بہت یاد آؤگے

613

۔’’تم فرمائو، بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔‘‘ (الانعام162)۔
’’اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھیرنا اور برتنا ہے۔‘‘ (الاعراف24)۔
ان آیات سے ہمیں زندگی کا فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش، اس کی زندگی، موت، اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے حوالے سے معاملات واضح اور تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ موت اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، اللہ ہی زندگی اور موت کا مالک ہے، ہم سب کو لوٹ کر خالقِ کائنات کے پاس جانا ہے۔
آہ محسنِ کراچی محترم نعمت اللہ خان ہم سے جدا ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا انتقال یقینا ان سے محبت کرنے والوں، اور ان کے اہلِ خاندان کے لیے بڑا صدمہ ہے جو ہمیشہ رہنے والا دکھ اورتکلیف ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، اور ان کے اہلِ خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔
محترم نعمت اللہ خان بلند ہمت، باکردار شخصیت کے ساتھ انتہائی سادہ اور نفیس انسان تھے۔ انہوں نے بہت سے مسائل اور تکالیف کا سامنا کیا، اور بہت سے معاملات میں سرخرو ہوئے۔ نعمت اللہ خان 1948ء میں کراچی آئے اور ایک رات انہیں سڑک پر گزارنا پڑی۔ اُن کی کراچی شہر سے وابستگی اور بے مثال محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے: یہ میرا شہر ہے، لہٰذا اس کی تعمیر و ترقی کے لیے میں جتنا بھی کام کرسکوں وہ کم ہے۔ ویسے تو اُن کی نظامت کے دور میں کراچی میں کئی میگا پروجیکٹ پایۂ تکمیل کو پہنچے، اور متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوا۔ مجھے یاد ہے نعمت اللہ خان نے شہر کراچی کی نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی دو میگا پروجیکٹس کی تیاری شروع کردی تھی، جس میں پہلا شاندار منصوبہ شاہ فیصل کالونی نمبر 2 سے کورنگی صنعتی ایریا تک، ملیر ندی پر ایک پُل کی تعمیر سے متعلق تھا، جبکہ دوسرا عظیم الشان پروجیکٹ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر تھا، جو نعمت اللہ خان کی دن رات کی محنت سے2005ء میں شروع کردیا گیا تھا اور فروری 2009ء میں اس کا افتتاح ہوا۔ میں پہلے ہی واضح کرچکا ہوں کہ اُن کی نظامت کے دور میں کراچی میں کئی میگا پروجیکٹس کا نہ صرف آغاز ہوا بلکہ متعدد منصوبے تکمیل کو بھی پہنچے، لیکن چونکہ اِس وقت میرے پیش نظر شاہ فیصل کالونی کورنگی پُل ہے، اور یہ پُل میری رہائش گاہ سے قریب بھی ہے، اس لیے میں اس منصوبے کی افادیت کے بارے میں یہاں کے مکینوں یا یوں کہیے اس پُل سے گزرنے والوں کی رائے لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نعمت اللہ خان کی جانب سے لانڈھی، کورنگی اور شاہ فیصل کالونی کے عوام کی سہولت کے لیے تعمیر کیے گئے پُل کی جانب چل پڑا۔
وہاں کچھ دیر ٹہلنے کے بعد میں نے پُل سے گزرنے والوں سے بات چیت شروع کردی۔ دورانِ گفتگو اسلم نامی شخص نے بتایا:
