کراچی کے ماتھے کا جھومر

559

خرم عباسی
کل ہزاروں لوگوں نے اشکبار آنکھوں اور دکھی دل کے ساتھ ملک کے عظیم سپوت ، انسان دوست اور ساری زندگی انسانیت کی خدمت کیلئے صرف کرنے والے ایک درویش نعمت اللہ خان کو ان کے آخری سفر پر روانہ کیا۔ 1947 میں بے وسیلہ کراچی پہنچنے والے اس شخص نے ٧٠ برس کی مسلسل جدوجہد اور محنت سےیہ مقام حاصل کیا ۔ آپ نے بتایا کہ کراچی میں دہشت ، ظلم ، حرص اور لالچ ہے تو وہاں نعمت اللہ خان بھی ہے جو دہشت گردوں کی پرواہ کئے بغیر ہر وقت انسانوں کی خدمت کرنے پر آمادہ و تیار ہے۔آپ کراچی کی مایوس کن تاریخ میں خدمت اور ایثار کا ایسا مینارہ نور ہیں جو آنے والی کئی دہائیوں تک اپنی بے پناہ روشنی سے اس ملک کی تاریکیوں کو بقعہ نور بناتا رہے گا۔
‎نعمت اللہ خان نے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رح کے شہر میں آنکھ کھولی۔اجمیر شریف سے 1946ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی شان سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد وہ 1947ء کے آواخر میں پاکستان آ گئے۔ ۔ پہلی چند راتیں انہوں نے کراچی کے فٹ پاتھ پر سو کر گزاریں۔باقی اہل خاندان کی آمد پر مزار قائد کے قریب ایک جھونپڑی میں رہنے لگے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ یہ بے آسرا جھونپڑی کا مکین ایک روز کراچی کا میئر بنے گا اور خدمت کی ایک لازوال اور بے مثال داستان رقم کرے گا۔ کراچی ان کا محسن اور وہ کراچی کا محسن تھے ۔ کراچی کی ایک کچی آبادی کے دورے کے موقع پر میں بھی ان کے ساتھ تھا ، نعمت صاحب آبادی سے خطب کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا “میں بھی ایک جھوپڑی میں رہا کرتا تھااور کراچی کی کچی آبادیاں شہر کے ماتھے کا جھومر ہیں ، اسی لئے 1999ء میں بڑھائے جانے والے لیز کے نرخ منسوخ کرکے 1989ء کے نرخ بحال کیے .نعمت اللہ خان نے نوعمری میں اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لئے ایک مستقل اور دو جزوقتی ملازمتیں کیں۔اتنی محنت کے باوجود وہ اپنی اعلیٰ تعلیم سے غافل نہیں رہے۔ انہیں نامساعد حالات میں آپ نے پہلے بی اے پھر ایم اے اور ایل ایل بی کر لیااور انکم ٹیکس لاء میں کمال حاصل کیا۔1958ء میں وہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہو گئے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں خان صاحب کا شمار سندھ ہائی کورٹ کے نامور وکلاء میں ہونے لگا۔تحریک پاکستان کے دوران اسلامیان برصغیر سے کیے جانے والے وعدوں کو عملی شکل دینے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے لیے آپ نے1957ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، اور اس پیرانہ سالی کے باوجود اس خواب کی تعبیر پانے کے کے لیے مصروف عمل رہے ۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے جماعت کی رکنیت کا حلف خانہ کعبہ میں اٹھایا۔ حلف لینے والے پروفیسر غفور احمد تھے۔ آپ کراچی جماعت کے نائب امیر اور ایک عرصہ تک امیر رہے۔
1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔۔1988ء میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریباً ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔2001ء میں وہ جماعت کی طرف سے ناظم کراچی منتخب ہوئے۔۔ ایک نئے نظام میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی لیکن آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا، اور4 سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی۔ باوجود اس کے کہ آپ کو ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ لسانی تنظیم کے گورنراور صوبائی وزرا کے معاندانہ رویے کی وجہ سے شدید مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن آپ نے جوانمردی اور استقامت سے ان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور کراچی کی خدمت اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی سمجھوتے سے ہمیشہ انکار کیا۔
