آزادی نسواں؟؟۔

633

افروز عنایت
مغرب کی اندھی تقلید نے ہم سے اپنی پہچان کھودی ہے ہم اسلامی تعلیمات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں اس دوڑ میں مرد و زن بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑ رہیں ہیں کہ کہیں ہم نہ پیچھے رہ جائیں اور ہمیں طعنہ دیا جائے اور تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ خصوصاً ہمارے معاشرے میں خواتین کا ایک ایسا طبقہ ہے جو اسلامی حدود و تعلیمات کو اپنے پیروں کی بیڑی سمجھتی ہیں، نہ صرف خود ان حدود کو توڑ کر باہر نکلنا پسند کرتی ہیں بلکہ دوسروں میں بھی یہ ’’شعور‘‘ اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جس کی ایک جھلک میں اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ ’’شوہر کے لیے کیوں روٹی پکائوں‘‘ وغیرہ جیسی غلط اور لغو باتیں ہم سب کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں۔ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے دین اسلام نے عورت کو جو مقام معتبر عطا کیا اسے پستیوں سے نکال کر معاشرے کی اعلیٰ معتبر مسند پر مزین کیا گیا تھا آج اس کی دھجیاں ان نام نہاد آزادی نسواں کی علمبردار خواتین کے ہاتھوں بکھیری جارہی ہیں آج کی اس عورت کی کوشش اور دیرینہ خواہش ہے کہ وہ مرد کے شانہ بشانہ قدم آگے بڑھائے اس راہ میں اس کو کوئی رکاوٹ پسند نہیں مرد جسے دین اسلام میں ایک اعلیٰ حیثیت و عورت کا سرپرست اور سائبان بنایا گیا ہے اس سے وہ آگے نکلنے کے لیے اس کی دینی حیثیت کو فراموش کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ آج کی عورت جس یورپ اور مغرب کی عورت کی تقلید میں اپنا تقدس کھو رہی ہے اس یورپ و مغرب زدہ عورت کی زبوں حالی کو دیکھیے وہ مرد اور دنیا کے ہاتھوں میں صرف ایک ’’کھونا اور شو پیس‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے، عزت و آبرو کیا ہے؟ اُسے اس سے کوئی غرض نہیں بلکہ تمام یورپ اور مغرب کی زبوں حالی اور پستی اس دن سے شروع ہوگئی جب اسے زمانے کے سامنے لاکھڑا کردیا گیا۔ بہت پہلے میں نے جناب مودودیؒ کی کتاب ’’پروہ‘‘ کا مطالعہ کیا تھا اس وقت مجھے ان کی تحریر ذہن کے دریچوں پر اس قدر واضح نہ ہوسکی تھی لیکن آج اپنے آس پاس ان ’’آزادی نسواں‘‘ کی نام نہاد علمبرداروں کی بے باکانہ حرکتوں اور جملوں سے احساس ہورہا ہے کہ ہمارے معاشرے کے لیے یہ ’’پھیلی ہوئی وبا‘‘ کس قدر خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ جس کی روک تھام کے لیے ہر ایک کو صرف سوچنا ہوگا بلکہ قدم اُٹھانا ہوگا آج کی عورت کو ذرا پیچھے مڑ کر ام المتوفات و صحابیات کے کردار و عمل کا مطالعہ کرنا ہوگا جنہوں نے چادر و چار دیواری حیا اور پاکیزگی سے اپنے گھروں کو روشن کیا اور اولادوں کو پروان چڑھایا۔ شوہروں کی خدمت اور گھرداری کو اہمیت دی آج کی عورت اپنا موازنہ ان اعلیٰ معتبر ہستیوں سے کرے جن خواتین کو جدید سہولتیں میسر نہ تھیں، آج کی عورت کو تو جدید سہولیات میسر ہیں انہیں آرام حاصل ہے۔ جدید مشینوں نے ان کی زندگی کو آرام و سہولتیں فراہم کی ہیں پھر بھی یہ نالاں ہیں چولہا ہانڈی اولاد کی تربیت کرنا اور شوہر کے لیے کھانا بنانا کھٹک رہا ہے اتنی سہولیات کے باوجود وہ اپنے آپ کو معاشرے کی مظلوم ہستی سمجھ رہی ہے۔ عورت کا اسلامی معاشرے میں اعلیٰ مقام ہے، بیٹی ہے تو باپ کے لیے اعزاز اور جنت، بیوی ہے تو شوہر کا آدھا دین، ماں ہے تو اولاد کی جنت، سبحان اللہ۔ اس معتبر ہستی کو ’’آج کی عورت‘‘ نے بیچ چوراہے پر بینر لیے ’’تماشا‘‘ بنادیا ہے۔ چار سائبانوں کے سائے تلے سکون و عزت و تکریم سے رہنے والی اس ہستی کو سرعام لا کر تماشا بنانے والے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ’’ابھی بھی ان تلوں میں تیل ہے‘‘ غیرت مند ہستیوں کے لیے یہ لمحہ فکر ہے، اپنی بہو، بیٹیوں اور بہنوں کے تقدس کے لیے وہ آواز اٹھارہے ہیں اور رب العزت ہم سب کو اپنے گھروں میں اس چیز کا خیال رکھنا ہوگا۔ بیٹی، بہن، ماں، بہو، بیوی انہیں پیار و محبت سے دین کی طرف مائل کرنا ہوگا کیونکہ وہ رب کی طرف سے تمام رشتوں کے لیے معتبر اور عزت کی حقدار ہے ان کی صحیح رہنمائی اور تربیت انہی ہاتھوں میں ہے عورت کا تحفظ عزت و وقار، تکریم ان مقدس اور پیارے رشتوں کے ساتھ ہے۔ اس حقیقت سے عورت کو انکار نہیں ہونا چاہیے، عورت گھر کی عزت مان اور وقار ہے نہ کہ بازار کی رونق اور تماشبین نظروں کا مرکز اسے عزت و وقار باپردہ حیثیت سے گھر سے نکلنے سے روکا نہیں گیا ہے۔ تاریخ اسلام کے صفحے پلٹیں تو مسلمان خواتین کے بے شمار تاریخی واقعات اور نمایاں امور سے تاریخ کے صفحات روشن ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کو نہ صرف روشن کیا بلکہ باہر کے امور میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، یہ مقدس خواتین ہماری آئیڈیل ہیں ان کے نقش قدم پر چل کر گھریلو اور بیرونی امور انجام دے کر ہی وہ دنیا میں اپنی پہچان بناسکتی ہیں۔ یقینا اس امر سے اس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا نہ کہ گھٹے گا۔ میں اپنے پاس بہت سی ایسی خواتین کو جانتی ہوں جنہوں نے عزت و وقار سے اپنے گھر و گھر ہستی کو ترجیح دے کر بھی اپنی حیثیت کو منوایا ہے لیکن… لیکن انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق آگے قدم بڑھائے ہیں۔ آج نام نہاد حقوق نسواں کے علمبرداروں کو یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ عورت کے اصل حقوق کی پاسداری صرف حدود اسلامی میں قائم ہے جیسا کہ حضرت عمرؓ فاروق فرماتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو کوئی شئے نہیں سمجھتے تھے (یعنی معاشرہ میں اس کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہ تھی) مگر جب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا خصوصی تذکرہ کیا تو پھر احساس ہوا کہ ہم پر عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارا ان پر حق ہے (بخاری الکتاب الباس) لہٰذا آج کی مظلوم عورت کے حقوق کی بات کرنی ہے تو اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں نہ کہ اس آزادی کی تمنا اور کوشش کریں جو کہ عورت کی بربادی کا باعث گھر اور گھر والوں کے دلوں میں ہونا چاہیے۔ وہ گھر کی ملکہ ہے اس اعزاز کے مطابق ہی وہ اپنی پہچان بنائے۔

حصہ