غربت ایک سنگین مسئلہ

879

مریم صدیقی
غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے کئی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس سے دیگر کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جرائم، جہالت، معاشرتی و اقتصادی پسماندگی ان کی جڑ غربت ہی ہے۔ غربت پر قابو پائے بغیر کسی بھی معاشرے کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔
غربت زدہ معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ بچے ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات اور والدین کی عدم توجہ کے باعث شخصیت سازی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کا اثر نہ صرف ان کے آنے والے کل پر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ اور آنے والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔آپ نے اکثر اپنے ارد گرد ایسے کئی چہرے دیکھے ہوں گے جن کی آنکھوں میں یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ہم سے امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے؟ وہ سراپا سوال چہرے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ان کی آنکھیں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ اپنے گھر کے بڑے کب تک گیراجوں اور ہوٹلوں کے چھوٹے بن کر زندگی گزاریں گے؟ انہیں کیوں بے فکر بچپن، سکون کی نیند اور کھیلنے کودنے کے مواقع میسر نہیں؟ان کی آنکھیں ہر راہ گیر سے یہ سوال کرتی ہیں کے ان میں اور ان شان دار گاڑیوں میں بیٹھے بچوں میں کیا فرق ہے؟ ان کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب اور ہمارے ہاتھوں میں مزدوری کے اوزار کیوں ہیں؟ ہم بھی تو بچے ہیں، ہمارا بھی تو بچپن ہے۔ ہم بھی خواب دیکھنے والی آنکھیں اور خواہشات کرنے والا دل رکھتے ہیں پھر اس معاشرے میں ہمارا کوئی پرسان حال کیوں نہیں۔
ہمارے معاشرے میں غربت و امارت کی اس تقسیم نے کئی معصوموں کا بچپن چھین لیا ہے۔ ہمیں روز اپنے ارد گرد کبھی کسی فٹ پاتھ پر تو کبھی کسی ہوٹل یا شاہراہ پر ننھے ننھے معصوم مزدور دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کچرا چنتے نظر آتے ہیں تو کبھی رزق حلال کی تلاش انہیں ادھ موا کردیتی ہے۔ ہماری بے حسی ہے کے روز ایسے کئی مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ ہم چائلڈ لیبر کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے کیوں کہ در پردہ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ بچے ان ننھی کلیوں اور کونپلوں کی مانند ہوتے ہیں جومستقبل میں کسی بھی ملک و قوم کے لیے شجر سایہ دار بنتے ہیں۔ یہی ہمارے مستقبل کا معمار ہیں جن سے ہم نے ان کا آج چھین لیا ہے۔ یہی بچے کل کو حقوق کی عدم دست یابی و استحصال کے سبب غلط راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کے ہم ہماری آنے والی نسلوں کوغربت و جہل زد ہ معاشرہ وراثت میں سونپ کر جا رہے ہیں۔ یہ بچے جہاں رزق، تعلیم و صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں وہیں جبری مشقت، اغواء برائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے مظالم کا بھی شکار ہیں۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے آئین میں بھی بچوں کے حقوق کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان کی ضروریات کی طرح ان کے تحفظات کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اغوا کرکے ان کے جسمانی اعضاء فروخت کیے جاتے ہیں لیکن اہل اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس اگر کسی امیر شخص کا بچہ اغوا ہوجائے تو اس کی بازیابی کے لیے تمام ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ ان بچوں کے حقوق کا استحصال صرف اس لیے کہ ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے جہاں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہ طبقہ حکمرانوں کی ترجیحات کا کبھی حصہ نہیں رہا۔
یہی بچے جو آنے والے کل میں اس ملک و قوم کا مستقبل ہیں طبی سہولیات کی عدم فراہمی اورخوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کے ریگستانی علاقے تھرپارکر اور چولستان میں خوراک کی کمی کے باعث سینکڑوں بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔دیگر بنیادی سہولیات کی طرح اس طبقے میں شرح خواندگی بھی صفر ہے۔ صحت و خوراک کے ساتھ تعلیم کا حصول بھی ان بچوں کی پہنچ سے دور ہے۔ غریب والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کے باعث انہیں تعلیم دلوانے کا تردد نہیں کرتے بلکہ انہیں چھوٹی عمروں سے ہی محنت و مشقت کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔
اس طبقے میں بچوں سے محنت مشقت اور مزدوری کروانا معمول کی بات ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ڈھائی کڑوڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس کے برعکس امراء و وزراء کے بچوں کو پر تعیش زندگی بسر کرنے کے لیے نہ صرف ہر آسائش میسر ہے بلکہ جدیدو معیار ی تعلیم کی فراہمی کے لیے باقاعدہ غیر ملکی تربیت یافتہ اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے۔ یہ معاشرتی سطح پر کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے۔
یہ بچے تعلیم، خوراک، کھیل کود، تفریح ہر شے سے محروم کردیے گئے ہیں۔ غریب ہونا گویا گناہ عظیم ہوگیا ہے۔ وسائل کی کمی کے سبب یہ پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن سماجی و معاشرتی رویے انہیں جنسی، جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ غربت سے بر سر پیکار ہونے کے ساتھ ساتھ جنسی و نفسیاتی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ان بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت، صحت و خوراک کی فراہمی ان کے حقوق کا تحفظ ریاستی فرائض میں شامل ہے۔ امراء کے بچوں کی طرح پر آسائش زندگی نہ سہی لیکن بنیادی حقوق سے آراستہ پر سکون زندگی گزارنا ان کا حق ہے آخر یہ بھی تو بچے ہیں ۔

حصہ