چمن کومل کر سنوار لیں گے

386

صائمہ عبد الواحد
شعبۂ نشرواشاعت کا کام افراد کا قلم سے رشتہ جوڑے رکھنا اور اس احساس کو جگائے رکھنا ہے کہ لکھاری ہی وہ ہنرمند افراد ہوتے ہیں جو معاشرے میں غلط اور صحیح کی تمیز پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک روزہ تربیتی نشست جو ضلع ناظم آباد وسطی کے تحت اسلامی کتاب گھر میں 8 فروری بروز ہفتہ ہونا قرار پائی تھی، اس کے لیے کافی غور و خوض کے بعد عنوان ’’چمن کو مل کر کر سنوار لیں گے، قلم سے وطن کو نکھار لیں گے‘‘ چنا گیا۔ ایک ایک دن کے انتظار کے بعد بالآخر وہ خوب صورت دن آہی گیا کہ اسلامی کتاب گھر میں ایک روزہ تربیتی نشست منعقد کی گئی۔ میزبانی کے فرائض نگراں شعبۂ نشرواشاعت علاقہ عباسی شہلا خضر صاحبہ کو سونپے گئے جسے انہوں نے بہ خوبی نبھایا۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، سورہ الاعراف کے رکوع نمبر 2 کی تلاوت و ترجمہ بہت ہی خوب صورت انداز میں جویریہ یوسف نے پیش کیا۔ حمدِ باری تعالیٰ تحریم خان، اور نعتِ رسولؐ مقبول ہانیہ یوسف نے پیش کی۔
عصرِ حاضرکے دجالی فتنوں سے نمٹنے کے لیے ’’بحیثیت عورت میری کیا ذمہ داری ہے؟‘‘ لیکچر دینے کے لیے ثمینہ قمر صاحبہ کو مدعو کیا گیا جو مرکزی میڈیا سیل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ثمینہ قمر کا اندازِ بیاں دلوں کو چھو لینے اور ضمیر کو جگا دینے کے لیے کافی تھا۔ کہتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے کائنات اور کائنات کی روح انسان کو حق کے ساتھ پیدا کیا تو پھر ہمیں حق و سچ کا مطلوب معاشرہ نظر کیوں نہیں آتا۔ 57 اسلامی ممالک میں وسائل اور ذخائر کی بہتات ہونے کے باوجود امن اور سکون ناپید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ اور اماں حوّا کی پیدائش کے ساتھ ہی پہلا ازدواجی رشتہ قائم کیا اور دنیا کے پہلے معاشرے کی بنیاد رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو ابلاغ کا طریقہ سکھایا جو حق کی بنیاد پر تھا، مگر اس کے ساتھ ہی شیطان کی گفتگو، جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کی، باطل کی بنیاد پر تھی اور یہیں سے حق و باطل کی جنگ شروع ہوئی۔ حق و باطل کی یہ جنگ ازل سے ابد تک جاری رہے گی۔ کبھی انسان انبیاء کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر یکسر تبدیل ہوجاتا ہے، تو کبھی شیطان کا بندہ بن کر اپنے آپ کو بے توقیر کردیتا ہے۔ مسائل کی جڑ یہ ہے کہ مذہب اور دنیا کو الگ الگ خانے میں رکھا گیا، اور حقوق و فرائض کی جنگ میں الجھایا گیا۔ مزید یہ کہ عورت کو بے توقیر کیا گیا، کبھی غلام اور باندی بناکر، تو کبھی گھر سے باہر معاش کی ذمے داری ڈال کر۔ اس میں بحیثیت مسلمان عورت میری اور آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اصلاح کا کام کرنا، انسانیت کی عزت کرنا، بے ہودہ باتوں سے پرہیز کرنا، حق و صداقت کا عَلم بلند کرنا، ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا، مثبت عمل اپنانا، خبر کی دوڑ میں غلط خبر نشر نہ کرنا، لوگوں کی نفسیات کو سمجھنا اور ان کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنا، سچائی اور دیانت داری سے کام کرنا، جو کام نظم دے اُسے کرنا، اور تعمیر ِ معاشرہ سے پہلے تعمیر ِذات کرنا۔ ثمینہ قمر صاحبہ نے اپنے لیکچر کا اختتام اس شعر سے کیا:۔

