آزادی

337

سیدہ عنبرین عالم
یہ چولستان ہے، بھارت کا ایک بہت وسیع صحرا۔ بھوکے بچے بغیر کپڑوں کے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں، ان میں سے ہی ایک بچہ ہے بلبیر سنگھ۔ اس کی عمر 11 سال ہے۔ اس کے 13 بہن بھائی ہیں۔ والد کا کچھ عرصے قبل ہی انتقال ہوا۔ بلبیر کی ماں ایک کم عقل عورت تھی جسے پیدا ہونے سے لے کر اب تک صرف حکم ماننا سکھایا گیا تھا… پہلے ماں باپ کا، پھر شوہر کا… اس لیے وہ خود سے نہ کچھ سوچ سکتی تھی، نہ فیصلہ کرسکتی تھی، ظاہر ہے اتنے بڑے خاندان کو سنبھال بھی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے بلبیر کا سب سے بڑا بھائی خاندان کا سرپرست بن گیا۔ 5 بھائی اور 8 بہنوں پر مشتمل اس خاندان میں صرف لڑکوں کو پڑھانے کا رواج تھا، لڑکیاں 6 سال کی عمر سے ہی مائوں کے ساتھ روٹی روزی کی محنت شروع کردیتی تھیں، اور تیرہ، چودہ سال کی عمر تک شادی ہوکر رخصت ہوجاتی تھیں۔ کشن کے ہاتھ میں خاندان کی مہار آئی تو اُس نے فوراً ایک ساتھ چار بہنوں کی رخصتی کردی، جس نے بھی جو رقم دی اُس کو بہن تھمادی، اور اپنی بھی دلہن لے آیا۔ بہت خوش تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے خاندان میں صرف وہی خوش تھا۔ تمام بہن بھائی، بیوی، یہاں تک کہ ماں بھی روز کشن سنگھ کے ہاتھ سے پٹتی تھی۔ بیوی اکثر بھاگ کر ماں باپ کے گھر پناہ لینے جاتی، جو اگلے ہی دن اسے واپس چھوڑ جاتے۔ پھر تو کشن روز بُری طرح بیوی کی پٹائی کرتا۔ ایک دن اُس کی بیوی دنیا چھوڑ گئی، اُسی دن کشن کی بیوی کے ماں باپ نے اپنی دوسری بیٹی کشن سے بیاہ دی۔ وہ آج بھی بہت خوش تھا۔
کشن جب جب خوش ہوتا، کوئی نئی قیامت آتی۔ آج بلبیر نے کشن کو ایک فوجی سے بہت ساری رقم لیتے دیکھا تھا۔ ٹرین تیار کھڑی تھی۔ یہ ریکروٹنگ ایجنٹ تھا، جو ہر سال ٹرین بھر کر شودر بچے جانے کہاں لے جاتا تھا، پھر وہ بچے کبھی واپس نہ آتے۔ کشن نے اپنے تین بھائیوں کو جمع کیا، پانچواں چھوٹا تھا، صرف 5 سال کا۔ ’’میرے بھائیو! دھرتی ماں کو تمہاری ضرورت ہے، تم دیش کے ہیرو بنو گے، نسلیں تمہاری قربانیوں پر فخر کریں گی۔ آج کے بعد تم بھارتی فوج کے جوان کہلائو گے‘‘۔ کشن نے کہا۔ تینوں بھائی خالی ہاتھ، ایک ایک چڈی پہنے ٹرین میں سوار ہوگئے، کشن نے انہیں ماں سے بھی نہیں ملنے دیا۔ جانے کیوں بلبیر کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ٹرین چلتی رہی، یہاں تک کہ تمام مانوس مناظر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ ایک اسٹیشن پر اس کے ڈبے سے 12 لڑکے اتار لیے گئے، اس کے بھائی بھی اُتر گئے۔ ٹرین آگے بڑھتی رہی، بلبیر کے آنسو بہتے رہے۔
