اسلامی معاشرہ

10858

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایاہے اوراس کواپنی شفقت و مہربانی سے یہ فضیلت عطا کی کہ زمین و آسمان اور اس میں موجود ہر شے کو اس کے لیے مسخر کر دیا‘ اس کی خالقیت‘ ربوبیت‘ رحمت اور بے پایاں احسان کا تقاضا ہے کہ اس کو اپنا آقا اور رب جانیں اور مانیں۔ اللہ تعالیٰ محض کلیات کا عالم ہی نہیں وہ جزئیات کا بھی علم رکھتا ہے۔ ’’وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے کیوں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہے اسی کی صفات اور اسی کے نور کا مظہر ہے۔ وہ ہر مخفی سے بڑھ کرمخفی ہے کیوں کہ ظاہری حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار عقل و فہم تک اس کی حقیقت کو نہیں پاسکتے۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ حدید۔ 5-1)
ایسے خالقِ حقیقی کی عبادت اور اطاعت کے لیے زندگی وقف کر دینا ہر مسلمان کا مقصدِ حیات ہونا چاہیے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو نفع نقصان کا مالک سمجھنا شرک ہے اور جس نے شرک کیا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے‘ ایسے ظالموں کا کوئی مدگار نہیں۔
اسلامی معاشرے کی بنیادی خوبی شرک سے پاک معاشرہ ہوتا ہے۔ قرآن ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرتا ہے جہاں رہنے والے ایک دوسرے کے غم گسار اور ہمدرد ہوں‘ جو ایک دوسرے کا احترام کریں۔ اس لیے ’’ناحق قتل‘‘ کو قرآن میں ظلم کہا گیا ہے۔ قرآن اور احادیث کی رو سے صرف پانچ صورتوں میں قتل کا سزاوار ہوتا ہے۔ -1 جب اس نے ناحق کسی کو قتل کیا ہو‘ -2 دین حق کا دشمن ہو‘ دین کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہو اور دشمنی سے باز نہ آتا ہو‘ -3 اسلامی سلطنت کی حدود میں فساد اور بدامنی کا مرتکب ہوا ہو‘ -4 شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو‘ -5 مرتد ہو۔
قرآن اور احادیث میں قتلِ ناحق کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قتل کے بعد مقتول کے ورثا جوشِ انتقام میں بہت بڑھ جاتے ہیں اور ایک قتل کے بدلے کئی جانیں لے لیتے ہیں۔ مقتول کے ورثاء کو قصاص کا حق دیا گیا ہے اور قرآن میں ’’قصاص کو حیات‘‘ کہا گیا ہے۔ مگر یہ حق بے جا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ حکومتِ وقت کو مقتول کے ورثا کی مدد کرنا چاہیے۔
قرآن مجید میں ہر قسم کی بدی و زیادتی کی سزا کا بنیادی اصول بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو وہ شخص اپنا بدلہ لے سکتا ہے مگر صرف اسی کی مثل۔
معاشرتی نظام میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے ایذا رسانی کا خاتمہ ہو سکے اور کسی کو کسی پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اگر ظالموں کو چھوٹ دے دی جائے تو ان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور قتل و غارت گری‘ لوٹ کھسوٹ‘ بدامنی اور فساد کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ کسی شخص کی جان و مال محفوظ نہیں رہتی۔
اسلام نے عدل و انصاف اور انسانی مساوات کو بڑی اہمیت دی ہے۔ معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کی جان و مال محترم ہے۔ رنگ و نسل‘ خاندان‘ مذہب کے لحاظ سے کوئی انسان کسی سے کمتر نہیں۔ آزاد غلام‘ مرد عورت‘ غریب امیر‘ چھوٹا بڑا‘ بادشاہ فقیر بحیثیت انسان سب کے حقوق یکساں ہیں۔ ان میں سے جو بھی جرم کا مرتکب ہو اسے سزا ملنا چاہیے سوائے اس کے کہ مظلوم خود اپنی مرضی سے ظالم کو معاف کردے۔ اسلامی قانون کا تقاضا ہے کہ ’’بدی کا بدلہ ویسی ہی بدی ہے۔‘‘ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے لوگوں کا گرد و پیش ہجوم تھا۔ ایک شخص آپؐ کے اوپر لَد گیا۔ دستِ مبارک میں پتلی سی چھڑی تھی‘ آپؐ نے ا س سے اسے ٹہوکا دیا۔ اتفاق سے اس چھڑی کا سرا اس شخص کے منہ پر لگ گیا اور خراش آگئی۔ آپؐ نے فرمایا ’’مجھ سے انتقام لے لو۔‘‘ آدمی نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے معاف کردیا۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے‘ وہ جن کے اشارے پر جان دینا اور مر جانا سعادت ہے۔ دوسرے کی ادنیٰ سی تکلیف پر بے چین ہو کر بدلے کی درخواست کرتے ہیں۔ اسلام حقیقتاً آپؐ کی سیرت کی روشنی کا نام ہے۔
اسلامی معاشرے میںٍ بات بات پر جھوٹی قسم کھانا‘ چغل خوری کرنا‘ غیبت کرنا معاشرتی برائیاں ہیں۔ سورۃ العلم میں ارشاد ہوا ’’اور تم کہا نہ مانو ہر اس شخص کا جو بہت قسمیں کھانے والا اور ذلیل ہو‘ لوگوں کے عیب بیان کرنے والا‘ چغل خوری کرنے والے ہو ا ور اچھے کاموں سے روکنے والا اور حد سے بڑا گناہ گار ہو۔‘‘
سورۃ حجرات میں غیبت سے کراہیت دلائی گئی کہ ’’تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے‘ تم اس کو ناگوار سمجھتے ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘ بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم دل ہے۔‘‘
عیب جوئی کرنا‘ دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہنا بھی رزائل اخلاق میں سے ہے کیوں کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے اصلاح کے بجائے خرابی ہوگی اور ایسے اشخاص کو اللہ دنیا میں بھی رسوا کرتا ہے اور آخرت میں بھی سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ بدگمانی بظاہر چھوٹی سی برائی ہے مگر اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کیون کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ بدگمانی سے بچنے کا اصول یہ ہے کہ جب تک کسی بات یا کام کو نیکی پر محمول نہ کیا جاسکتا ہو اس وقت تک اسے بدی پر محمول نہ کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ’’اگر تمہارے بھائی کے منہ سے کوئی بات نکلے تو جب تک اس سے اچھے معنی لے سکتے ہو‘ لو۔ محض گمان کی بنا پر برے معنی نہ لو۔‘‘
حسد ایک ایسی برائی ہے جو انسان کو آگ میں جلاتی ہے۔ ’’کسی کے پاس اچھی چیز دیکھ کر جلنا یا اس کی ترقی پر ناخوش ہونا اور اس کے زوال کی خواہش کرنا یا اس کی چیز چھن جانے کی تمنا کرنا حسد ہے۔‘‘
’’حسد ایک ایسا جذبہ ہے جو نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اس لیے حاسد شخص کتنی ہی نیکیاں کرے اس سے اسے فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘
تکبر‘ غرور و نخوت سے قرآن میں منع کیا گیا ہے۔ ’’تکبر سے اپنا منہ لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر اکڑتا ہوا نہ چل بے شک اللہ کسی اترانے والے اور شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
قرآن میں ارشاد ربانی ہوا ’’زمین پر اکڑتا ہوا نہ چل بے شک تو زمین کو ہرگز پھاڑ نہ سکے گا اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کبر و غرور کو ناپسند فرمایا اور ایسی چال کو بھی ناپسند کیا جس سے فخر و غرور کا اظہا رہو۔ انسان ایک بندۂ عاجز ہے اللہ کو عاجزی اور انکساری پسند ہے۔ بڑائی صرف اللہ کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کو منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا‘ جو تکبر کے طور پر کپڑے کو کھینچتے (گھسیٹتے) ہوئے چلے گا اللہ اس کی طرف (قیامت کے دن) نہیں دیکھے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)
حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی بھی علم و ہنر و طاقت میں کتنا ہی بڑھ کیوں نہ جائے اللہ کا عاجز اور کمزور بندہ ہی رہے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے نزدیک سب سے زیادہ ناگوار اور مجھ سے بہت دور قیامت کے دن وہ لوگ ہوں گے جو بکواس کرنے والے‘ اپنی فوقیت جتانے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا ’’میں تم کو جہنمی لوگوں کے متعلق بتائوں‘ ترش رو‘ سنگ دل‘ متکبر لوگ جہنمی ہوں گے۔‘‘
اسلامی معاشرے کی ایک خوبی جھوٹ اور دروغ گوئی سے اجتناب ہے۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت فرمائی گئی ہے اس لیے مومن ہمیشہ جھوٹ سے بچتا ہے۔ اسی لیے ابتدائے اسلام میں غیر مسلم‘ مسلمانوں کی بات کو معتبر مانتے تھے کیوں کہ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ تہمت اور بہتان لگانا بھی رزائل اخلاق میں سے ہے۔ یہ گناہ وہی شخص کرتا ہے جو بزدل اور کمزور ہو اور خود گناہ کرکے دوسرذے کے سر تھوپ دتے ہیں۔ اس کے برعکس بہادر شخص اعتراف کر لیتا ہے اور غلطی کا اعتراف کرنا ایک اخلاقی صفت ہے جو ایک بہادر مومن کی پہچان ہے۔ بدگوئی اللہ کو سخت ناپسند ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کرے گا اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔‘‘ ایک اور حدیث میں آیا ہے ’’اس شخص پر جنت حرام ہے جو اپنی زبان سے گندی اور فحش باتیں نکالتا ہے۔‘‘ اسی لیے مسلمانوں کے اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ کسی کی سخت کلامی اور بدزبانی پر آپے سے باہر نہ ہوا جائے اور متانت سے برداشت کرے۔ حضرت سلمان فارسیؓ صحابی رسول تھے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کو برا بھلا کہا جسے سن کر حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا ’’اگر قیامت کے دن میری بداعمالیوں کا وزن نیکیوں کے مقابلے میں بھاری رہا تو میں اس سے بھی بدتر ہوں جو تم مجھے کہہ رہے ہو‘ لیکن اگر برائیوں کا وزن ہلکا رہا تو مجھے تمہاری بات کی پروا نہیں۔‘‘
کسی مسلمان کا دوسرے پر عیب لگانا‘ برے لقب سے پکارنا‘ نفرت و عداوت کو فروغ دیتا ہے۔ ’’مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔‘‘
بخل اسراف کے درمیان کی راہ اعتدال کی راہ ہے جس کو اپنانے کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔ غیر ضروری اور بے موقع نمائش کرنا اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ ایسا کرنے سے نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہے نہ آخرت میں ثواب ہے بلکہ یہ اللہ کی ناشکری ہے جو شیطان کی صفت ہے اسی لیے اسراف اور تبذیر کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔
اسلام ایک پاک صاف معاشرے کی تشکیل کرتا ہے‘ جہاں نفاق کینہ و کپٹ رکھنا ظاہر میں محبت اور اخلاص دکھانا اور خفیہ طور پر دشمنی رکھنا منافقت کی علامت ہے اور منافقین کے لیے اللہ کے پاس درد ناک عذاب ہے۔ اللہ ان کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔ اسلام میں ہمیشہ منافقین سے نقصان پہنچا ہے اسی طرح تعصب عدل و انصاف اور حق پرستی سے بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ نے ایسے مسلمانوں کے لیے سخت ملامت کی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص تعصب کی طرف بلاتا ہے یا عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اسلام درج بالا برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل کرتا ہے اور ایسا ہی معاشرہ دنیا میں امن و سکون کا ضامن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ان تمام خرابیوں کو دور کرنے کے لیے مسلسل عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی باعمل بنیں‘ عوام کی فلاح اور بہبود کا خیال رکھیں۔ فضول بیان بازی سے پرہیز کریں۔

حصہ