حوصلہ مند بہادر، جرأت مند لوگ

921

یہ بہت حوصلہ مند، بہادر اور جرأت مند سیاسی لیڈر، انسانی حقوق کے علمبردار اور دانشور کالم نگار ہیں جو جرم کی سنگینی، وحشت، درندگی اور مقتول معصوم بچوں کی بے بسی کو جانتے ہوئے بھی مجرم کی عزت کے لیے سرعام سزا کی مخالفت کر رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی ایسی تکلیف دہ راتیں اور اذیت ناک دن نہیں گزارے کہ جب ان میں سے کسی کی بیٹی یا بیٹا اچانک غائب ہو جائے اور وہ اس کی تلاش میں سرگرداں سر پٹکتے رہیں، انہیں طرح طرح کے خیالات گھیر لیں، انہیں رہ رہ کر اپنے بچے کا خیال آئے، رات کو اٹھتے بیٹھتے انہیں اس کی بے بسی میں بلند ہوتی چیخیں سنائی دیں، ظالموں کے سامنے امی ابو پکارتی ہوئی آوازیں ان کے کانوں سے ٹکرائیں، رحم کی بھیک مانگتے ہوئے اس کے ننھے ننھے ہاتھ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔ ایسی کئی راتیں گزارنے کے بعد پھر انہیں اپنے بیٹے یا بیٹی کی مسخ شدہ لاش ملے، جسے جنسی درندوں نے تشدد کے بعد ہلاک کردیا ہو، لاش کی حالت ان کے ضبط کے بندھن توڑ دے اوروہ پھوٹ پھوٹ کر روئیں، ان اذیت ناک لمحوں کا تصور دل میں لائیں جب ان کا بچہ یا بچی اس ظالم سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوگا۔
آنے والا ہر گزرتا دن ایک اذیت اور ہر نئی رات ایک کرب لے کر ان پر اترے، تو ایسے میں شاید ان سیاست دانوں کی زبان یہ فقرہ بولتے ہوئے لڑکھڑا جائے کہ میں اپنے بچے کے قاتل کی سرعام پھانسی نہیں چاہتا۔ اگر ایسا کسی انسانی حقوق کے علم بردار دانش ور یا کالم نگار کی اولاد کے ساتھ ہوا ہوتا تو وہ ایسے مجرموں کی سزا میں نرمی تو دور کی بات، اس کا قلم ان کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا۔
وہ اپنے بچے کے درد میں بھول جاتا کہ ترقی یافتہ دنیا یا یورپی یونین کیا کہہ رہی ہے، اسے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اصول زہر لگنے لگتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ’’عظیم لوگ‘‘ وہ ہیں جن کی عزت پر کوئی انگلی اٹھائے تو وہ سرعام اسے تھپڑوں سے نواز دیں اور جو اپنے ذاتی جھگڑوں کو خاندانی غنڈوں اور کرائے کے قاتلوں سے حل کروانے کی روایت رکھتے ہیں۔
کیا یہ تمام سیاسی راہنما اور دانش ور کالم نگار اللہ تبارک وتعالیٰ، جو رحمن و رحیم ہے اس سے زیادہ انسانوں کا درد رکھتے ہیں، جس نے پوری انسانیت کے بچاؤ کے لیے ایک ہی نسخہ قرآن پاک میں وضاحت سے بیان کردیا۔ ’’اے عقل رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص (قتل کے بدلے قتل) میں زندگی کا سامان ہے، امید ہے تم اس کی خلاف ورزی سے بچو گے۔‘‘ (البقرہ: 179)
یہ لوگ رحمتہ اللعالمین، رسول مقبولؐ جنہیں اللہ نے قرآن پاک میں مومنوں کے لیے رؤف و رحیم کے لقب سے پکارا ہے، فرمایا ’’تمہارے ہاں ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمھاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے رؤف و رحیم (انتہائی شفیق، نہایت مہربان) ہے۔‘‘ (التوبہ: 128)
یہ اربابِ سیاست اور اہل دانش اس رسول ؐ رحمت سے بھی زیادہ خود کو انسانیت کا خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ؐ کے دور اور آپؐ کے خلفائے راشدین کے دور میں اسلام کی حدود و تعزیرات کے تحت دی جانے والی تمام سزائیں سرعام دی جاتی تھیں۔ جیل خانوں میں صبح سے پہلے اندھیرے میں ایک ڈاکٹر، مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے سامنے جلاد کے پھانسی دینے کا عمل انگریز کی اختراع ہے، بجلی کی کرسی پر بٹھا کر کرنٹ چھوڑنا یا اسے زہر کا انجکشن لگانا اور ایسا کسی تنہائی میں کرنا جدید دنیا کا رویہ ہے۔ لیکن سنت رسولؐ کے مطابق سنگساری سے لے کر کوڑے لگانے اور قصاص کی تمام سزائیں لوگوں کے سامنے اور مدینہ کے باہر میدان میں دی جاتی رہی ہیں۔
ماعزا سلمی‘ جنہیں زنا کے اقبال جرم پر سنگسار کیا گیا‘ اُن کے بارے میں جگہ‘ مقام اور وہاں موجود لوگوں کی بے شمار روایات حدیث میں موجود ہیں۔ یہودی جوڑا جسے تورات کے حکم کے مطابق سنگسار کیا گیا ان کے بارے میں بھی لوگوں کی موجودگی اور سزا کے سرعام نفاذ کی بے شمار روایات ملتی ہیں۔ حدود کی تمام سزاؤں کا نفاذ آپؐ اصحاب کے روبرو کرتے، یہاں تک کہ ہاتھ کاٹنے پر قریش کی مخزومی عورت فاطمہ کے لیے قریش کے لوگ حضرت اسامہ ؓ کو جب سفارش کے لیے لے کر گئے تو احادیث میں سب کے سامنے آپؐ کا وہ اعلان موجود ہے جو خطبے کی صورت دیا گیا کہ ’’اللہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (مسلم)