’’میں کورنگی نمبر چار رحیم آباد میں رہتا ہوں، اس راستے سے گزرنا میرا روز کا معمول ہے، پہلے دفتر جانے کے لیے مجھے کورنگی کراسنگ روڈ استعمال کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے دفتر پہنچنے میں نہ صرف خاصا وقت لگتا تھا بلکہ پیٹرول کی مد میں بھی اضافی اخراجات ہوتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے، جس دن سے یہ پل بنا ہے مجھ جیسے عام آدمی کو بہت سہولت ہوگئی ہے۔ اس رابطہ پل سے ہزاروں افراد روزانہ سفر کرتے ہیں، پہلے جو سفر گھنٹوں پر محیط تھا اِس منصوبے کی تکمیل سے ائرپورٹ تا کورنگی صنعتی ایریا مسافت صرف پندرہ منٹ میں طے ہوجاتی ہے۔ عوام کی راحت رسانی کے لیے نعمت اللہ خان کی یہ کاوش ایک انمول تحفہ ہے، وہ آج ہم میں نہیں لیکن اُن کے بنائے ہوئے درجنوں منصوبے کراچی کے لیے نعمت ہیں، وہ اپنے کام کی بدولت کراچی والوں کو ہمیشہ یاد آتے رہیں گے، ان کے بارے میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ نعمت اللہ خان صاحب ہم تمہیں بھول نہیں سکتے، اللہ تعالیٰ تمہیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔‘‘
ولید نامی نوجوان نے نعمت اللہ خان کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کیا اور اسے قومی صدمہ قرار دیتے ہوئے کہا:
’’نعمت اللہ خان قومی سرمایہ تھے، میرے والد صاحب کہتے ہیں جماعت اسلامی نے ملکی سیاست کو جو ہیرے دیے، خان صاحب اُن میں سے ایک تھے۔ خدا انہیں بلند درجات عطا فرمائے، آمین۔ جہاں تک اُن کی سیاسی زندگی کا تعلق ہے تو وہ کھلی کتاب ہے۔ انہوں نے اسلامی شعائر کے مطابق سیاست کی۔ کرپشن، اقرباپروری اور ذاتی خواہشات سے نفرت اُن کی سیاسی زندگی کا سب اہم اصول تھا۔ وہ غریب پرور، عوام دوست انسان تھے۔ لانڈھی، کورنگی کی سڑکوں، پارکوں اور اسپتالوں سمیت بلدیاتی اداروں کے تحت ہونے والے ترقیاتی کام دیکھ لیں، ایک ایک منصوبہ نعمت اللہ خان کا ہی تحفہ دکھائی دے گا، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں آنے والوں نے ان منصوبوں کو اپنے نام سے منسوب کرلیا۔ ایسا کرنے سے اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کی ناکام کوشش تو کی جاسکتی ہے، لیکن حقائق تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔‘‘
میں سڑک سے گزرنے والے ہر دوسرے شخص سے اُس کی رائے لینا چاہتا تھا، اس لیے کبھی سڑک کے دائیں جانب جاتا تو کبھی بائیں جانب چلنے لگتا، اور کبھی پل کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کو رکنے کا اشارہ کرتا۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے، ہر کوئی تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب دوڑے جارہا تھا، ایسی صورت میں ایک انجانے شخص کی جانب سے کیے جانے والے اشاروں پر کوئی کیوں کر توجہ دیتا! ایسے میں جو بھی میرے قریب آکر رکتا رہا میں اُس کی جانب سے کی جانے والی باتیں انتہائی توجہ کے ساتھ سنتا رہا۔ خیر اس مرتبہ میرے قریب آکر رکنے والے کا نام عادل قریشی تھا۔ نعمت اللہ خان کے انتقال اور کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں اس نے کہا:
’’نعمت اللہ خان صاحب کی نظامت کے دور میں کراچی بھر میں جو ترقی ہوئی وہ اپنی جگہ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن ہمارے کام میں خرابی ہوئی۔ اُن کے زمانے میں گوشت فروخت کرنا انتہائی مشکل تھا، آئے دن ہماری دکانوں پر چھاپے مارے جاتے تھے جس کی وجہ سے ہم ہڑتال کرنے پر مجبور تھے۔ ہم سے کہا جاتا تھا کہ گوشت کی فروخت شہری حکومت کی جانب سے دی جانے والی پرائس لسٹ کے مطابق کی جائے، جبکہ منڈی سے مال مہنگا ملتا تھا، ایسی صورت میں ہم شہری حکومت کی دی گئی پرائس لسٹ پر گوشت کس طرح فروخت کرسکتے تھے! ہمارا کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ اس دور میں گوشت کے پیشے سے منسلک لوگوں کو سرکاری اہلکار پریشان کرتے تھے۔ جہاں تک نعمت اللہ خان صاحب کی ذات کا تعلق ہے وہ انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ اب وہ اچھی جگہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘
ہر شخص کی اپنی اپنی مثبت یا منفی رائے ہوتی ہے، اور میرا کام اس کا احترام کرنا ہے نہ کہ اس کی مخالفت۔ یہی میری عادت ہے اور صحافتی ذمہ داری بھی۔ عادل قریشی گوشت کے کاروبارسے منسلک تھا اس لیے اُسے اپنی پریشانی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس دور میں بازاروں میں فروخت ہونے والی تمام اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کا بہترین نظام قائم تھا، اور اس وقت شہری حکومت کا یہ اقدام عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھا، جبکہ نعمت اللہ خان کی ذات سے متعلق عادل قریشی کی رائے دوسروں سے مختلف نہ تھی۔
مجھے یہاں آئے خاصی دیر ہوچکی تھی۔ قریبی مساجد سے مغرب کی اذان کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ روشنی تاریکی میں بدلنے کے قریب تھی۔ میں اب تک جتنے لوگوں سے مل چکا تھا، ان کی باتوں میں مجھے نعمت اللہ خان مرحوم کے لیے عقیدت و محبت ہی نظر آئی۔ میں عوام کی جانب سے محترم نعمت اللہ خان مرحوم کے بارے میں ادا کیے گئے بہترین کلمات کو سمیٹتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔
میں اُس وقت جس سڑک سے گزر رہا تھا اسی سڑک سے کچھ فاصلے پر میرے ایک دوست کی تولیہ فیکٹری ہے۔ ٹریفک کے شور کی وجہ سے میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا، اور مجھے چائے کی شدید طلب محسوس ہورہی تھی۔ لہٰذا چائے پینے اورکچھ دیر آرام کی غرض سے میں اپنے دوست کی فیکٹری جا پہنچا۔ میں راشد کی فیکٹری ہمیشہ دن میں ہی جاتا ہوں، اس لیے اُس وقت میرا وہاں جانا اس کے لیے حیران کن تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ حیرانی کا اظہار کرتا میں نے تمام باتیں کھول کر اُس کے سامنے رکھ دیں۔ تھوڑی دیر میں چائے، سموسوں اور بسکٹ وغیرہ سے میری خوب خاطر تواضع کی جانے لگی۔ دورانِ گفتگو راشد نے محترم نعمت اللہ خان کی وفات پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اُن نظامت کے دور میں کورنگی کاٹیج انڈسٹری کے ایک وفد کے ساتھ اسے بھی نعمت اللہ خان صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جس دن وہ اُن سے ملاقات کے لیے پہنچے اس روز پہلے سے ہی کچھ لوگ وہاں موجود تھے جو نعمت اللہ خان صاحب سے گلہ شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ نے کراچی کے لیے خاصا کام کیا ہے لیکن یہاں کے عوام اس کا کریڈٹ کسی اور کو دیتے ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کی سہولیات کا بندوبست آپ کررہے ہیں اور لوگ دوسروں کے قصیدے پڑھنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے دن رات کام کرنے سے کیا حاصل؟ ان کی باتیں سن کر نعمت اللہ خان صاحب نے کہا: ’’میرا کام عوامی فلاح و بہبود کے بہترین منصوبے تیار کرکے لوگوں کو مسائل سے نجات دلانا ہے، مجھے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہے، میں لوگوں کی خدمت اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرتا ہوں، میرے نزدیک کسی شخص کی مخالفت کوئی حیثیت نہیں رکھتی، میں خلقِ خدا کی خدمت کو عبادت سمجھتا ہوں۔‘‘
راشد نے بتایا کہ اس وقت نعمت اللہ خان مرحوم کی جانب سے ادا کیے جانے والے جملے سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میرا ایمان اس بات پر مزید پختہ ہوگیا کہ دنیا ایسے ہی فرشتہ صفت انسانوں کی وجہ سے قائم ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔

حصہ