کھانے کی تھالیاں ان کے ڈبے میں آگئی تھیں، ہر بچے کو ایک ایک تھالی ملی۔ یہ صحرائی بچے تھے، انہوں نے زندگی میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تھا، ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پالک پنیر، املی والی دال، تلی ہوئی بھنڈیاں، زیرے والے چاول، پاپڑ… کیا نہیں تھا! جتنا کھانا ایک تھالی میں تھا وہ انہیں ایک مہینے میں بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ تمام بچے سکتے کے عالم میں تھے کہ ایک بچے نے کُرکُری بھنڈی چبائی، کراری آواز سے سب ہوش میں آگئے اور کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ پھر کوئی بچہ بھی سفر کے دوران اداس نہیں ہوا۔
وہ ایک بہت بڑی بلڈنگ تھی، اس میں کئی ہال تھے، ہر ہال میں 25 بچوں کی گنجائش تھی۔ 25 بستر، 25 الماریاں جو دو دو فٹ کی تھیں، اور ہر ہال میں 4 ٹوائلٹ، 4 باتھ روم، ہر بچے کا الگ الگ کمبل اور تکیہ۔ بلبیر نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ کبھی اس کا اپنا کمبل ہوگا جو وہ خود اکیلا اوڑھے گا۔ اب وہ بہت خوش تھا۔ یہاں پنکھے بھی لگے ہوئے تھے، اور ہر کمرے میں ایک ٹی وی بھی تھا جو روز شام کو ایک گھنٹہ چلایا جاتا تھا۔ کبھی کارٹون، کبھی بچوں کے ڈرامے، کبھی پوجا پاٹ، کبھی خبریں وغیرہ۔ سب کو دن کا الگ جوڑا ملتا اور رات کے لیے ململ کا کُرتا پاجاما۔ صبح 5 بجے اُٹھا دیا جاتا، 2 گھنٹے پوجا پاٹ اور بھگوت گیتا وغیرہ پڑھائی جاتی، پھر ورزش ہوتی، پھر ناشتا ملتا، ساڑھے 8 بجے سے پڑھائی شروع ہوجاتی، جو ایک بجے تک چلتی، پھر دوپہر کا کھانا کھا کر سب سونے والے کپڑے پہن کر سو جاتے۔ 4 بجے فوجی ٹریننگ شروع ہوتی جو 6 بجے تک چلتی۔ پھر سارے بچے بلڈنگ کے ایک ایک کمرے کی صفائی کرتے، اپنے اپنے کپڑے دھوتے، ڈھیروں سبزیاں بناتے۔ کھانا بھی سب کو مل کر استاد کی نگرانی میں بنانا پڑتا۔ اب وہ شروع دن جیسے لوازمات نہ تھے، بس ایک سالن بنتا رات میں، ساتھ میں چاول روٹی، یہی سالن دوسرے دن دوپہر میں بھی کھایا جاتا۔ رات کے 9 بجے سب بچے بستروں میں چلے جاتے، ایک گھنٹہ ٹی وی چلتا، پھر سب سوجاتے۔ مناسب زندگی چل رہی تھی، اور بہرحال گائوں کی زندگی سے بہتر تھی۔ مار پیٹ بھی بہت کم ہی ہوتی تھی۔ سارے بھارت سے بچے آئے ہوئے تھے اور الگ الگ زبانیں بولتے تھے، مگر سب غریب تھے۔ ان کے لیے اس سے بڑی دنیا کی کوئی خوشی نہیں تھی کہ روز تین ٹائم کھانا اور پورے جسم جتنے کپڑے مل جاتے ہیں۔
