بِاَیِّ ذَنبِ قُتِلَت

723

قدسیہ ملک
۔’’تمہاری کس عمر میں شادی ہوئی تھی؟‘‘ میں نے کرب سے روتی بلکتی سکینہ کا ذہن ہٹانے کے لیے اُس سے کچھ پوچھنا چاہا۔
کہنے لگی ’’باجی میری شادی تو17 سال کی عمر میں ہی ہوگئی تھی، لیکن میری بیٹی کی تو شادی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ وہ تو جوان ہوتے ہی سوہنے رب کے پاس پہنچا دی گئی۔‘‘ وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہماری یہ ماسی جو اندرون سندھ سے تعلق رکھتی ہے، کچھ سال سے ہمارے ہاں کام کررہی تھی۔ محنتی اور ایمان دار ہونے کے باعث ہم اُس کی غیر موجودگی میں پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ اُس دن بھی کچھ یوں ہوا کہ گھر میں نند اور اس کی نئی دیورانی کی دعوت تھی۔ کام کی بہتات پہلے ہی تھی۔ اکیلی بہو کے جہاں فائدے دنیا کو نظر آتے ہیں، وہیں نقصانات بھی کچھ زیادہ ہی ہوتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اپنا اکیلاپن بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ گھر کی ساری ذمے داری ایک ہی کے کاندھوں پر آجاتی ہے۔ سکینہ اور اُس کی دس برس کی بیٹی کے آجانے سے میرے آدھے کام بحسن وخوبی نمٹ جاتے تھے۔
لیکن اُس دن وہ نہیں آئی، میں نے سوچ لیا تھا کہ جب وہ آئے گی تو اسے کام پر نہیں رکھوں گی۔ بہت دن بعد جب وہ واپس آئی تو اس کا اداس چہرہ دیکھ کر بھی میرا دل نہ پسیجا۔ میں نے انتہائی درشتی کے ساتھ کہا کہ وہ یہاں سے چلی جائے، میں خود سارے کام کرلوں گی۔ وہ بالکل آہستگی سے ’’اچھا باجی جی‘‘ کہہ کر دروازے کی جانب بڑھی۔ اُس کو اس طرح جاتے دیکھ کر نجانے کیوں میرا دل بھر آیا۔ میں نے اسے روک کر نہ آنے کی وجہ پوچھی۔
سکینہ نے بتایا کہ اُس کے سسرال والوں نے جائداد کی تقسیم کا لالچ دے کر دونوں میاں بیوی کو گاؤں بلایا اور دوسرے ہی دن زبردستی اُس کی بیٹی زرینہ کی شادی قرآن سے کرا دی گئی، تاکہ جائداد بآسانی تقسیم کی جاسکے۔ شادی کے بعد کیونکہ اب وہ ’’پاک‘‘ ہوگئی، اس لیے اسے ہمارے ساتھ کہیں بھی آنے جانے پر پابندی لگاکر ایک بڑے سے کمرے میں قرآن کے ساتھ بند کردیا گیا۔
میں نے پوچھا ’’تم نے اس بات کی اطلاع اپنے گاؤں کی پولیس کو دی؟‘‘
کہنے لگی ’’باجی پولیس کو کہنے کا مطلب ہے اپنے آپ کو خود کنویں میں دھکا دینا۔ پولیس آکر ہمیں ہی پکڑ کر لے جاتی اور جھوٹے مقدمات میں اندر کردیتی۔ ایک مرتبہ ہمارے گاؤں کے اسکول ماسٹر کی بیٹی کو جو بڑی خوبصورت تھی، کاری کہہ کر مار دیا گیا۔ پورا گاؤں اس واقعے کا چشم دید گواہ تھا کہ وڈیرے سے شادی سے انکار پر وڈیرے کے غنڈوں نے آکر ثمینہ کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ ماسٹر جی بچی کی تدفین سے پہلے ہی تھانے میں وڈیرے اور اُس کے آدمیوں کے خلاف پرچہ کٹوانے گیا۔ پولیس نے ماسٹر جی کو ہی تھانے میں بند کردیا۔ وہ بدنصیب باپ اپنی بیٹی کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکا۔ اس واقعے کو اب پانچ سال ہوگئے ہیں۔ پولیس کہتی ہے اپنا بیان واپس لو گے تو جیل سے چھوٹ جاؤ گے۔ لیکن ماسٹر نہیں مانتا۔‘‘
بیٹی کی قرآن سے شادی کے کچھ ماہ بعد اسے اپنی بیٹی کی یاد ستائی تو اپنے شوہر کے ساتھ گاؤں چلی گئی۔ وہاں جاکر اس پر یہ انکشاف ہوا کہ زرینہ دو روز قبل کاری کے الزام میں چچا کے ہاتھوں ماری جاچکی ہے۔ اس کی لاش کو بغیر کفن دیئے کاری قبرستان میں زمین برد کردیا گیا تھا۔
سکینہ کو گاؤں والوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ گاؤں کے کمہار کے لڑکے کو بھی کارو کہہ کر مارا گیا ہے۔ سکینہ کی سہیلی نے اسے بتایا کہ تیری بچی کا کوئی قصور نہ تھا، لیکن کمہار کے لڑکے سے سکینہ کے دیور کی پرانی دشمنی تھی۔ اس نے دونوں کو کاروکاری کے الزام میں مار ڈالا، اور دونوں کی لاشوں کو ایک ساتھ لاکر ڈال دیا۔
اُس دن سکینہ بہت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ وہ بتارہی تھی کہ اس کا دیور بلاشرکت غیرے تمام جائداد کا اکیلا وارث بن بیٹھا ہے، ہمیں تو گاؤں بدر کردیا گیا ہے کہ تم لوگ کاری کے ماں باپ ہو، اور اب خود گاؤں میں معزز بن کر گھوم رہا ہے کہ غیرت کے لیے اپنی بھتیجی کو اپنے ہاتھوں مار ڈالا۔ میرے پاس سکینہ کو سوائے جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دینے کے کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے اپنے شوہر سے اس بارے میں بات کی تو کہنے لگے کہ یہ وڈیرے بڑے اثر رسوخ والے ہوتے ہیں، ان سے پنگا لینا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں آج بھی ان کے آدمی بیٹھے ہیں، اسی لیے آج تک ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں آج تک لاچار عورت اور مرد کو کبھی جائداد کے لیے، تو کہیں دشمنی نکالتے ہوئے کاروکاری کرکے مار دیا جاتا ہے۔
محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں 2019ء میں ڈینگی کے تقریباً 14 ہزار مریض رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں سندھ سے 120 مریض ڈینگی کا شکار ہوئے اور 11 اس بیماری سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران کاروکاری جیسی مہلک رسم سے 58 خواتین اور 20 مرد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
بدکاری کے شبہ میں عورت اور مرد کا ایک ساتھ قتل ’’کارو کاری‘‘ کہلاتا ہے۔ قتل کی یہ دہری غیر قانونی، غیر اسلامی، غیر انسانی واردات غیرت کے نام پر کی جاتی ہے۔ یہ قبیح اور گھناؤنے فعل پاکستان کے تمام صوبوں میں عام ہیں۔ ان کی پرانی اور دقیانوسی رسوم کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اُس کے شریکِ جرم کا قتل جائز ہے، اور قاتل سزا سے نہ صرف صاف بچ جاتا ہے بلکہ قابلِ عزت گردانا جاتا ہے۔
سندھ میں اس طرح کے قتل کو ’’کاروکاری‘‘، جبکہ پنجاب میں ’’کالا کالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں ’’طورطورہ‘‘ جبکہ بلوچستان میں ’’سیاہ کاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان کی سرحد کے قریب سندھ کے دیہی علاقوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جنوری سے جون 2019ء تک سندھ کے مختلف حصوں میں 78 لوگ قتل ہوئے، جبکہ کاروکاری کے نام پر 65 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ تاہم ان میں سے 90 فیصد کیس مختلف وجوہات کے باعث زیر التوا ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں پولیس کی تحقیقات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔
عورت کی مظلومیت کی یہ داستان کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔ یہ مظالم اُس وقت سے چل رہے ہیں جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی آمد کے بعد چھوٹے چھوٹے دیہاتی قبائل مضبوط ہونا شروع ہوئے تھے۔ آج بھی یہاں کا وڈیرہ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے کاروکاری جیسے واقعات کو فروغ دیتا ہے، کیونکہ پوزیشن، طاقت اور سیاست اس کی قوت میں اضافہ کرتے ہیں۔
قرآن سے شادی کی ایک معاشی وجہ بھی ہے۔ کیونکہ اس وڈیرہ شاہی نظام میں یہ سوچ عام ہے کہ لڑکی اگر خاندان سے باہر بیاہ کر جائے گی تو اس سے ملکیت تقسیم ہوجائے گی۔ اسی وجہ سے قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز شوہروں یا خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے اوسطاً 137 خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے قتل ہونے کی سب سے ممکنہ جگہ اس کا گھر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2017ء میں قتل ہونے والی 87000 خواتین میں سے نصف سے زائد کی موت اُن کے عزیزوں کے ہاتھوں ہوئی۔
اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے، جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک اہم رکن ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات ہی کی بدولت ہر طرح کے سماجی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی، روحانی، مذہبی، ثقافتی، علاقائی، سیاسی، انتظامی اور بین الاقوامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
لیکن یہ سرمایہ دارانہ، وڈیرہ شاہی نظام آج بھی پاکستان میں دینِ اسلام سے دوری کے باعث اپنے اسلاف کے غلط کاموں کو نسل در نسل آگے کرتے ہوئے اقتدار کے اعلیٰ مناصب پر براجمان ہے۔ آج بھی اپنی امارت، اسٹیٹس اور طاقت کے زعم میں مبتلا کھربوں کی جائدادیں بناتے اور غریب کا خون تک نچوڑ لینے والے یہ امیر اور جدی پشتی رئیس اپنی اور دوسری معصوم دیہاتی عورتوں اور مردوں سے زندگی چھین لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
جب ان معصوم اور لاچار عورتوں کے نام پر بڑے بڑے سیمینار، کانفرنسوں اور ورکشاپس کا انعقاد ہوتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ ان تمام افعال سے آج کی لاچار اور ظلم کی چکی میں پسی ہوئی عورت کی زندگی میں کیا فرق پڑ رہا ہے؟ کیا مردوں کو نیچا دکھانے اور صرف مردوں کو اپنا دشمن سمجھنے والی یہ عورت جانتی ہے کہ آج بھی اندرون سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں عورت کے ساتھ مرد کو بھی شبہ میں مار دیا جاتا ہے۔ کبھی ان عاقبت نااندیش افراد نے یہ سوچا کہ جب روزِ قیامت ان سرمایہ داروں، وڈیروں اور اپنی سیٹ سنبھالتے ان سیاست دانوں سے اس تمام خونِ ناحق کا حساب مانگا جائے گا کہ بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتتو یہ کیا جواب دیں گے؟

حصہ