پیپلزپارٹی کی حکمرانی میں سندھ و کراچی کی تباہی

680

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس یقین کے ساتھ سندھ میں حکومت کررہی ہے کہ یہ اُس کا آخری دور ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں 2008ء سے مسلسل حکومت کررہی ہے، یہ بات جس قدر پی پی پی اور اُس کے رہنمائوں کے لیے خوش قسمتی کا باعث ہے، اسی قدر سندھ اور کراچی کے لیے بدقسمتی کا سبب ہے۔ کراچی کے ادارے اور وسائل لاڑکانہ کی حکومت نے اپنے کنٹرول میں کرکے سندھ کو بھی کھنڈر کردیا۔ اندرونِ سندھ کا پورا حکومتی نظام صرف دفاتر اور وہاں موجود کاغذات تک محدود ہے، جبکہ کراچی میں پیپلز پارٹی والوں نے مفاد پرست سیاست دانوں سے ہاتھ ملاکر یا مل کر سب کچھ ہی خراب کردیا۔ لیکن اس پر نہ پیپلز پارٹی کو شرمندگی ہے اور نہ ہی کراچی کے حق پرستوں کو کوئی پشیمانی۔ نتیجے میں لاڑکانہ سے نئی کراچی تک پریشانی ہی پریشانی ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی حکمرانی کا تیسرا دور گزار رہی ہے۔ اس دوران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ نے سندھ میں تجربات اور مشاہدات کیے، اور کررہے ہیں۔ قائم علی شاہ 2008ء سے پہلے بھی وزیراعلیٰ رہے۔ انہیں ناتجربہ کار حاکم نہیں کہا جاسکتا۔ مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ بھی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے، جبکہ مراد علی شاہ بھی وزیر رہے… اس کے باوجود صوبے کے انتظامی، مالی اور دیگر امور کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ نئے حاکم ہیں، انہیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، یہ لوگ حکومتی نظام سے بھی نابلد ہیں۔ موجودہ 12 سالہ حکومتی دور میں قوم نے اربوں نہیں کھربوں روپے کے اخراجات ہوتے دیکھے، مگر حالات یہ ہیں کہ اسپتالوں کا نظام بہتر ہے نہ صحت کی سہولتیں موجود ہیں۔ سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں کی حالت اور تعلیمی نظام افسوسناک ہے۔ امن و امان کی بحالی اور جرائم کی روک تھام کے معاملات پولیس کے کنٹرول میں نہیں، بلکہ پولیس کو کنٹرول کرنے والوں کے ہاتھ میں ہیں۔
افسوس ناک اور تشویش ناک امر تو یہ ہے کہ لاڑکانہ جو کہ پیپلز پارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے، وہاں سیکڑوں کمسن بچے و بڑے ایڈز جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔ بلدیاتی نظام کی یہ حالت ہے کہ کسی کو صفائی ستھرائی ہی کیا آوارہ کتوں کو پکڑنے یا اُن کا خاتمہ کرنے کا بھی احساس نہیں ہے۔ آوارہ کتے یومیہ بنیادوں پر درجنوں انسانوں کو کاٹ رہے ہیں۔ اندرون سندھ جگہ جگہ گندگی و غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا سندھ کے اندرونی علاقوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ یہ ادارہ تو سندھ کے نام پر صرف کراچی کے وسائل ہڑپ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ حکومت اس ادارے کو چلانے کے بجائے ادارے کے وسائل اپنے لوگوں کو بانٹنے میں مصروف ہے۔ اس فنی نوعیت کے ادارے میں سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں کے من پسند اور ناتجربہ کار افراد کو کھپادیا گیا ہے، اور ان سب کو کراچی میں تعینات کردیا گیا ہے، جیسے سندھ کے علاقوں میں صفائی ستھرائی کی ضرورت ہی نہیں۔
سندھ کی بیٹی، ممتاز اینکر اور آرٹسٹ مہتاب اکبر راشدی بھی سندھ اور کراچی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مسلسل تیسرے دور کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ اور کراچی کی حالت مزید تباہ کرچکی ہے۔ سندھ کی اس ملٹی ٹیلنٹڈ خاتون کا کہنا ہے کہ اگر حکومت صرف تین محکموں تعلیم، صحت اور داخلہ کو آزاد چھوڑ کر انہیں ضرورتوں، قوانین اور ضوابط کے مطابق چلائے تو صورت حال بہتر ہوجائے گی۔
مہتاب اکبر راشدی کی طرح متعدد سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ اسی طرح کی خواہشات رکھتے ہیں، مگر جس معاشرے میں مُردہ افراد کے نام پر سیاست کی جائے اور ووٹ لے کر اُن مرحومین کے ناموں کا بھی پاس نہ رکھا جائے، وہاں کے حالات کوئی نہیں بدل سکتا۔

