زخم بھرجاتے ہیں مگر اف! یہ کھرچنے والے

912

قدسیہ ملک
’’زخم بھرجاتے ہیں مگر اُف یہ کھرچنے والے۔ باجی میری سمجھ میں نہیں آتاکہ لوگ میرے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں۔‘‘
وہ رو رو کر اپنا غم ہلکاکررہی تھی، مگر غم سے ہلکان ہوئے جارہی تھی۔ وہ درس والی باجی کو بتارہی تھی ’’باجی جب میں ذہنی دباؤ کی اس کیفیت سے باہر آتی ہوں، ذرا ہنستی مسکراتی ہوں، تھوڑی دیر کے لیے اپنا ماضی بھول جاتی ہوں، تو لوگ مجھے دوبارہ اسی کیفیت میں پہنچادیتے ہیں۔ ایسے ایسے سوالات پوچھتے ہیں کہ میرے زخموں سے دوبارہ خون رسنے لگتا ہے۔ کیا مجھے دوسروں کی طرح جینے کا حق نہیں ہے؟کیا میں ہمیشہ ایسی ہی حالت میں رہوں گی؟‘‘
باجی نے اُس کی تمام باتیں غور سے سنیں اور کہا ’’اگر لوگ تمہیں قبول نہیں کرتے تو تم کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، کیونکہ لوگ اکثر وہ چیزیں چھوڑ دیتے ہیں جن کی قیمت وہ دے نہیں پاتے۔ تم تو بہت قیمتی ہو‘‘۔
وہ ایک دم خاموش ہوگئی۔ ایسے، جیسے کسی نے اُس کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو۔
…………
ایک صاحبہ نے اپنے گھر کا احوال بتایا۔
ان کے ہاں دو ذہنی معذور بہن بھائی تھے۔ اپنے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں ’’جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ ہمارا بھائی جب زیادہ تر وقت گھر کے اندر گزارتا تھا تو قدرے بہتر حالت میں ہوتا تھا۔ مگر جب اس کا رابطہ باہر دوستوں، رشتے داروں اور عام لوگوں سے پڑتا تو اس کی حالت بگڑ جاتی تھی۔ ایک تو ایسے مریضوں کو اپنی مرضی اور منشا کے برعکس باتیں سن کر اور کام دیکھ کر غصہ آجاتا ہے، اور دوسرا بعض دفعہ لوگ بھی خلوص اور نادانی سے ان سے ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں کہ جس کا وہ منفی اثر لیتے ہیں۔ اس لیے ایسے مریضوں سے احتیاط سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً ان پر طنز کرنے سے یا ان کا مذاق اڑانے سے حد درجہ گریز کرنا چاہیے‘‘۔
آخر میں انہوں نے بتایاکہ اس طرح لوگوں کے رویوں سے دل برداشتہ ہوکر بالآخر اس کا انتقال ہوگیا۔ اس بات کو بھی دس سال ہوگئے لیکن ابھی بھی بعض لوگ ہمارے زخموں کو کریدتے اور مزا لیتے ہیں۔
………
ایک خاتون بتاتی ہیں ’’میری بیٹی بہت خوش اخلاق تھی۔ اُس کے ساتھ بہت مسائل تھے۔ اس کے دونوں گردے فیل ہوچکے تھے۔ اس کے والد نے اسے اپنا گردہ دیا تھا۔ وہ ڈائیلاسز پر ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کے درمیان بہت خوش رہتی لیکن پوری رات بستر میں روتی رہتی کہ فلاں آنٹی آج مجھے اس طرح کہہ رہی تھیں۔ میں روز اس کی ہمت بندھاتی، اسے لوگوں کے آگے کھڑا کرتی۔ وہ بہت حساس تھی، کہتی: لوگ مجھے کہتے ہیں تمہارے ابو صرف ایک گردے پر تمہاری وجہ سے ہیں۔ اس عمر میں ایک گردے کے ساتھ زندہ رہنا کتنا مشکل ہے، لڑکیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ مگر اللہ کسی کو ایسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔‘‘
وہ خاتون بتاتی ہیں ’’میں اس کے سوالوں پر اسے کہتی کہ تم ہمارے لیے آزمائش نہیں بلکہ ہمارا مان ہو، مجھے تم پر فخر ہے۔ لیکن وہ یہی غم لیے بالآخر یہ دنیا چھوڑ گئی۔‘‘
جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) سے ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر ان گناہوں کا تعلق حقوق العباد (بندوں کے حقوق) سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، تو قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام علماء و فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق معاف کروائیں، لوگوں سے خوش خلقی سے پیش آئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لیے رجوع کریں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن مومن کے اعمال کے ترازو میں کوئی چیز خوش خلقی سے زیادہ وزنی نہ ہوگی، اور اللہ تعالیٰ بدگو اور بد زبان کو بہت برا سمجھتا ہے۔‘‘
لوگوں کے مسائل نرمی اور خوش اخلاقی کے ساتھ اگر آپ سنتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن ان تمام مسائل کو خلوص کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کیجیے۔ یا پھر انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ سننے سے معذرت کرلیجیے۔ خدارا کبھی کسی کی نجی زندگی کی باتوں کا تذکرہ کسی دوسرے سے مت کیجیے، تاکہ میزانِ عمل میں آپ کے کاندھوں پر دوسروں کو تکلیف دینے کا بوجھ نہ ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا (مسلم۔ باب تحریم الظلم)۔ یہ ہے اس امتِ مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود حقوق العباد میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