بلبیر اپنی کلاس میں بیٹھا تھا، ٹیچر لیکچر دے رہے تھے: ’’بھارت پر مختلف ادوار میں مختلف لوگ حملے کرتے رہے اور ہمیں غلام بناتے رہے، مگر سب سے خطرناک مسلمان ہیں جنہوں نے نہ صرف ہمیں غلام بنایا بلکہ ہندوستان کی بہت بڑی آبادی کو مسلمان بھی بنالیا، یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا، یا تو وہ دوبارہ ہندو بن جائیں یا ہمارا ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں، اگر ان دونوں میں سے ایک کام نہ کرایاگیا تو یہ مسلمان دوبارہ مل کر ہندوستان پر قبضہ کرلیں گے، ابھی ہم آزاد ہیں، بالکل پریوں اور چڑیوں کی طرح آزاد، بھارت آزاد ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
بلبیر کھڑا ہوگیا، ’’آزادی کا کیا مطلب ہے؟ جیسے چولستان میں ہم بغیر کھانے اور بغیر کپڑوں کے آزاد تھے… نہ ٹرانسپورٹ، نہ پانی، نہ دوا، نہ اسپتال، نہ سڑکیں، نہ بجلی… کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اس پر ٹیچر جھنجھلا گیا۔ ’’ارے جبھی تو تمہیں یہاں لائے ہیں، اب تم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہو‘‘۔ ٹیچر نے کہا۔
بلبیر کھکھلا اُٹھا۔ ’’اچھا! ہم آزاد ہیں، تو پھر کیا ہم اس بلڈنگ کے باہر جاسکتے ہیں؟ میرا کشن بھیا بتاتا تھا کہ شہر میں بازار ہوتے ہیں، پارک ہوتے ہیں، کھانے کے ہوٹل ہوتے ہیں۔ کیا ہم آزادی سے وہاں جاسکتے ہیں؟ مجھے فوارہ دیکھنے کا بہت شوق ہے، اور شہر کی جگمگاتی بتیاں بھی‘‘۔ وہ خوش ہوکر بولا۔
ٹیچر نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ’’باہر نہیں جاسکتے، آپ کو ٹریننگ کے بعد سیدھا محاذ پر بھیجیں گے، لیکن بھارت کے اوپر ایک ہزار سال کی مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے، یہی ہماری اصل آزادی ہے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’یہ آزادی نہیں ہے، یہ خوف ہے، آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ مسلمانوں کو سانس لینے کی بھی آزادی دی تو وہ دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کرلیں گے، آپ آزاد نہیں ہیں، ہندوستان کا ہر فیصلہ خوف کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘۔ بلبیر نے کہا۔
’’تم کو کیا یہاں کھانا نہیں ملتا؟ اپنی پوجا کرتے ہو۔ مسلمان آئے تو وہ تم کو مسلمان بنالیں گے‘‘۔ ٹیچر نے کہا۔
’’ہاں کھانا ملتا ہے، مگر مجھے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے، اپنے دوستوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ بلبیر نے کہا۔
ٹیچر نے بلبیر کے چہرے پر ایک تھپڑ رسید کیا۔ ’’یہ ہے آزادی، میں تمہیں جتنا چاہے مار سکتا ہوں، ہم مار مار کر مسلمانوں کے منہ سے بھی ’’جے رام‘‘ کہلوا دیتے ہیں، آخرکار سب مسلمان ہندو ہوجائیں گے‘‘۔ اس نے چلّا کر کہا۔
’’کبھی نہیں ہوں گے، مسلمانوں نے ہندوئوں کو ایسے مسلمان نہیں کیا تھا، البتہ ہندوئوں نے ایسے ہی مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش جاری رکھی تو ایک دو پاکستان اور بن جائیں گے‘‘۔ بلبیر نے کہا اور کلاس سے نکل گیا۔
