ کرتا ہے بلکہ اس کی اصل دلچسپی انسانی کے مستقبل سے ہے کیوں کہ مستقبل کو انسان بگاڑ بھی سکتا ہے اور سنوا بھی سکتا ہے۔
قرآن میں وہ مضامین بھی ہیں جو قرآن کے اساسی موضوعات یا بنیاد مباحث قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ایسی سائنسی حقائق بھی قرآن کا موضوع ہیں جن کا مشاہدہ انسان ہر وقت کرتا ہے لیکن ان سے وہ سبق حاصل نہیں کرتا جو قرآن اس سے حاصل کروانا چاہتا ہے اس کے لیے ’’تذکیر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کو یاد دلانے کے الفاظ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہن اور عقل و شعور دیا‘ عقیدے کی اساس اور بنیادی اصول عطا فرمائے۔ قرآن مجید میں عقیدے کو بیان کرکے انسانی فکر کو ایک واضح اور صاف راستہ عطا فرمایا ہے۔ اس راستے میں کوئی الجھائو اور پریشانی نہیں‘ یہ راستہ انسانی فکر کو مثبت اور تعمیری رخ پر ڈالنے کے لیے قرآن میں واضح کیا گیا ہے۔ قرآن کی تعلیم کا بنیادی نکتہ توید اور وحدت ہے۔ دین و دنیا کی وحدت‘ علوم و فنون کی وحدت ‘ اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی اساس اور قرآن کا اصل موضوع ہے۔ قرآنی سورتوں کے سات بڑے گروپ ہیں اور ہر گروپ کا ایک بنیادی مضمون ہے کہیں شریعت ہے‘ کہیں ملت ابراہیمی کی تاریخ ہے‘ کہیں نبوت کا ذکر ہے‘ کہیں سابقہ اقوام کے عروج و زوال کا تذکرہ ہے‘ کہیں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایاگیا ہے‘ ہر گروپ کی پہلی سورت مدنی ہے اور آخری سورت مکی۔ یہ سورتیں نظامِ شریعت کے ظاہری اور داخلی پہلو پر بحث کرتی ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔‘ اس طرح قرآن میں فلسفیانہ مباحث بھی ہیں اور دستوری اور قانونی احکامات بھی‘ معاشیات کے مسائل بھی ہیں اور انسانی علوم و فنون کے مباحث بھی ہیں۔ علم کے یہ سارے شعبے انسانی زندگی کا ایک حصہ ہیں اور آن انسان سے بحیثیت مجموعی اور کامیاب‘ کامل اور متوازن وجود کے طور پر بحث کرتا ہے‘ یہی قرآن کا اصل موضوع ہے۔

حصہ