کسی بھی طرح کے صدمات کو جھیل کر لوگوں سے میل جول رکھنا کچھ آسان کام نہیں۔ دعا ہے کہ خدا ہمارے دشمن کو بھی کبھی کسی قسم کے مسائل و صدمات والے دن نہ دکھائے کہ اس کا احساس وہی لوگ رکھتے ہیں یا کرسکتے ہیں جو کسی بھی قسم کے صدمات کا سامنا کررہے ہوتے ہیں، یا جن پر ایسے دن گزر رہے ہوتے یا گرز چکے ہوتے ہیں وہ لوگوں کے کڑوے کسیلے رویوں سے واقف ہوتے ہیں۔
ایک ماہر نفسیات کے نزدیک منفی رویوں سے خود کو بچانے کے لیے کچھ کارآمد معلومات آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں:۔
1۔ اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کام، ہر بات کو اتنا سوچنے اور کریدنے میں لگ جاتے ہیں کہ جیسے وہ کام ان سے نہ ہوا تو پتا نھیں کیا قیامت آجائے گی۔ ان پر بوجھ ڈالا جاتا ہے اور وہ اس بوجھ کو اپنے اوپر حاوی کرتے جاتے ہیں، یعنی بچہ پڑھتا تو دوسری جماعت میں ہو اور ذمہ داری وہ آٹھویں جماعت کی اٹھا لیتا ہے، ایسا کرنے سے وقت سے پہلے کمر ٹوٹ جائے گی۔
2۔ آپ اگر آفس میں ہیں یا کسی بھی ادارے میں کام سے منسلک، تو اتنا کام کیجیے جتنا کرسکتے ہیں۔ اضافی بوجھ خود پر نہ ڈالیں، پریشانی ہے تو بات کریں، بولیں۔
3۔کچھ مشکلات وقتی ہوتی ہیں جنھیں ختم ہونا ہوتا ہے، اور وہ ختم ہوجاتی ہیں۔ کچھ مسائل کے حل کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، اس کے پیمانہ صبر ہے۔ اور کچھ مشکلات کا پھل آپ کو اس مشکل سے کئی گنا بڑی خوشی کی صورت میں ملتا ہے۔ پس وہی مقامِ شکر ہوتا ہے، جسے ہم ناشکری کرکے، جلد بازی کرکے مقامِ گلہ بنا دیتے ہیں۔
4۔آفس، سسرال، میکہ کے معاملات وہیں تک محدود رکھیں۔ کام کے معاملات کام کی جگہ تک، گھر کے معاملات گھر تک… اگر ان سب کو ایک دوسرے سے جوڑیں گے تو پریشانی ہوگی۔
5۔گزارش اور مقصد یہ ہے کہ غیر ضروری بوجھ چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو، خود پر نہ ڈالیں۔ سب کام اللہ تعالیٰ بہتری کے لیے ہی کرتا ہے، اور وہ انسان پر اس کی سکت سے زیادہ بوجھ، پریشانی نہیں ڈالتا۔ مگر ہم خود ہی مزید گھبرا جاتے ہیں۔
6۔ سوشل میڈیا کا دور ہے اور فیس بک پر طرح طرح کی بحث کا سامنا ہوتا ہے، اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ انسان کی سوچ، فطرت، رویّے پر اثر چھوڑ جاتی ہیں، اور سب غیر ضروری، اضافی بوجھ اور منفی سوچ کو ہم اپنے ذہن میں رکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا جو چیز جس مقصد کے لیے ہے اس کا استعمال اتنا ہی رکھیں، کیوں کہ مزے کی بات یہ ہے کہ جس چیز کو، جس پوسٹ کو، جس موضوع کو، جس بات کو لے کر ہم خود پر بوجھ ڈالے جارہے ہیں اصل میں اس کو کہنے والے یا چلانے والے محض کہہ کر سائیڈ پر ہوجاتے ہیں۔
7۔ ابھی بھی وقت ہے، سوچ بدلیں، معمول بدلیں، خود میں نیا پن لائیں۔
خود کو بدلنے کا مطلب اپنی عادتوں کو بدلنا ہوتا ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ اپنی بہت پرانی عادات جن کے ساتھ آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے، انہیں بدلنا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت مضبوط قوتِ ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ کچھ ’’خاص‘‘ بننا چاہتے ہوں، ایک مشن کے تابع ہوں، ایک مشن کو لے کر اٹھنے والے ہوں، زندگی ایک ’’مقصد‘‘ کے تحت گزارنا چاہتے ہوں تو پھر اچھی عادتیں اپنانا آپ کا شوق بن جاتا ہے۔ سستی، کاہلی، دل نہ لگنا، مستقل مزاجی نہ ہونا، جھجکنا وغیرہ جیسی منفی عادتیں عام بات ہیں، کسی کو بھی گھیر سکتی ہیں۔ خود کو احساس دلانا ہے کہ ایسی عادتوں سے دوری اختیار کی جائے جن سے شخصیت کمزور ہوتی ہو۔
نرمی پیدا کرنے، اور لوگوں سے محبت کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنے دل کو نرم کریں۔ حدیثِ پاک میں ہے: اللہ عز و جل جب کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس میں نرمی پیدا فرما دیتا ہے (مسند احمد)۔ ایک اور مقام پر فرمایا گیا: جو نرمی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا (مسلم)۔ کیونکہ دل انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے، جب یہ نرم ہوگیا تو آپ کے کردار، گفتار اور اطوار میں خود ہی نرمی پیدا ہوجائے گی۔ زبان اور پیٹ کو حرام سے بچانا، موت کو یادکرنا، اچھی صحبتیں اپنانا اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا ہی دراصل ایک داعی کی زندگی کا مطلوب ہے۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

حصہ