……٭٭٭……
بلبیر نے پوری بلڈنگ میں بھی گھوم کے دیکھا، سب بچے پوچما (Pochma) دیوی کی پوجا کرتے تھے، جو کہ دلّت لوگوں کی دیوی تھی، ایک بھی کمرے میں اُس نے سیتا دیوی کو نہیں پایا جو کہ برہمنوں کی دیوی تھی۔ باقی سب ٹیچر تو برہمن اور کھشتری تھے، وہ بچوں کو پڑھانے کے سوا کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک اسپورٹس ٹیچر تھے، کُردی لاکھ ان کا نام تھا، وہ بچوں سے ہنسی مذاق بھی کرلیا کرتے تھے۔
’’ہاں جناب بلبیر سنگھ! یہ آپ ’’سنگھ‘‘ کیسے ہوگئے، کیا تم دلّت نہیں ہو، پھر تم یہاں کیسے آگئے؟‘‘ ٹیچر کُردی لاکھ نے ایک دن بلبیر سے پوچھا۔
بلبیر مسکرایا۔ ’’میرے پِِتا کو لگتا تھا کہ اگر ہم کھشتری بن جائیں تو ہمارے دُکھ کچھ کم ہوجائیں گے، اس لیے ہم ’’سنگھ پریوار‘‘ بن گئے۔ یعنی نئے کھشتری۔ مگر صرف نام بدلے، قسمتیں نہیں‘‘، وہ بولا۔
ٹیچر کُردی لاکھ بھی مسکرائے۔ ’’ہم دلتوں کی قسمت کب بدلتی ہے! میں فزکس میں پی ایچ ڈی ہوں، میں نے بہت کوشش کی کہ سرکاری نوکری مل جائے، آخر یہ اسپورٹس ٹیچر کی نوکری ملی‘‘، وہ بولے۔
’’مگر ہم تو ٹریننگ لے کر فوج میں جائیں گے، بڑے افسر بنیں گے‘‘، بلبیر نے اُمید سے کہا۔
ٹیچر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ ’’یہ تمہاری خوش فہمی ہے، تم کبھی بڑے افسر نہیں بنو گے‘‘، وہ بولے۔
’’مگر کل ہسٹری کے ٹیچر تو کہہ رہے تھے کہ دھرتی ماتا کی رکھشا کرنا بڑا کام ہے، ہم اگر اس کام میں مر بھی گئے تو شہید ہوں گے۔ دیش ہمیں یاد رکھے گا، اور ہم سورگ (جنت) میں جائیں گے‘‘۔ بلبیر بولا۔
’’تو تم اُن سے کہتے کہ اپنے بیٹے کو بھیج دو جنت میں۔ یہ سارے دیش سے بھوکے ننگے دلّت بچے کیوں خرید کر لاتے ہیں، جنت میں بھیجنے کے لیے؟ کیا تم نے یہاں دلّت کے سوا کسی کو دیکھا ہے؟ پوری بلڈنگ میں پوچما دیوی کو پوجا جاتا ہے، سیتا کو نہیں‘‘۔ ٹیچر نے کہا۔
’’تو کیا دھرتی ماتا کے لیے جان دینا اچھا کام نہیں ہے؟‘‘ بلبیر نے پوچھا۔
’’یہ جس کو ماتا کہتے ہیں اسی کو بیچ کھاتے ہیں، گائے جب تک دودھ دیتی ہے ان کی ماں رہتی ہے، اس کے لیے یہ کسی کو قتل بھی کرسکتے ہیں، جب دودھ دینا بند کردیتی ہے تو پاکستان اور چائنا کی طرف اسمگل کردیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ پاکستانی اور چائنیز ان گائیوں کی پوجا نہیں کریں گے بلکہ کاٹ کے کھا جائیں گے۔ یہ ہے ان کا خلوص اور محبت‘‘، ٹیچر نے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا، دیش تو ہمارا ہے ناں‘‘، بلبیر نے پوچھا۔