جب آپ ناظم کراچی منتخب ہوئے تو شہر کی آبادی5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں شہر کے اندر شہری سہولیات کا فقدان اور ترقیاتی کاموں کا کہیں وجود نہیں تھا۔ شہری انفراسٹرکچر تباہ حال تھا اور پورا شہر کسی اجاڑ جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً تمام بڑی شاہراہیں اور اندرونی راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، بڑی چورنگیوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا، سیوریج کا نظام ابتر تھا، اورکبھی روشنی کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس صورتحال سے گھبرانے کے بجائے بہتر حکمت عملی سے آپ نے اس تیز رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے اور شہری سہولیات فراہم کیں کہ پاکستان اور اس خطے میں اس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔
نعمت اللہ خان نے اربوں روپے کی لاگت سے بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرایا، کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کی ، اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھادیا،ان شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کر کے آپ نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو “روشنیوں کا شہر” بنا دیاتھا ۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لیے “اربن ٹرانسپورٹ سکیم” سکیم شروع کی اور پہلی دفعہ500 بڑی، کشادہ اور ائیر کنڈیشن بسیں کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے درجنوں “پیڈیسٹرین برجز” کی تنصیب کے علاوہ ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے ڈرائیور اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ470 مقامات پر خوبصورت بس شیلٹرز تعمیر کیے گئے۔ اسی طرح ماس ٹرانزٹ کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا، جبکہ شہر میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس کی اورنگی، بلدیہ، کورنگی اور نارتھ کراچی تک اس کی توسیع کا منصوبہ منظور کرایا۔
نعمت اللہ خان نے کراچی میں تعلیم کی بہتری کے لیے خاص توجہ دی۔آپ نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں تعلیم کی مد میں ریکارڈ 31 فیصد رقم مختص کی۔ آپ کی نظامت سے قبل سرکاری اسکولوں کے محض150 سے200 طلبہ اے یا اے ون گریڈ حاصل کر پاتے تھے، اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کے مختلف جدید ٹریننگ کورسز اور “پروفیشنل ٹریننگ پروگرام” میں ہزاروں اساتذہ کی تربیت کے بعد یہ تعداد2000 تک پہنچ گئی تھی۔ آپ کے ناظم بننے سے قبل شہر میں88 کالجز تھے، آپ نے 4 سال کی مختصر مدت میں ریکارڈ32 نئے کالجوں کا اضافہ کیا، اور تمام کالجوں میں آئی ٹی لیب کی تعمیر کو یقینی بنایا۔ ایک اور قابل ذکر کام تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس سکیم ختم کر کے مرکزی داخلہ پالیسی کا نطام اپنانے کے بعد تمام کالجوں میں میرٹ پر داخلے کو یقینی بنانا ہے۔
کراچی کے عوام کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی طرف بھی آپ کی توجہ مرکوز رہی۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے علاوہ آپ نے10 مختلف مقامات پر” پرچیسٹ پین سنٹر” کے قیام کا منصوبہ پیش کیا۔ اس میدان میں آپ کا خاص کارنامہ KRACHI INSITITUTE OF HEART DISEASE کے نام سے امراض قلب کے جدید ترین ہسپتال کا قیام ہے۔ ملیر میں نئے ہسپتال کی تعمیر کے علاوہ نیو کراچی میں اور کورنگی ہسپتال میں “کڈنی ڈائلیس سنٹر” کا قیام بھی آپ کے دور میں عمل میں آیا۔ اسی طرح ناظم شہر کے کیمپ آفس میں کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والا جدید ترین “ڈائیگنوسٹک سنٹر” بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ آپ کے دور میں کراچی کی ضلعی حکومت پاکستان کی واحد ڈسٹرکٹ گورنمنٹ تھی جس نے زیر تربیت ڈاکٹروں کو وظائف فراہم کیے۔ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی ہیوی انڈسٹری کی شہر سے باہر منتقلی کی بھرپور مہم چلائی اور کراچی بلکہ ملک بھر میں پہلی دفعہ سی این جی پر چلنے والی بسوں کو متعارف کرایا۔ آپ نے محکمہ باغبانی کو متحرک کیا اور شہر میں پارکس اور پلے گراونڈز تعمیر کرائے۔ آپ نے4 برسوں میں300 پارکس کو ازسر نو تعمیر کرایا،300 پلے گراونڈز کی حالت بہتر کرائی، بیشتر میں فلڈ لائٹس کی تنصیب ہوئی، جبکہ کراچی کے 18ٹاونز میں سے ہر ٹاؤن کو کم از کم ایک ماڈل پارک بنا کر دیا۔ یہ ماڈل پارکس ملک بھر میں اپنی نوعیت کےمنفرد پارکتھے ۔ اسی طرح دامن کوہ، باغ ابن قاسم اور گٹر باغیچہ پارکس جیسے میگا پروجیکٹس کا آغاز بھی آپ کے دور میں ہوا۔ سفاری پارک میں پاکستان کا سب سے بڑا سفاری ایریا ہے جو مناسب اقدامات نہ ہونے کے سبب35 سال سے بند تھا، آپ نے اس پر کام شروع کیا، جانوروں کی تعداد میں اضافہ کیا، سفاری کوچز چلائیں، اور اب روزانہ ہزاروں افراد اپنی اہل خانہ کے ہمراہ یہاں آتے ہیں۔پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے آپ نے “کے تھری واٹر سپلائی پروجیکٹ” شروع کیا جس سے روزانہ دس لاکھ گیلن پانی شہریوں کو فراہم ہو سکے گا۔ اسی طرح آپ نے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب اور سیوریج کے پانی کو ری سائیکل کر کے کارخانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کے معاہدے کیے۔ سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے اربوں روپے خرچ کیے۔ 50 سالہ پرانی پائپ لائنوں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی اور نئے پمپس کی تنصیب کرائی۔ کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کے لیے500 سولڈ ویسٹ ٹرانسفر اسٹیشن تعمیر کیے۔
نعمت اللہ خان نے شہری سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے فروغ، دینی معلومات میں اضافے اور اسلامی فن و ثقافت کی ترویج اور کھیلوں کی ترقی کے لیے بھی مختلف عملی اقدامات کیے۔ شہریوں میں ابلاغ دین، قرآن وسنت کے پیغام کو عام کرنے اور معاشرے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیا کے لیے “قرآن و سنہ اکیڈمی” قائم کی۔ اسی طرح “المرکز الاسلامی” کا منصوبہ مکمل کرایا جس میں ایک بڑی لائبریری، آڈیٹوریم، مسجد اور آرٹ گیلری برائے فنونِ لطیفہ شامل ہیں۔ سیٹیزن کمیونٹی بورڈ، تھانوں میں لائبریریرز کا قیام، پبلک مقامات پر ائیرکنڈیشن لائبریریوں کی تعمیر، ویمن اسپورٹس کمپلیکس اور ویمن لائبریری کمپلیکس کی تکمیل اور مختلف اسلامی، اصلاحی اور سماجی پروگرامات کا انعقاد آپ کی بہترین کاوشوں کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔کراچی میں پہلی بار سٹی گیمز کا انعقاد بھی آپ کا ایک کارنامہ ہے۔ کل21 کھیلوں کے یہ مقابلے18 ٹاونز کی تمام178 یونین کونسلوں کی سطح پر منعقدہ ہوئے۔ یہ کھیل شہر میں کھیلوں کے فروغ و صحت مند ماحول کی فراہمی اور اتحاد و یکجہتی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوئے، اور گراس روٹ لیول سے کھیلوں کے بیش بہا ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔نعمت اللہ خان کے مخالفین بھی ان کے اخلاص اور امانت داری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے دیانت کی مثال قائم کی اور کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک منصوبہ کہ پی سی ون میں جس کا تخمینہ25 کروڑ روپے تھے، آپ کے دوبارہ ٹینڈر کرانے سے اس پر لاگت کا تخمینہ صرف6کروڑ روپے آیا۔ اسی طرح شاہراہ فیصل فلائی اوور پر26 کروڑ31 لاکھ کا تخمینہ لگایا گیا مگر آپ نے اسے18 کروڑ میں مکمل کرایا۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں ساڑھے آٹھ کروڑ کی کرپشن کا خاتمہ کیا۔ آپ نے تمام ٹینڈرز اور معاہدوں کی جانچ پڑتال اور نیلامی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا، اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے تعاون سے Procurenment Mannual بنایا اور پھر اس کے نفاذ کو یقینی بنایا۔
