ریاض الجنہ میں نماز کی ادائیگی اور مؤذن مسجد نبویؐ ڈاکٹر ایاد شکری سے ملاقات

2179

عبدالمالک مجاہد
۔23دسمبر 2019ء کو پیر کا دن تھا، میں ایک دن پہلے مدینہ طیبہ پہنچا تھا۔ مدینہ شریف میں ظہر کی اذان کا وقت بارہ بج کر بیس منٹ ہے۔ ٹھیک گیارہ بج کر چالیس منٹ پر مؤذن مسجد نبوی شریف ڈاکٹر ایاد احمد شکری صاحب کی کال آئی: شیخ عبدالمالک آپ کہاں ہیں، میں آپ کا مؤذنین کے حجرے میں منتظر ہوں۔ جلدی آجائیں ہمیں اذان سے پہلے مسجد میں داخل ہونا ہے۔ اللہ اکبر، مجھے مؤذن مسجد نبوی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگا۔ میرے ایمان کی حرارت تیز ہوگئی۔
ایک رات پہلے شیخ ایاد احمد شکری صاحب نے مجھے بتا دیا تھا کہ پیر کے روز ظہر کی اذان مجھے ہی دینی ہے۔ آپ بھی آجائیں ملاقات بھی ہوجائے گی، اور نماز ظہر بھی ادا کرلیں گے۔ میں تیز تیز قدموں سے مسجد نبوی کی طرف چل رہا تھا، میرا ہوٹل باب ملک فہد کے بالکل قریب تھا، پھر بھی تین چار منٹ تو لگ ہی گئے۔ مؤذنین اور ائمہ مسجد نبوی شریف کے حجرے مسجدالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جنوب میں واقع ہیں۔ محراب کے بغل میں خصوصی طور پر ایک دروازہ کھولا گیا ہے جہاں سے مسجد نبوی شریف میں ائمہ اور مؤذنین داخل اور خارج ہوتے ہیں۔ اگر آپ محراب کے سامنے کھڑے ہوں تو جنوب کی طرف ائمہ مسجد نبوی اور مؤذنین کے لیے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی خاصا بڑا صالہ (صحن) ہے جہاں پر جنازے رکھے جاتے ہیں۔ مسجد کے جنوب مشرق میں بقیع الغرقد کا قبرستان ہے۔ مسجد نبوی کے تقدس اور اس کی اہمیت سے ہر مسلمان خوب واقف ہے۔ اگر ہم آج سے 1441سال پہلے اس مقام کو دیکھیں تو اس جگہ بنو نجار کا محلہ تھا۔ مسجد نبوی کی جگہ دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھی۔ یہاں کھجوریں خشک کی جاتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کی اونٹنی اسی جگہ بیٹھی تھی جہاں آج مسجد نبوی ہے۔ آج جس جگہ کھلا میدان ہے وہاں کبھی سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر تھا۔ آج سے چالیس سال پہلے جب میں سعودی عرب آیا تو یہاں ابھی اس گھر کے آثار موجود تھے۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے سعودی حکومت کو کہ انھوں نے جب مسجد نبوی کی توسیع کی تو اس جگہ کو بھی توسیع میں شامل کرلیا۔
میں جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچا تو جہاں مجھے ڈیوٹی پر موجود پولیس کا سپاہی نظر آیا وہاں شیخ ڈاکٹر ایاد شکری بھی نظر آئے۔ میں آگے بڑھا تو انھوں نے لپک کر گلے لگا لیا۔ اذان میں کم و بیش بیس منٹ باقی تھے۔ وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے آئے۔ مؤذنین کے کمرے میں ہم دونوں ہی تھے۔ ہم آرام دہ صوفوں پر بیٹھ گئے۔ سامنے ٹیبل پر خوبصورت برتن میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں پڑی تھیں۔ انھوں نے شیشے کا ڈھکن اٹھایا، اس میں سے کھجور تلاش کرنے لگے۔ کہنے لگے: شیخ عبدالمالک! میں آپ کے لیے سب سے بہترین کھجور تلاش کر رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک موٹی سی کھجور میرے ہاتھ میں تھما دی۔
اس ملاقات میں ہماری گفتگو علم اور کتابوں سے شروع ہوئی۔ اذان میں وقت تھوڑا ہی رہ گیا تھا۔ انھوں نے مجھے اشارہ کیا کہ اٹھو چلیں۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آگیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں۔ آج میں بھی ریاض الجنہ میں نماز ادا کروں گا۔ جبکہ میں مسجد کی طرف آتے وقت سوچ رہا تھا کہ معلوم نہیں شیخ ایاد شکری مجھے اپنے ساتھ ریاض الجنہ میں لے جاتے بھی ہیں یا نہیں۔ مگر انھوں نے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ ہم کمرے سے نکلے تو سامنے جنازے رکھے ہوئے تھے۔ یہ ہال جنازوں کے لیے مختص ہے۔ میں نے جنازوں کی گنتی کی، تعداد گیارہ تھی۔ سامنے کے دروازے سے مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اذان میں کم وبیش پانچ سات منٹ رہ گئے تھے۔ شرطوں (سیکورٹی اہلکاروں) نے شیخ کو دیکھا تو راستہ کھول دیا۔ میں چونکہ شیخ کے ساتھ تھا اس لیے کسی نے بھی نہ روکا۔ شیخ نے ریاض الجنہ میں اگلی صف میں میرے لیے جگہ بنوائی۔ مجھے فرمانے لگے: اس جگہ نوافل ادا کریں، یہ زیادہ مناسب ہے۔ میں نے پورے اطمینان سے اذان سے پہلے تحیۃ المسجد کے نوافل ادا کیے۔
