عورت کا مقام

512

افروز عنایت
شعیب: (غصے سے) تم نے وقت دیکھا ہے! بچے بھوک و پیاس سے بلبلا رہے ہیں۔ نہ تمہیں ان کی پڑھائی کا ہوش ہے، نہ ان کے کھانے پینے کا۔ عزیز ہے تو تمہیں صرف اپنی ملازمت۔ گھر میں کیا ہورہا ہے کیا نہیں، تمہاری ’’بلا‘‘ سے۔
فرزانہ: تم تو جاہلوں جیسی باتیں کررہے ہو۔ اصل میں میری ترقی اور عزت تمہاری آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ ہو ناں تم پینڈو… ظاہر ہے میرا پروموش ہوا ہے، مجھے آفس میں وقت تو دینا ہوگا، اور… کیا یہ بچے تمہارے نہیں ہیں؟ تم انہیں وقت نہیں دے سکتے؟ یہ صرف میری ذمہ داری نہیں ہیں۔ ظاہر ہے مجھے تو آنے میں کچھ وقت لگ جائے گا اب… تھوڑا بہت دیکھ لیا کرو تم بھی…
شعیب: کیا میں آفس میں جھک مارنے جا رہا ہوں کہ جلد آکر پھر بچوں کو دیکھوں! ویسے بھی یہ مائوں کی ذمہ داری ہے۔ مجھ سے جو کچھ ہوسکتا ہے میں کررہا ہوں۔ دیکھو فرزانہ (ذرا نرمی) تمہیں ملازمت کی ضرورت نہیں ہے، ماشاء اللہ میری تنخواہ سے گزارا ہوجاتا ہے اس لیے…
فرزانہ (غصے سے) دکھا دی ناں اپنی اوقات! آج کل کے مرد عورت کو ترقی کرتے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ صرف گھر داری اور بچے پالنا عورت کا کام نہیں، آج دنیا نہ جانے کہاں پہنچ چکی ہے اور تم ابھی تک اسی دقیانوسی وقت میں جی رہے ہو… آئندہ مجھ سے ایسی بات نہ کرنا، نہ مجھ سے توقع کرنا کہ میں اعلیٰ ڈگری اس گھر میں جھونک دوں گی۔
٭…٭
تینوں بچے ماں باپ کی روز روز کی اس چخ چخ کو سن کر سہم جاتے۔ اب تو وہ بھی من مانی کرنے لگے تھے، اکثر اسکول کی چھٹی کرنا ان کا معمول ہوگیا تھا، لہٰذا ان کی اسکول کی کارکردگی بھی صفر تھی۔ اکثر کھانا بھی باہر سے آتا جس کا بچوں کو چسکا لگ گیا تھا۔ ماں باپ کی غیر موجودگی میں ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا یا پھر نیٹ پر کارٹون اور فلمیں دیکھنا ان کا مشغلہ تھا۔
٭…٭
آج پھر شعیب کو عزیر کے اسکول سے فون آیا تھا کہ وہ ہم جماعتوں کے ساتھ دنگا فساد کرتا رہتا ہے اور اُس کی اِس ماہ کی رپورٹ بھی صفر ہے۔
لہٰذا آج پھر گھر میں فساد ہونا تو لازمی تھا۔
فرزانہ: دس ہزار وہ ٹیوٹر کس لیے لے رہا ہے! کچھ تو فائدہ ہونا چاہیے اُس کا۔
شعیب: وہ ہماری غیر موجودگی میں آرہا ہے، اپنا وقت پورا کرکے چلا جاتا ہوگا، اور یہ نالائق… (شعیب نے ایک زور دار تھپڑ عزیر کے گال پر جڑ دیا)
ندا اور عامر، بھائی کو پٹتے دیکھ کر وہاں سے رفوچکر ہوگئے۔
٭…٭
شعیب نے کافی کوشش کی کہ فرزانہ گھر اور بچوں کی طرف توجہ دے۔ اب تو روز روز کے لڑائی جھگڑوں سے وہ بھی تنگ آگیا تھا، اس لیے اُس نے بھی دوسری راہیں تلاش کرلیں۔ دوستوں یاروں کے ساتھ شامیں گزار کر وہ دیر سے گھر آنے لگا۔ وہ غلط قسم کا شخص نہ تھا لیکن فرزانہ کی بیگانگی کی وجہ سے آخر اس نے اپنی زندگی کا دوسرا ساتھی چن لیا۔ سیرتؔ سے اُس کی ملاقات ایک دوست کے گھر ہوئی۔ وہ اس کے دوست کی کزن تھی۔ کچھ عرصے میں اسے احساس ہونے لگا کہ یہ عورت اس کے لیے اچھی جیون ساتھی بن سکتی ہے۔
اب گھر میں روز ایک نیا فساد بھی شروع ہوگیا کہ شعیب اپنا زیادہ وقت کن چکروں میں گزارتا ہے۔
شعیب یہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتا کہ آفس میں کام کی وجہ سے دیر ہوجاتی ہے۔
٭…٭
آج فرزانہ کی طبیعت کچھ ناساز تھی، وہ وقت سے بہت پہلے گھر آگئی تھی۔ گھر کی دوسری چابی اُس کے پاس ہوتی تھی۔ گھر میں داخل ہوئی تو عزیر اور عامر کے کمرے سے آوازیں آرہی تھیں۔ وہ چپکے سے اس طرف آگئی۔ دونوں بچوں کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی۔ لیپ ٹاپ پر جو منظر ان بچوں کے سامنے تھا اسے دیکھ کر فرزانہ کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی، پھر تو وہ آپے سے باہر ہوگئی۔ دونوں بچے ماں کو اپنے سامنے دیکھ کر سہم گئے۔ ان کی چوری پکڑی گئی۔ دونوں کی درگت بناکر فارغ ہوئی تو اسے اپنی تیرہ چودہ سالہ بچی ندا کا خیال آیا۔ ’’ندا کہاں ہے؟‘‘