ان سزاؤں کے علاوہ سفاک اور ظالم مجرموں کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ انتہائی سخت تھا۔ ایسے مجرم جنہیں اسلام فساد فی الارض کے مجرم قرار دیتا ہے، اُن میں سرکاری خزانہ لوٹنے والے بھی شامل تھے۔ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ 6 ہجری کو مسلمان ہوکر مدینہ آئے اور بیمار پڑگئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے باہر اس جگہ بھیجا، جہاں بیت المال کے اونٹ چرائے جاتے تھے اور انہیں وہاں رہ کر ان اونٹوں کا دودھ پی کر شفایاب ہونے کے لیے کہا۔ ان اونٹوں کی نگرانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام لسیارؓکیا کرتے تھے۔ صحت مند ہونے کے بعد ان لوگوں نے لسیارؓ کی آنکھیں پھوڑ کر انھیں قتل کر دیا اور اونٹ چوری کرکے فرار ہوگئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرز بن جابر الفہری کی سربراہی میں لشکر روانہ کیا جو ان کو پکڑ کر لایا۔ آپؐ نے حکم دیا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں مخالف سمت میں کٹوا کر ریت پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے دیکھا ان میں ہر ایک خاک چاٹ رہا تھا، یہاں تک کہ سب مر گئے۔‘‘ (ترمذی، طبقات ابن سعد)۔ فساد فی الارض کی یہ سزا بھی سرعام نافذ ہوئی۔
اب ذرا ان جدیدیت کے مارے اور ترقی کے دیوانے سیاست دانوں اور دانشور کالم نگاروں کی خدمت میں دنیا کے اعداد و شمار رکھ دوں۔ امریکا میں جن چار برسوں یعنی 1993ء￿ سے 1997ء میں سب سے زیادہ پھانسیاں دی گئیں، قتل کی شرح 26 فیصد کم ہوئی۔ 1993 میں 24,562 لوگ قتل ہوئے اور 1997 میں 18,209 لوگ قتل ہوئے۔ برطانیہ نے 1964 سے پھانسی کی سزا ختم کی ہے، ان کے ہاں قتل کی شرح دگنی ہوگئی ہے۔ 1964 میں ایک لاکھ پر 0.68 لوگ قتل ہوئے تھے اور اس وقت یہ شرح 1.42 ہے۔ برطانیہ کے 2010 اور 2011 کے اعداد و شمار بتانے ہیں کہ سزا کاٹنے والے قاتلوں میں سے 35 ایسے تھے جو رہا ہونے کے بعد دوبارہ قتل کرنے لگے۔
یورپی یونین کے ممالک میں قتل کے واقعات کی پھانسی کی سزا کے خاتمے میں کمی کے کوئی شواہد نہیں۔ جن ملکوں میں سرعام قتل کی سزا دی جاتی ہے اُن میں سعودی عرب اور ایران سرِ فہرست ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں قتل اور جرم کی سطح دنیا کے بے شمار ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے۔
فن لینڈ، فرانس، کینیڈا، ہنگری، اسٹونیا، لٹویا، گرین لینڈ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں میں قتل کی شرح سعودی عرب سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی کیفیت ایران کی بھی ہے۔ ان اعداد و شمار کے علاوہ ان تمام مہذب ممالک کا ایک غلیظ اور منافقت بھرا روپ بھی ہے۔ یہ اپنے ملک میں سرعام تو کیا پھانسی کی سزا کے ہی خلاف ہیں، لیکن یہ عراق‘ افغانستان اور لیبیا میں اپنی فوجوں کو عام شہریوں کے ٹھکانوں پر بم برساتے ہوئے ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھاتے ہیں۔ ان کے سامنے عراق کی کئی منزلہ عمارت میں سینکڑوں عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان امریکی میزائل گرنے سے دھویں اور گرد و غبار کے بادل میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہ ظالم لوگ ٹیلی ویژن پر سارے مناظر براہ راست دیکھ کر فتح کے شادیانے بجاتے ہیں۔ یہ مظلوم کی موت کا تماشا سر عام دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ظالم کی موت پر انہیں دکھ ہوتا ہے۔ یہی حال میرے ان سیاست دانوں اور دانشور کالم نگاروں کا ہے۔ سوچتا ہوں اگر قصور کی زینب ان لوگوں میں سے کسی کی بیٹی ہوتی تو وہ اسمبلی کا مائیک پکڑتے ہوئے کانپ جاتا، قلم پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ تھرتھرا جاتے۔ بہت حوصلہ مند، بہادراور جرأت مند ہیں یہ لوگ۔

حصہ