نعمت اللہ خان نے اپنی انتھک محنت اور کوششوں کے بعد شہری حکومت کے بجٹ میں حیران کن حد تک اضافہ کیا اور اسے5 ارب سے43 ارب تک لے گئے۔29ارب کا “تعمیر کراچی پروگرام” بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ناظم کراچی کی حیثیت سے آپ نے ہفتے میں ایک دن عوامی رابطے کے لیے مختص کیا۔ اس دوران ساٹھ ہزار سے زائد عوامی مشکلات و مسائل کو حل کیا۔ ابتدائی تین سالوں میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور عامۃ الناس سے2 لاکھ خطوط، فائلیں، فیکس اور ای میلز موصول ہوئیں جس پرآپ نے مختلف محکموں کو احکامات جاری کیے۔ شہری مسائل کے حل کے لیے صدر پاکستان، گورنر، وزیر اعلٰی اور چیف سیکرٹری سندھ سے ملاقاتیں کیں، ورلڈ بنک اور ایشین بنک کے علاوہ کراچی میں مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں اور تعلیمی وفود سے ملاقاتوں کے علاوہ2500 کے قریب عوامی جلسوں اور افتتاحی تقریبات میں شرکت کی۔ نعمت اللہ خان بلاشبہ کراچی کے سب سے بہترین اور کامیاب ترین مئیر تھے۔ آپ نےبر وقت عوامی مسائل کے حل، سہولیات کی تیز رفتار فراہمی، بے مثال ترقیاتی کاموں اور امانت کا جو معیار قائم کیا ہے، وہ کراچی کے عوام میں ایک “رول ماڈل” کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور اب وہ ہمیشہ نئے آنے والے ناظمین کی صلاحیتوں کا نعمت اللہ خان کی کامیابیوں کے ساتھ موازنہ کریں گے۔
کسی بھی ناگہانی آفت و مصیبت کے وقت نعمت اللہ خان ہمیشہ متأثرین کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچتے تھے ۔ الخدمت ویلفئیر سوسائٹی کےخالق اور سربراہ ہونے کی حیثیت سے آپ نے کراچی کی غریب اور کم آمدنی والی آبادی کے لیے کئی ویلفئیر سکیمیں بنائیں اور پورے شہر میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں، اسکولوں اور مدارس کا جال سا بچھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ1996ء میں دادو،سندھ میں سیلاب،1997ء میں ہرنائی، بلوچستان میں زلزلے،1998ء میں تربت وگوادر، بلوچستان میں سیلاب،1999ء میں کیٹی بندر، جاتی، بدین اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان کے موقع پر ریلیف آپریشنز کی قیادت کی اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا۔1997 ء میں تھرپارکر میں آنے والے قحط کے دوران اور اس کے بعد نعمت اللہ خان نے تھرپارکر کے وسیع و عریض صحرا کے چپے چپے پر عوامی خدمت کا جو کام جماعت اسلامی کے نظم، کے تحت محدود وسائل سے کیا، وہ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد پانے والی این جی اوز کے کام سے کہیں زیادہ ہے۔آپ نے تھرپارکر میں میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے “زمزم پراجیکٹ” کے نام سے 363 کنویں کھدوائے جن سےہزاروں بے وسیلہ صحرانشینوں کو پانی فراہم ہو رہا ہے۔ اسی طرح1000 سے زائد دیہاتوں میں “العلم
پراجیکٹ” کے نام سے ان مظلوم و محروم لوگوں کی نئی نسل کوزیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے اسکول قائم کیے جو اکیسویں صدی میں بھی پتھروں کے دور کے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ1997ء سے اب تک اس بے آب و گیاہ صحرا کے دور دراز گوشوں کا طویل، تکلیف دہ اور تھکا دینے والا سفر کر کے ان مفلوک الحال لوگوں کی خبر گیری کرتے رہے ، اور ان کی ضرورت کی چیزیں ان کے گھروں کے دروازے تک پہنچاتے رہے ۔
اکتوبر2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے آپ کو الخدمت پاکستان کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ نے زلزلہ متاثرین تک نہ صرف کروڑوں روپے کی مالی امداد پہنچائی بلکہ انھیں غذائی سامان، کپڑے، کمبل اور خیمے بھی مہیا کیے۔نعمت اللہ خان کی فلاحی سرگرمیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت دیگر اسلامی ممالک کے مصیبت زدہ عوام کی مدد کے لیے بھی آپ ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔ جب اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کی تو نعمت اللہ خان نے مظلوم لبنانیوں کی داد رسی کے لیے وہاں کا دورہ کیا اور کروڑوں کی امداد بہم پہنچائی۔