ایس بی سی اے ، ایس ایس ڈبلیو ایم بی کا قیام کیوں عمل میں لایا گیا ؟

سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی اور سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے قیام کو 5 تا 10 سال ہوگئے مگر یہ ادارے صرف کراچی تک فعال نظر آتے ہیں۔ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کی مادر آرگنائزیشن کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے) ہے۔ متعصب حکمرانوں نے کے بی سی اے کا دائرۂ کار بڑھاکر ایک تیر سے دو شکار کے مترادف کام کیا۔ اسے ایس بی سی اے صرف اس لیے بنایا گیا کہ کراچی سے حاصل ہونے والی اس ادارے کی آمدنی کو سندھ حکومت کے کنٹرول میں کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سندھ اسمبلی سے بل منظور کرواکر ادارے کے نام سے ’کراچی‘ ختم کرکے اس کی جگہ ’سندھ‘ کردیا گیا اور کہا گیا کہ یہ صوبے بھر کی تعمیرات کی کنٹرول اتھارٹی ہوگی۔ حالانکہ اصل مقصد تو صرف یہی نظر آیا کہ کراچی میں خلافِ قانون عمارتوں کی تعمیرات کرواکر یہاں کے نظام کو خراب کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایس بی سی اے کے لیے جس افسر کو ڈی جی مقرر کیا گیا وہ لوٹ مار کرکے ملک سے فرار ہوچکا ہے۔ یہ وہ افسر تھا جسے ’’کاکا‘‘ کہا جاتا تھا۔ حکمرانوں کا منظور نظر ’’کاکا‘ تھا تو ایس بی سی اے کا ڈائریکٹر جنرل، مگر وزیراعلیٰ کا پروٹوکول انجوائے کرتا تھا، کیونکہ وہ واحد افسر تھا جو اہم سیاسی شخصیت کے بیڈروم تک رسائی رکھتا تھا۔ کاکا کے دورِ میں جو تعمیرات کرائی گئیں یا ہوئیں اُن میں سے بیشتر کو سپریم کورٹ غیرقانونی قرار دے چکی ہے۔ مگر کاکا کے نوازے گئے لوگ اب بھی ایس بی سی اے میں موقع کا انتظار کررہے ہیں۔ اس اہم ادارے میں ان دنوں نیک سیرت اور ایمان دار ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد آشکار داور تو موجود ہیں، مگر اس اکلوتے ایمان دار اور نیک سیرت افسر کے پاس بھی وہ اختیار نہیں ہے جو اس ادارے کا قبلہ درست کرسکے۔
اب بات کرتے ہیں سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی۔ یہ ادارہ صفائی ستھرائی کے نام پر سب سے زیادہ بجٹ رکھنے اور خرچ کرنے والا ادارہ ہے۔ سنا ہے کہ اس ادارے کے ایم ڈی آصف اکرام اصول پسند اور قدرے ایمان دار ہیں، مگر حکمران انہیں آزادانہ اور ایمان دارانہ کام نہ کرنے دیں تو وہ کیا کرسکیں گے! آصف اکرام نے ایم ڈی کا چارج لیتے ہی اس ادارے کو عالمی معیار کے مطابق بنانے اور چلانے کی کوشش کی تھی مگر حکمرانوں نے سندھ کے دیگر محکموں سے غیر فنی اور مبینہ طور پر نااہل افسران اور عملے کو یہاں کھپا دیا۔ ایسی صورت میں کون کیا کرسکتا ہے، اس کا اندازہ سبھی کو ہے۔ صوبے کے مختلف اداروں اور محکموں کی تباہ حالی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی ذمے دار موجودہ صوبائی حکومت اور اس سے منسلک شخصیات نظر آتی ہے۔

حصہ