حضرت ابوبکر صدیق ؓ افضل البشر بعد الانبیاء

1465

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
اسلام میں خلافت کا مفہوم، اس کے فرائض اس قدر وسیع اور عالمگیر ہیں کہ تمام دینی اور دنیوی مقاصد کی تکمیل اس ایک لفظ ’’خلافت‘‘ کے تحت آجاتی ہے۔ خلافت دراصل پیغمبرؐ کے کاموں کو قائم اور باقی، اور ہر خارجی آمیزش سے پاک و صاف رکھنا ہے۔ یہ دراصل اقامتِ دین کا ہی منصب ہے جو تمام دنیاوی اور دینی معاملات یعنی اقامت ارکانِ اسلام مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر، جہاد، اقامتِ حدود، وعظ و تبلیغ، دینی تعلیم… غرضیکہ سب اس کے جزئیات میں شامل ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ انہی مقاصد کی تکمیل میں صرف ہوئی، اور آپؐ کے بعد جو لوگ آپؐ کے خلیفہ اور جانشین ہوئے انہوں نے بھی اپنی زندگی کو انہی مقاصد کے لیے وقف کردیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل دیکھے تو ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سب سے بہتر پایا، اس لیے ان کو چن لیا، اور آپؐ کو پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا۔ پھر اپنے دوسرے بندوں کے دل دیکھے تو آپؐ کے اصحابؓ کے دل کو سب سے بہتر پایا، اس لیے ان کو آپؐ کا وزیر بنایا، جو آپؐ کے دین کی حفاظت کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ خلافت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے، وہ یہ ہیں:
-1 خلیفہ مہاجرین اوّلین میں سے ہو۔ صلح حدیبیہ اور دوسرے اہم غزوات مثلاً بدر و تبوک میں شامل ہو، اور سورہ نور کے اترتے وقت موجود رہا ہو۔ چنانچہ مہاجرین اوّلین کے متعلق ارشاد ہوا ’’وہ لوگ جن کو اگر ہم زمین میں جگہ دیں گے تو یہ لوگ نماز قائم کریںگے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
یہ تمام مقاصد خلافت کے زمرے میں شامل ہیں۔ شرکائے صلح حدیبیہ کی نسبت ارشاد ہوا: ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جو لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں، کفار پر سخت ہیں۔‘‘ اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ اس گروہ کے ذریعے سے اعلائے کلمۃ الحق اور کلمۃ اللہ ہوگا جو خلافت کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ جو لوگ سورہ نور کے نزول کے وقت موجود تھے، ان کی نسبت ارشاد ہوا: ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو خلیفہ بنا چکا ہے جو ان سے پہلے تھے، اور ان کے اس دین کو جو ان کے لیے پسند کیا ہے، مضبوط کردے گا۔‘‘ سورہ نور کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مخصوص جماعت سے خدا نے خلافت کا وعدہ کیا ہے اور اس کے ذریعے سے دین کو استحکام حاصل ہوگا۔
شرکائے بدر و تبوک کے فضائل میں اس قسم کی آیات و احادیث موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خلافت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے وہ ان میں موجود تھے:
-2 ان کو جنت کی بشارت دی جا چکی تھی۔
-3 وہ امت کے سب سے اعلیٰ طبقے یعنی صدیقین، شہدا، صالحین اور محدثین میں شامل تھے۔
-4 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس کے ساتھ ایسا ہو جیسا کہ مستحقِ خلافت کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ مثلاً آپؐ نے اس کے استحقاقِ خلافت کا ذکر کیا ہو اور آپؐ نے اپنی زندگی میں اس سے وہ کام لیے ہوں جن کا تعلق نبوت سے ہو۔
-5 خداوند تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وعدے کیے ہوں وہ اس شخص کی ذات سے پورے ہوں۔
-6 اس شخص کا قول حجت ہو۔
اگرچہ مندرجہ بالا اوصاف بہت سے صحابہؓ میں پائے جاتے تھے، مگر ان کا مجموعہ صرف خلفائے راشدین کی ذات تھی۔