ٹیچر مسکرائے۔ ’’بیٹا! تم جتنے بھی اچھے مارکس لے کر پاس ہو، تمہیں LOC یا کشمیر بھیج دیا جائے گا، یا تم تامل ناڈو میں تعینات کردیے جائو گے، یعنی یہ دلّت انڈین آرمی میں اس لیے بھرتی کیے جاتے ہیں کہ مروانے کے لیے بھیجے جاسکیں۔ انہی کے دم پہ انڈیا ہر پڑوسی دیش سے کھٹ پٹ لگا کر رکھتا ہے، جس دن برہمنوں کے بچے LOC پر بھیجے جائیں گے کشمیر آزاد ہوجائے گا، یہ اپنے بچے نہیں مرنے دیں گے‘‘، انہوں نے کہا۔
’’تو آخر انڈیا نے کیوں اتنے محاذ کھول رکھے ہیں؟ کبھی نیپال سے چھیڑ چھاڑ، کبھی بنگلادیش کی سرحد پر فائرنگ، پاکستان سے روز کی مارا ماری… انڈیا کے اندر بھی اس قدر ظلم ہے کہ آزادی کی کئی تحاریک چل رہی ہیں۔ نہ خود سکون سے رہنا، نہ رہنے دینا‘‘، بلبیر نے پوچھا۔
ٹیچر نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’بیٹا! دنیا کے تقریباً ہر مذہب میں ایک مقصد پایا جاتا ہے، وہ مقصد ہے اپنے مذہب کو تمام دنیا پر رائج کرنا۔ اسلام بھی یہی چاہتا ہے، یہودی بھی، عیسائی بھی… اسی طرح ہندوئوں کی بھی یہی خواہش ہے، فرق یہ ہے کہ دیگر مذاہب یہ کام تبلیغ کے ذریعے کرتے ہیں، یعنی اپنا مذہب دنیا میں پھیلانے کا کام… لیکن ہندو مذہب یہ کام ڈنڈے کے زور پر کرنا چاہتا ہے۔ اب ڈنڈا تو صرف انہی پر چلتا ہے جو کسی نہ کسی طرح قابو آگئے ہوں یا کمزور ہوں۔ اس کے علاوہ چانکیہ ڈاکٹرین نے بھی ان کا دماغ خراب کررکھا ہے، یہ ہندوستان کو ہندو مذہب کی دھرتی سمجھتے ہیں، یہاں ہندو ہر اقلیت پر راج بھی کرنا چاہتے ہیں اور ہندوستان کو بڑے سے بڑا بنانا چاہتے ہیں‘‘، انہوں نے بتایا۔
’’اور ہیں صدیوں کے غلام، اس لیے نہ حکومت کرنی آتی ہے، نہ کوئی صحیح پالیسی بنا سکتے ہیں‘‘، بلبیر بولا۔
’’صحیح کہا! ٹیچر بولے۔ ’’جو انڈیا کی حالت ہے اگر پاکستان میں کبھی کوئی محب وطن حکومت قائم ہوئی ہوتی تو انڈیا میں لسانی، مذہبی اور سیاسی فسادات کو اس قدر ہوا دی جاسکتی تھی کہ انڈیا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ یہاں اتنی غربت ہے کہ کسی کو بھی ہندوستان سے غداری کے لیے راضی کیا جاسکتا ہے۔ مگر پاکستان میں ہمیشہ حکمران طبقہ غیر مخلص ہی رہا۔ ہندوستانی حکومتیں تو پاکستان کو مختلف طریقوں سے غیر مستحکم کرتی رہیں، مگر پاکستان نے کوئی دفاعی اقدام نہیں کیا‘‘، انہوں نے کہا۔
’’پاکستان تو اس قدر غیر مستحکم ہے کہ وہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، وہاں کی پولیس کسی بھی عام شہری کو بلاوجہ مار ڈالتی ہے۔ رائو انوار، سانحہ ساہیوال، ماڈل ٹائون واقعات نے دنیا بھر میں دھوم مچائی، یعنی جو ہم کشمیریوں کے ساتھ کرتے ہیں، پاکستانی ادارے وہی پاکستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں، پھر آخر کشمیری پاکستان میں کیوں جانا چاہتے ہیں؟‘‘۔ بلبیر نے کہا۔ دونوں ٹیچر اور شاگرد بہت دیر تک اس بات پر قہقہے لگاتے رہے۔

حصہ