آپ نے “فکر ملی ٹرسٹ” کے تحت ایک تھنک ٹینک ادارہ قائم کیا ۔ اس تھنک ٹینک سے چئیرمین آئی ایس پی آر پروفیسر خورشید احمد، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر جمیل جالبی، سابق چئیرمین یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ڈاکٹر پریشان خٹک، سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محمد رفیق، معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، معروف دانشور لیفٹننٹ جنرل(ر) حمیدگل اور سابق گورنر بلوچستان لیفٹننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ جیسے لوگ منسلک رہے ۔ خان صاحب کے کارہائے نمایاں کی وسعت کالم کی تنگ دامانی میں نہیں سما سکتی لیکن ،آج پورا کراچی سراپا احتجاج ہے۔یہ حیران کن امر ہے کہ وفاقی حکومت،سندھ حکومت ،بلدیاتی اداروں میں براجمان جماعتیں بھی الزام تراشیوں،ایک دوسرے کو مطمئن کرنے کے ساتھ احتجاج بھی کررہی ہیں۔اس سے زیادہ سنگین مذاق کراچی کے عوام سے نہیں ہوسکتا۔ ندامت،شرمندگی کی بجائے کراچی کی تباہی کے ذمہ دار ڈھٹائی سے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔عوامی مزاج میں مزیدنفرتیں اور زہر انڈیل رہے ہیں۔جماعت اسلامی جس نے کراچی کی قومی صوبائی ،شہری سیاست پر مثبت خدمت،امانت و دیانت وحدت یکجہتی کے نقش قائم کئے ہیں، مشکل ترین حالات میں کارکنان کی شہادتیں برادشت کیں ،کارکنان پر بد ترین تشدد سہا لیکن اپنے نظریہ ،اصول، دعوت دین، عوامی خدمت کا علم نہیں گرنے دیا۔ کراچی کے ان حالات میں ایسے مرحلہ میں جب کراچی کے عوام کا کوئی یار ومددگار نہیں ،وزیراعظم ،وزیراعلیٰ حکمران پارٹی کے رہنما اور ممبران جھوٹ فریب اور نمائش سے عوامی زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔جماعت اسلامی کراچی نے بہت سلیقہ،جرأت مندی اور عوام کو درپیش حقیقی مسائل پر منظم احتجاج اورعوام کی مشکلات کے حل کے لیے آواز اٹھائی ،جماعت اسلامی کے بر وقت اقدام و کردار نے سیاست اور حکمرانی پر قابض عناصر کو بھی جھنجوڑا ہے۔تحریک اسلامی کے روشن ستارے ایک ایک کر کے اٹھتے جا رہے ہیں تحریک اور تحریکی اداروں میں پے در پے ہونے والا یہ خلا پورا ہونا داخلی اور خارجی استحکام کے لئے بہت ضروری ہے، نئے افراد یقینا سامنے لائے جانے چاہئیں نئے،پرانے کے سابقوں اور لاحقوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے باصلاحیت اور دردمند افراد کو آگے لانا چاہئے تاکہ حقیقی معنوں میں یہ خلا پر ہوسکے اور مقصد و نصب العین کے حصول میں مدد گار ثابت ہو سکے۔ ملت ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے ابھی کئی قیمتی گوہر چھپے ہوئے ہیں انہیں آگے کرنے اور صیقل کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم انسانی معاشرے میں فرشتوں کو تلاش کرتے ہیں، کسی انسان سے غلطیوں سے پاک، اور لغزشوں سے مبرا ہونے کی توقع میں ہم لوگ افراد کی شکل میں اپنا قیمتی سرمایہ محض اس لئے کھودیتے ہیں کہ ہمیں ان میں کوئی برائی نظر آجاتی ہے۔ سو خوبیوں کی تعریف کرنے کی جگہ ہم ایک آدھ خامی یا کمی کو بیناد بنا کر ان سے مخالفت کی حد تک اختلاف کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افراد یا تو اداروں سے بد دل ہوجاتے ہیں یا بے دل ہوجاتے ہیں۔ ایسے دور میں تحریک کو جہاں افراد سازی کی ضرورت ہے وہیں اجتماعیت کی ضرورت بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ ہمارے پاس صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہے، اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کر ے کہ اس گئے گزرے دور میں جماعت اسلامی کا ایک ایک کارکن انسانوں کی بے مقصد بھیڑ کے سینکڑوں افراد پر بھاری ہے ۔
دعا ہے کہ رب کریم نعمت اللہ خان صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے کارہائے نمایاں بارگاہ رب العزت میں ان کی مقبولیت کا سبب بنیں۔آمین

حصہ