شیخ ایاد شکری اذان کہنے کے مقام کی طرف بڑھ گئے۔ ترکوں نے مؤذن کے لیے اونچی جگہ بنائی ہے، وہاں مؤذن اذان دیتا ہے۔ میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ میں عین اذان کہنے کی جگہ سے متصل بیٹھا ہوا تھا۔ شیخ ایاد شکری اذان دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں ان کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اذان کو اپنے موبائل کی آنکھ میں محفوظ کیا۔ میرا ذہن اس روز بہت کچھ سوچ رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے کتنے ہی مناظر چلے آرہے تھے۔ میں ریاض الجنہ میں بیٹھا ہوا تھا جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری قرار دیا ہے۔ یہاں کتنے ہی ستون ہیں، ہر ستون کی ایک کہانی ہے۔ میرے سامنے منبر تھا، محراب بھی بالکل قریب تھا۔ میں منبر کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کھجور کے ایک تنے کا سہارا لے کر اس پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر لوگوں سے خطاب فرماتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو موجد بنایا ہے۔ مختلف چیزوں کو بنانے کا درس دیا اور نئی چیزیں بنانے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ ایک دن ایک انصاری عورت آپؐ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوتی ہے، عرض کرتی ہے: اللہ کے رسولؐ! میرا بیٹا کارپینٹر ہے، اگر آپؐ اجازت دیں تو آپؐ کے لیے وہ منبر بنا دے۔ آپؐ نے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جواب اثبات میں دیا۔ چند دنوں کے بعد مسجد نبوی میں منبر رکھ دیا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب فرماتے ہیں۔ کھجور کا وہ تنا جس پر آپؐ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے، ہچکیاں لے لے کر رو رہا ہے۔ آپؐ سے انسان ہی نہیں حجر اور شجر بھی محبت کرتے تھے۔ پہلے اس تنے کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تھا کہ کائنات کی سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت اس پر دستِ شفقت رکھتی تھی، اب وہ اس اعزاز اور برکت والے ہاتھ کے لمس سے محروم ہوگیا ہے۔ ہچکیاں لے کر رو رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لاتے ہیں، اس کو پیار کرتے ہیں تو وہ ہچکیاں لینا بند کردیتا ہے۔
مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا اپنا ہی مزا اور سرور ہے، خصوصاً ریاض الجنہ میں نہ جانے کتنے صحابہ کرامؓ اور ائمہ نے اپنی پیشانیاں سجدے میں رکھی ہیں۔ آہستہ آہستہ سیکورٹی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شرطے اپنی اپنی جگہ سنبھال رہے ہیں۔ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرہ کی طرف دیکھ رہا ہوں، اور سوچ رہا ہوں کہ کس شان سے میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجرۂ مبارک سے نکل کر محراب کی طرف تشریف لاتے ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ کس شوق سے اس دروازے کی طرف دیکھتے ہوں گے کہ کب اللہ کے رسولؐ کے چہرۂ اقدس کی زیارت ہوگی۔
قارئین کرام! میں تھوڑی دیر کے لیے اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا، میں ایک ایک لمحے کو اپنے دل ودماغ میں جگہ دینا چاہتا تھا۔ امام صاحب کے تشریف لانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ میں نے سامنے دیکھا امام صاحب آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عموماً ظہر کی نماز شیخ عبدالمحسن القاسم پڑھاتے ہیں۔ میری خواہش تھی کہ آج بھی وہ نماز پڑھائیں تو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوجائے۔ نماز ظہر جو اس مقدس مقام پر ادا کی اس کی لذت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ بلاشبہ یہ وقت میرے لیے بڑا مبارک تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کرلیے۔ دعا سے فارغ ہوا تو سنتیں ادا کیں۔ اتنے میں شیخ ایاد شکری نیچے اترتے نظر آئے۔ ایک مرتبہ پھر ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا، ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کے خواہش مند ہزاروں کی تعداد میں کھڑے تھے۔ ہمارا رخ مؤذنین کے حجرہ کی طرف تھا۔ ہم دونوں پھر ایک مرتبہ بیٹھ گئے، دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اسی جگہ اذان دیتے تھے جہاں آپ نے ابھی اذان دی ہے؟ کہنے لگے: نہیں، بلکہ وہ تو ایک انصاری خاتون کے گھر میں بنے مینار کے اوپر چڑھ کر اذان دیتے تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی آواز بلند تھی۔ مسجد نبوی کے اردگرد کھیت، بازار اور گھر تھے۔ وہاں لوگ کام کررہے ہوتے تھے۔اس طرح گھروں میں مرد، عورتیں سبھی اذان کی آواز سنتے تو فوراً مسجد کا رخ کرتے۔
شیخ ایاد شکری سے میں نے اہلِ پاکستان کی مسجد نبوی، اس کے ائمہ اور مؤذنین سے محبت کا ذکر کیا۔ سبحان اللہ! قیامت کے دن اِن شاء اللہ ہمارا ٹھکانہ انھی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ جس جس کا بھی تعلق محمدؐ، ان کی آل اولاد یا مسجد نبوی شریف سے ہے الحمدللہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی مشہور حدیث ہے کہ ’’ قیامت کے روز آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔‘‘
اللہ! تُو گواہ رہنا، یہ مضمون لکھنے والا، اسے پڑھنے والے، اسے پڑھ کر لوگوں کو سنانے والے سب کے سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ کے تمام صحابہ کرام، تابعین، ائمہ کرام، محدثین، علمائے کرام اور تمام مسلمانوں کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ ہمیں جنت میں اپنا اور اپنے پیارے نبیؐ کا دیدار نصیب فرمانا۔ ہمیں اللہ کے رسولؐ کی شفاعت نصیب فرمانا۔ آمین یارب العالمین۔

حصہ