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

شہلا خضر نے پھر سے مائیک سنبھال لیا اور معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا، اور ساتھ ہی ناظمہ ضلع ناظم آباد وسطی مسرت جنید صاحبہ کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس پروگرام میں شرکت کرکے ہماری نشست کو شرفِ توقیر بخشا۔
شہلا خضر نے پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے تمہید باندھی: جس طرح بہترین ڈش بنانے کے لیے تمام اجزاء موجود ہوں مگر ہمیں صحیح ترکیب معلوم نہ ہو تو ہم لاجواب پکوان نہیں بنا سکتے، بالکل اسی طرح ہم اپنے نصب العین کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ہمیں لائحہ عمل، پلاننگ اور پلیٹ فارم کا پتا نہ ہو۔ شعبہ نشرواشاعت کے کاموں کو نگران علاقہ اور اُن کی ٹیم کیسے سرانجام دیں، اس حوالے سے بہترین رہنمائی کرنے کے لیے ناظمہ شعبہ نشر و اشاعت ضلع ناظم آباد وسطی زرینہ انصاری نے ایک بہترین ورکشاپ کروائی جس میں انہوں نے شعبے کے چاروں شعبہ جات کا تعارف رکھا، مختلف کاموں کی طرف توجہ دلائی۔ ہفتے میں ایک دن شعبے کے کاموں کے لیے مختص کرنا، ٹیم کے ساتھ نشست کرنا، مؤثر افراد اور رائٹرز سے ملاقات کرنا، نئے افراد کو فوکس کرنا، ادبی نشست اور سوشل میڈیا ورکشاپ رکھنا، کالمز اور اخبار کے اداریے کی کاپی حلقوں میں بھجوانا، مطالعے پر توجہ دلوانا، لائیو کالز کے لیے افراد مختص کرنا، سوشل میڈیا یوزر کے نام اور رائٹرز کے نام کی لسٹ تیار کرنا۔ مختصراً یہ کہ زرینہ انصاری نے بہت بہترین انداز میں شعبے کے کاموں کا تعارف دیا اور انہیں کرنے پر ابھارا۔
نماز اور کھانے کے وقفے کے ساتھ ہی تمام شرکاء نے نمازِ ظہر ادا کی اور مختلف انواع کے کھانوں سے دسترخوان سجا دیا گیا۔ سب نے مل کر کھٹے آلو، کباب، آلو قیمہ، اچار، گاجر کا حلوہ، زردہ اور مزے مزے کے کھانے کھائے اور کھلائے۔ شہلا خضر نے پھر سے مائیک سنبھال لیا اور نگراں شعبہ نشر واشاعت کراچی ثمرین احمد کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس پروگرام میں آکر ہمارے حوصلوں کو بڑھاوا دیا۔
بچوں کو ترانہ، نعت و حمد پڑھنے کے مواقع فراہم کیے گئے، کیونکہ اگلا سیشن تو تھا ہی بچوں کا ’’نسلِ نو کی آبیاری بذریعہ قلم‘‘۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے قلم کا استعمال کیسے کیا جائے اور ایسا کیا لکھا جائے کہ بچے مجبور ہوجائیں پڑھنے پر۔ اور اس سیشن کو کوئی اور نہیں بلکہ صدارتی ایوارڈ یافتہ راحت عائشہ کروا رہی تھیں۔ وہ بہترین انداز میں رائٹرز کو ٹپس دے رہی تھیں کہ لکھنے کے لیے مطالعہ اور مشاہدہ ہونا بہت ضروری ہے، آپ جس ایج گروپ کے لیے لکھ رہے اُسی سطح پر اتر کر لکھنا ہوگا۔ زیادہ نصیحت نہ ہو، کہانی کا مرکزی خیال اور مرکزی کردار بھی ہو، اور کہانی میں تضاد بھی ہو۔ ٹکراؤ کے بعد سلجھاؤ کا پہلو بھی ہونا چاہیے۔ جہاں اختتام ہونا شروع ہو وہیں پیغام بھی جانا چاہیے۔ آخر میں راحت نے کہا کہ بچوں کے لیے لکھنا بہت ضروری ہے، بس لکھتے رہیں اور بھیجتے رہیں۔ عائشہ کا انداز اتنا بہترین تھا کہ تمام حاضرین بچوں کی کہانیوں کی دنیا میں کھو گئے اور بڑی مشکل سے واپس آئے۔
اگلا سیشن سوشل ایپ ٹویٹر کے حوالے سے تھا، جسے دنیا کے بااثر ترین افراد استعمال کرتے ہیں، اور ان سے رسائی ٹویٹر کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں۔ ٹویٹر پر ورکشاپ بعنوان ’’دنیا میرے ایک کلک پر‘‘ کنڈکٹ کروانے کے لیے سیمی نذیر صاحبہ کو بلایا گیا جو نائب نگراں شعبہ نشرواشاعت کراچی ہیں۔ سیمی نذیر نے بتایا کہ ہم اپنی آواز، اپنا پیغام بآسانی دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے پانچ فروری کو جماعت اسلامی نے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی تھی تو اس پر ہم نے جے آئی وومن چین کے نام سے ٹرینڈ چلایا جس سے عام افراد تک ویڈیو اور پیغام پہنچے جوعام دنوں میں کشمیر پر بات نہیں کررہے ہوتے۔ کیونکہ ہم ٹویٹر پرکشمیر کے حوالے سے بات کررہے تھے تو ہمارے فالوورز بھی اس میں شامل ہوگئے۔ سیمی نذیر نے بتایا کہ ہم کیسے ٹویٹر اکاؤنٹ بنا سکتے ہیں، لائیک اور ری ٹویٹ کر سکتے ہیں، ٹیگ کر سکتے ہیں، کمنٹس کرسکتے ہیں… چاہے اردو میں کرلیں، رومن میں یا انگریزی میں۔ جماعت وومن کے پیج کو فالو کریں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی بااثر شخصیات جیسے انصار عباسی صاحب اور اوریا مقبول جان صاحب کو فالو کرلیں، ان کو کومنٹ کریں۔ اکثر ٹی وی اینکرز اپنا لائیو پروگرام کرتے وقت اپنا ٹویٹر آئی ڈی اسکرین پر دکھا رہے ہوتے ہیں، اسی وقت اس پروگرام کے حوالے سے ٹویٹ کریں۔ قصہ مختصر، ٹویٹر دورِ حاضر میں ابلاغ کا تیز ترین ذریعہ ہے اور اس کا استعمال سیکھنا دورِ حاضر کی اشد ضرورت ہے۔ اس ورکشاپ کو سیمی نذیر نے بہترین انداز میں کروایا۔
آخر میں اختتامی کلمات اور دعا کے لیے مجھ ناچیز کو مدعو کیا گیا۔ چند جملوں میں پروگرام کو سمیٹتے ہوئے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس تربیتی نشست کے لیے نکالا، اور ساتھ ہی مشورہ دیا کہ سب نے جو کچھ یہاں سے سیکھا اُسے لے کر اٹھیں اور اپنے دائرۂ کار میں اور اپنے حلقۂ احباب میں اثرانداز ہوں۔ یوں اس خوبصورت نشست کا اختتام ہوا۔ تمام حاضرین نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی اور نہ جانے کتنے قلم اس نشست کے سحر میں گرفتار اپنے قلم کے ساتھ میدانِ عمل میں اتریں گے، ان شاء اللہ۔

حصہ