عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔

1266

افشاں نوید
آج آپ ادارۂ نور حق آئیں گے۔ اور…آج کے بعد پھر کبھی نہیں آئیں گے۔ آپ تو زندگی بھر یہاں آتے رہے، مگر آج آپ کے استقبال کی انوکھی تیاریاں ہیں۔آپ کے چاہنے والے صبح سے پہنچے ہوئے ہیں۔ انتظامات ہورہے ہیں۔ ٹریفک کیسے کنٹرول کرنا ہے کہ روانی میں خلل نہ پڑے، کن راستوں سے آپ کو لے کر جانا ہے، ہزاروں کی خلقت جس رستے سے گزرے گی وہ رستہ بند نہ ہوجائے۔ انتظامات کچھ یوں کرنا ہیں کہ اللہ کی مخلوق کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ جس مخلوق کے لیے آپ نے خود کو وقف رکھا، آج کے دن اس کے اکرام میں کوئی کمی نہ آئے۔
آپ جیتے جی بھی عزیز تھے اور آج عزیزِ جہاں ہوگئے۔ سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ… ہر جگہ بس آپ ہیں۔ سب آپ کو لکھ رہے ہیں، آپ کی ویڈیوز شیئر ہورہی ہیں۔ آپ کا خطاب، آپ کا درس، آپ کی تذکیر،آپ کی لرزتی آواز، آپ کا خوفِ خدا سے بھیگا لہجہ۔ کتنے درد سے آپ بندوں کو بندگی کی طرف بلاتے تھے۔ آپ تو مولانا مودودیؒ کا چلتا پھرتا لٹریچر تھے۔ ہم سے تو گھر اور گلی نہیں سنواری جاتی، آپ تو شہر کو سنوار گئے تھے۔ ایک شہر کیا… شہر شہر پھرتا تھا بنجارہ۔
آج ہم آپ کو ہمیشہ سے زیادہ ’’محسوس‘‘کررہے ہیں۔ اللہ نے آپ کو جو موقع دیا، جو زندگی دی اُس کو آپ نے برت کے دکھایا کہ دیکھو کیسے جیتے ہیں، اشرف المخلوقات ہونا کسے کہتے ہیں۔ آپ کی موت نے آپ کی زندگی کی کتنی خوبصورت گواہی دی ہے بابا جی۔ ہر اپنا پرایا اشک بار ہے۔ اس شعر کو ترمیم کے بعد یوں کیا جاسکتا ہے کہ:

’’جس دھج سے کوئی دنیا سے گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘

آپ کی دھج اور آپ کی شان آپ ہی کے حصے میں آئی تھی۔ آپ پر سینکڑوں مضامین لکھے جائیں گے، اس سے کئی ضخیم کتابیں آپ کے چاہنے والے تیار کریں گے۔
آپ ہی جیسوں کے تو مجسمے بناکر وہ اپنے عجائب گھروں میں رکھتے ہیں، جن کو ان کے اکابرین اور نوجوان نسلیں سلیوٹ کرتی ہیں۔ وہ یاد رکھتے ہیں اپنے عظیم لوگوں کو۔ ہمارے پاس بھی آپ کی یاد کا طریقہ ہے۔ آپ کے مشن کو جاری و ساری رکھنا۔
ہم نے ادارۂ نورحق میں بارہا آپ کو سنا،آپ کو دیکھا، ٹرک پر کھڑے ہوکر جو خطابات آپ نے کیے، جو پیغام دیے، وہ سب زندہ پیغام تھے۔ لیکن آج آپ جو پیغام دیں گے ویسا پیغام تو ہمیں کبھی نہ ملا تھا۔آج جو بھی آپ کا دیدارِ آخر کرے گا، جو آپ کو کندھا دے گا، جو تابوت کے ساتھ ساتھ چلے گا، جو مٹی ڈالے گا آپ کی لحد پر، جو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گا، جو آستین سے آنکھوں کے گوشے صاف کرے گا، جو چشمہ اتارکر جیب سے ٹشو نکالے گا، جو اپنے گھر میں دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھ رہی ہیں، کسی کے آنسو آنکھوں کے بجائے حلق میں گر رہے ہیں، ان سب سے ایک ہی سوال ہے آپ کے جسدِ خاکی کا کہ… بتاؤ کیسے جیو گے، کس کے لیے جیو گے؟ اور سنو! اپنے لیے جینا بھی کوئی جینا ہے! آج کے دن کے لیے زندگی سنوارو کہ نفسِ مطمئنہ کا استقبال فادخلی فی عبادی وداخلی جنتی کی صداؤں کے ساتھ ہو (ان شاء اللہ)۔
آج کچھ ’کھونے‘ کے احساس سے ہم لرز گئے ہیں۔ ہم خود اپنے آپ سے تعزیت کررہے ہیں، ایک احساسِ یتیمی رگ و پے میں اترا ہوا ہے اہلِ کراچی کے۔ خود کو دلاسہ دے رہے ہیں، ہم نے ایک اور شاہ بلوط گرتے دیکھا ہے…
آپ کے چاہنے والے ہزاروں یا لاکھوں نہیں ہیں، صرف انسان ہی نہیں ہیں۔ وہ اسپتال، وہ پارک، وہ مدرسے، وہ کنویں، وہ فلٹر پلانٹ، وہ برج، وہ ہینڈ پمپ، وہ تعلیمی ادارے، وہ فلاحی منصوبے، وہ بستیاں جہاں آپ صرف خلق کی دست گیری کے لیے جاتے تھے، وہ سفر جو زندگی بھر آپ نے کیے، وہ ساری مٹی آج گواہی دے رہی ہے۔ آپ جتنی گواہیاں سمیٹ کر گئے ہیں وہ تو گنتی کے خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہیں۔ فلک تُو بھی گواہ رہنا، یہ مٹی اور ہم اس پہ بسنے والے بھی آپ کی بے لوث جدوجہد کے گواہ ہیں۔
آپ کے حقیقی چاہنے والے تو وہ ہیں جو اس مشن کو زندہ رکھیں جو آپ کا مشن تھا۔ آپ دوسروں کے لیے جیے اور سچ مچ جی گئے۔ جی داروں کی طرح جیے۔ جینا سکھا گئے۔ کہہ گئے کہ

یہ جان تو اک دن جانی ہے پھر جان کے کیسے لالے ہیں
گر ساتھی منزل پانی ہے تو منزل آخر منزل ہے

ادارۂ نور حق آپ کو خدا حافظ کہہ رہا ہے۔ ہم آپ کی جدائی کے دکھ کو قلب کی گہرائی سے محسوس کررہے ہیں۔ آپ نے اس کی خلق کو جو سہولتیں پہنچائیں اس کی گواہی دنیا نے دی۔ پاکستان کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ شہر کراچی کا میئر دنیا کے چار بہترین میئرز میں سے ایک تھا۔ یہ آپ کی شبانہ روز کاوشیں تھیں۔
آپ شدید علالت میں بستر پر ہوتے، آپ کی صحت کے لیے دعائیں ہورہی ہوتیں اور آپ صحت کی پروا کیے بنا میدانِ عمل میں نکل پڑتے۔
آپ ایک بے چین روح کے مالک تھے۔ رب کی رضا کی متلاشی روح۔ آپ حاضر وموجود سے بے زار تھے۔ لگتا تھا آپ نے موت کے آئینے میں رخِ دوست دیکھ لیا ہے جس نے آپ کی زندگی دشوار کردی ہے۔
ہم تصور کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فرشتوں نے روح قبض کرتے ہوئے کہا ہوگا کہ ایک تھکا ہوا آدمی آیا ہے خاک آلود پیروں کے ساتھ۔ حکم ربی ہے کہ اس کے آرام کا خیال رکھا جائے۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

آمین یا رب العالمین

حصہ