ایک حدیث میں آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ کے اوصاف اس طرح بیان فرمائے: ’’میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکرؓ، خدا کے بارے میں سب سے زیادہ بولنے والے عمرؓ، سب سے زیادہ حیا دار عثمانؓ اور سب سے بڑے قاضی علیؓ بن ابی طالب ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’اگر تم لوگ ابوبکرؓ کو امیر بنائو گے تو ان کو دنیا کو حقیر سمجھنے والا اور آخرت کا شائق پائو گے، اگر عمرؓ کو امیر بنائو گے تو ان کو قوی امین پائو گے جو خدا کے بارے میں ملامت کا خوف نہ کریں گے، اور اگر علیؓ کو امیر بنائو گے اور میرا خیال ہے کہ تم لوگ ایسا نہ کرو گے، تو ان کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ پائو گے۔‘‘
آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ سے وہ تمام کام لیے جو منصبِ نبوت سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً حضرت ابوبکرؓ کو متعدد مواقع پر اپنی جگہ امام بنایا اور امیرالحج مقرر فرمایا۔ مسلمانوں کے معاملے میں ہمیشہ مشورے کیے۔ حضرت عمرؓ کو بعض غزوات میں امیر بنایا اور صدقاتِ مدینہ کا عامل مقرر فرمایا۔ حضرت عثمانؓ سے صلح حدیبیہ کے زمانے میں سفیر کا کام لیا، اور حضرت علیؓ کو یمن کا قاضی مقرر کرکے بھیجا۔
ان تمام فضائل کے ساتھ اگر خلفائے راشدین کے کارنامہ ہائے زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ چاروں مکمل تھے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے بھری ہوئی تھی، انہوں نے سوا دو برس کی قلیل مدتِ خلافت میں اپنی مساعیِ جمیلہ کے جو لازوال نقوش چھوڑے ہیں، وہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سرزمینِ عرب ایک بار پھر گمراہی اور ضلالت کا گہوارہ بن چکی تھی، تاریخ طبری میں مؤرخ طبری کا بیان ہے کہ قریش اور ثقیف کے سوا تمام عرب اسلام کی حکومت سے باغی تھا، مدعیانِ نبوت کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ ملک میں شورش برپا کررہی تھیں۔ منکرینِ زکوٰۃ مدینہ منورہ کو لُوٹنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ ایسے حالات میں حضرت ابوبکرؓ نے اپنی روشن ضمیری، سیاست، غیر معمولی استقلال کے باعث شمعِ اسلام کو تمام عرب میں منور کردیا۔ حقیقت یہی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کو جس شخصیت نے دوبارہ زندہ کیا وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ذاتِ گرامی تھی۔ انہوں نے اسلام میں خلافت یا جمہوری حکومت کی بنیاد رکھی۔ خود ان کا انتخاب جمہور کے ذریعے ہوا تھا، اور عملاً جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے سب میں اکابر صحابہؓ سے مشورہ شامل ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صائب الرائے اور تجربہ کار صحابہؓ کو کبھی دارالحکومت سے الگ نہیں ہونے دیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دورِ حکومت بہت مختصر تھا، مگر انہوں نے ملک کے نظم و نسق کو بہترین اصول پر قائم کیا۔ انہوں نے عرب کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کردیا تھا۔ چنانچہ مدینہ، مکہ، طائف، صنعاء، نجران، حضرموت، بحرین اور دومتہ الجندل وغیرہ الگ الگ صوبے تھے۔
عہدیداروں کے انتخاب میں ہمیشہ اُن صحابہ کرامؓ کو اہمیت دی جاتی تھی جو عہدِ نبوت میں عامل یا عہدیدار رہ چکے تھے، اور ان سے انہی مقامات میں کام لیا جہاں وہ پہلے کام کرچکے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ جب کسی کو کوئی ذمہ داری سونپتے تو نہایت مؤثر انداز میں نصیحت فرماتے کہ ’’خلوت و جلوت میں خوفِ خدا رکھو۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ حکام کی نگرانی میں باوجود اپنی نرم مزاجی اور چشم پوشی کے اکثر موقعوں پر سختی سے کام لیتے تھے۔ ذاتی معاملات میں محبت و ملاطنت ان کا خاص مزاج تھا، لیکن انتظامی اور مذہبی معاملات میں کسی سے رو رعایت نہ کرتے۔ چنانچہ حکام سے جب کوئی نازیبا امر سرزد ہوجاتا تو نہایت سختی سے کام لیتے اور سرزنش کرتے، اور سزادینے سے بھی گریز نہ کرتے۔