وہ… وہ …صفیہ آنٹی کے گھر گئی ہے پڑوس میں۔
فرزانہ: کب سے گئی ہے؟ کتنی دیر ہوئی ہے اسے گئے ہوئے؟
عزیر: (روتے ہوئے) ایک دو گھنٹے ہوئے ہیں۔
صفیہ کے گھر دستک دینے پر اس کا بیٹا نکلا۔ دروازے کی اوٹ سے فرزانہ نے سامنے لائونج میں ندا کو دیکھا۔ صفیہ کے بیٹے کو دھکیل کر وہ اندر آئی۔
فرزانہ: (غصے سے) تم… تم یہاں کیا کررہی ہو؟
ندا: وہ… وہ امی میں صفیہ آنٹی کے پاس آئی تھی، وہ اندر سورہی ہیں ان کو بخار ہے (چور آنکھوں سے اس نے صفیہ آنٹی کے بیٹے کو دیکھا)
فرزانہ نے غصے سے بیٹی کی کلائی پکڑی اور گھسیٹتی ہوئی گھر لے آئی۔ ’’بے غیرت لڑکی تجھے شرم نہیں آتی پرائے گھر میں اس طرح جاتے ہوئے! بول بے غیرت تُو کب سے وہاں جارہی ہے؟ اور یہ بے غیرت تیرے بھائی اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہیں تجھ سے بے خبر۔ شرم آنی چاہیے تم سب کو…‘‘
بچوں کی بے راہ روی نے اس کا سر چکرا دیا تھا۔ آج اسے احساس ہوا کہ ایک ماں کا اولاد کی تعلیم و تربیت میں کیا کردار اور کیا اہمیت ہے۔
٭…٭
کسی بھی گھر کو استحکام بخشنے کے لیے صرف دولت کافی نہیں، اصل چیز ماں باپ کا کردار ہے جو بچوں کو آنے والے وقت میں کامیاب انسان بناتا ہے۔ کامیاب انسان صرف روپیہ کمانے والے نہیں، بلکہ ان کا دوسری اخلاقی خوبیوں اور دینی تعلیم سے مزین اور آراستہ ہونا لازمی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہے۔ اس درس گاہ کی وجہ سے وہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ کر ترقی کرسکتی ہے۔ دینِ اسلام نے عورت کو ماں کے روپ میں سب سے اعلیٰ مرتبہ عطا کیا ہے، جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی گئی ہے۔ لیکن یہاں اُس ماں کے قدموں تلے جنت کا اعلان کیا گیا ہے جو احکاماتِ الٰہی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی پوری توجہ اولاد کی نشوو نما اور تعلیم و تربیت پر صرف کرتی ہے۔ اس کی اعلیٰ تعلیم بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ بلا ضرورت اولاد کی حق تلفی کرکے اپنا لوہا منوانے کے لیے تمام دن گھر سے باہر دفتروں میں سر کھپائے۔ میں یہاں ملازمت پیشہ خواتین کے خلاف نہیں ہوں، لیکن عورت اگر ضرورت کے تحت کاروبار یا ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کو ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ مجھ سے جڑے رشتوں کی حق تلفی نہ ہو، ان کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ اُس کی پہلی ترجیح اُس کا گھر، اُس کا شوہر اور اُس کی اولاد ہے۔ انہی کو سنوار کر وہ ایک مکمل عورت ہونے کا اعزاز حاصل کر سکتی ہے۔ میرے اردگرد بہت سی ایسی خواتین ہیں جو اپنی مالی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے ملازمت کرتی ہیں لیکن اپنا باقی تمام وقت اپنے گھر کو دیتی ہیں، اور اس طرح ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ میں ان سطور کے ذریعے مائوں، بہنوں اور بیٹیوں سے یہی درخواست کروں گی کہ خواتین کے عالمی دن کو منانے کا عندیہ رکھتی ہیں تو بحیثیت ایک ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے اپنا لوہا دنیا کے سامنے منوائیں، جس کے لیے رب کائنات نے انہیں انسانیت کے سب سے اعلیٰ اور معزز مرتبے پر فائز کیا ہے۔ خصوصاً ماں، جسے اولاد کی تربیت کا آئینہ دار کہا گیا ہے۔ کسی بچے کی تربیت کو پرکھنے کے لیے ماں کے کردار کو دیکھنا ہوتا ہے، کیونکہ تربیت کی پہلی سیڑھی یہی معزز ہستی ہے۔

حصہ