بحیثیت خلیفہ آپؓ نے قوم کی اخلاقی نگرانی اور رعایا کی جان و مال کی حفاظت کے لیے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو پہرے داری کی خدمت پر مامور فرمایا، اور بعض جرائم کی سزائیں بھی مقرر فرمائیں۔ ملک میں امن وامان اور شاہراہوں کو محفوظ و بے خطر بنانے کے لیے انہوں نے بہت سے اقدامات کیے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی رخنہ اندازی کرتا تو اس کو نہایت عبرت ناک سزا دیتے تھے۔ جب کسی مہم پر فوج کو روانہ کرتے تو سپہ سالار کو نصیحت کرتے ’’تم ایک ایسی قوم کو پائو گے جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کردیا ہے۔ ان کو چھوڑ دینا۔ میں تم کو وصیت کرتا ہوں: -1 کسی عورت، بچے، بوڑھے کو قتل نہ کرنا، -2 پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، -3 کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، -4 بکری اور اونٹ کھانے کے سوا بے کار ذبح نہ کرنا، -5 نخلستان نہ جلانا، -6 مالِ غنیمت میں غبن نہ کرنا، -7 بزدل نہ ہوجانا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ہونے والی ہر بدعت کا خاتمہ کیا۔ آپؓ نے فقہ کے مسائل کی تحقیق اور عوام کی سہولت کے خیال سے افتاء کا ایک محکمہ قائم کیا۔ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اس خدمت پر مامور تھے۔ ان کے سوا اور کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں تھی۔
خلیفۂ اوّل فطرتاً اخلاقِ حمیدہ سے متصف تھے۔ ایامِ جاہلیت میں عفت، پارسائی، رحم دلی، راست بازی اور دیانت داری ان کے مخصوص اوصاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں دیت کی تمام رقم انہی کے پاس جمع ہوتی تھی۔ فیاضی، غریبوں کی دست گیری، قرابت داروں کا خیال، مہمان نوازی، مصیبت زدوں کی اعانت جیسے محاسن اسلام سے پہلے بھی ان میں موجود تھے، اور قبولِ اسلام کے بعد تو ان خوبیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آپؓ درشت اور نامناسب الفاظ سے ہمیشہ گریز فرماتے۔ اگر کبھی کسی کو کوئی سخت جملہ کہہ دیتے تو اُس وقت تک چین نہ پاتے جب تک اُس شخص سے معافی نہ مانگ لیتے۔
جاہ طلبی سے سخت نفرت تھی، خلافت کا بارِ گراں بھی امتِ مسلمہ کو تفریق سے بچانے کے لیے اٹھایا تھا۔ بارہا اپنے خطبوں میں اس بات کا اعلان کیا کہ اگر کوئی اس بار کو اٹھانے کے لیے تیار ہوجائے تو وہ نہایت خوشی سے سبکدوش ہوجائیں۔
دارالخلافہ سے کوئی فوجی مہم روانہ ہوتی تو فوج کے ساتھ ساتھ پیدل جاتے، کوئی سپہ سالار تعظیماً گھوڑے سے اترنا چاہتا تو روک کر فرماتے ’’اس میں کیا مضائقہ ہے اگر میں تھوڑی دور تک راہِ خدا میں اپنا پائوں غبار آلود کرلوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو پائوں راہِ خدا میں غبار آلود ہوتے ہیں خدا ان پر جہنم کی آگ حرام کردیتا ہے۔‘‘
اپنی مدح و ستائش پر شرمندہ ہوتے اور فرماتے ’’مجھے لوگوں نے بہت بڑھا دیا ہے۔ اے خدا! تُو میرا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہے، اور میں اپنی کیفیت ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ خدایا تُو ان کے حسنِ ظن سے مجھے بہتر ثابت کر، میرے گناہوں کو بخش دے اور لوگوں کی بے جا تعریف کا مجھ سے مواخذہ نہ کر۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ خلافتِ اسلامیہ کے وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مردوںمیں اسلام قبول کیا۔ مکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد کفار کے ہاتھوں جو ایذا رسانیاں اٹھائیں ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ جان، مال، رائے، مشورے غرضیکہ ہر حیثیت سے آپؐ کے دست و بازو بنے رہے۔ ہر مشکل وقت میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سینہ سپر رہے اور یارِِ غار، ثانی الاثنین کا لقب پایا۔

حصہ