آہ۔۔۔۔۔ کشمیر۔۔۔۔

303

افروز عنایت
مسئلہ کشمیر پر بہت دن سے کچھ لکھنا چاہ رہی تھی لیکن میرا قلم… قلم اٹھاتی تو ہاتھ کانپ جاتے اور قلم لرز جاتا… پھر قلم اور ڈائری رکھ دیتی۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ آج ہمت کرکے پھر قلم اٹھایا کہ کچھ تو لکھوں… میرا کشمیر جو جل رہا ہے، اس کی آہ وبکا دور دور تک سنائی دے رہی ہے، اس کی فضائوں سے دھواں دور سے ہی نظر آرہا ہے۔ نوجوانوں کا لہو سڑکوں پر بہہ رہا ہے اور عورتیں… آہ… اُن کی سسکیوں سے فضائیں گونج رہی ہیں۔ کیا دنیا کے ممالک بے درد ہیں؟ اس کی لرزہ خیز داستانوں کی گونج اُن کے درو دیوار تک نہیں پہنچ رہی؟ اور امتِ مسلمہ… وہ کیوں خاموش ہے؟ دینِ اسلام نے تو ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ایک مسلمان کی تکلیف کو دوسرا مسلمان محسوس کرے اور اس کی مدد کے لیے آگے بڑھے… یہاں تو پورا کشمیر جل رہا ہے، درد سے تڑپ رہا ہے… کیا اپنے ذاتی مفادات کے تحت امتِ مسلمہ خاموش ہے! کشمیر کا درد، اس کی آہ اُن کے دلوں کو کیوں نہیں جھنجھوڑ رہی؟ کشمیری مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے سروں سے چادریں چھینی جارہی ہیں، یہ بات امتِ مسلمہ کو کیوں نہیں تڑپا رہی؟ محمد بن قاسم تو ایک عورت کی آہ و بکا پر چل پڑے تھے… یہ تو لاکھوں مائوں بیٹیوں کا معاملہ ہے۔
کشمیر کی بیٹیوں کی لرزتی آوازیں مجھے بہت پیچھے کی طرف لے گئیں۔
کالج میں میرا پہلا سال تھا… نیا ماحول، نئے لوگ… سبھی لڑکیاں احتیاط برت رہی تھیں۔ سال کے تقریباً درمیان میں گیارہویں جماعت میں ایک نئی لڑکی کا اضافہ ہوا… خاموش خاموش، سب سے الگ تھلگ اُس نے دنیا بسائی ہوئی تھی۔ اُس کا نیا داخلہ تھا اس لیے ہم یہ خاموشی اور احتیاط معمول کی بات سمجھ رہے تھے، اور خیال تھا کہ کچھ ہی عرصے میں وہ ہم سب سے گھل مل جائے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ وہ فارغ پیریڈ میں بھی بالکل کونے میں کسی الگ تھلگ کرسی پر بیٹھی ہوتی۔ اُس کی اداس آنکھیں بہت سی داستانیں بیان کررہی ہوتیں، لیکن ہماری وہ عمریں نہ تھیں کہ ہم ان داستانوں کو پڑھ پاتے۔ لیکن ایک دن وہ کتاب خود ہی ہمارے سامنے کھل کر آگئی، اُس کی خاموشی اور اداس آنکھوں میں بسی کہانی نے ہم سب پر لرزہ طاری کردیا، اور بے اختیار ہم سب کی زبانوں سے یہ جملہ نکلا ’’اللہ ہمارے اس وطنِ عزیز کو تاقیامت سلامت رکھے، اور عزتوں پر کوئی آنچ نہ آئے۔‘‘
نام اُس کارقیہ تھا۔ اس نے چند لفظوں میں اپنی آپ بیتی بیان کی: ۔
’’میرے والد مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں کسی محکمے میں ملازم تھے۔ سب کچھ اچھا تھا معمول کے مطابق… مل جل کر ہنسی خوشی زندگی گزر رہی تھی کہ ہندوئوں کی مکارانہ چالوں کی وجہ سے بنگالیوں کے رویوں میں بھونچال آگیا… وہ جو کل تک اپنے تھے، غیر ہوگئے… اور وہ کچھ ہوگیا جس کا تصور بھی انسان کو لرزا دے۔ مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوگئیں… خواتین کے سامنے اُن کے جگر گوشوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا گیا۔ اتنا کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے کہ اب تو ہمارے آنسو بھی خشک ہوگئے ہیں، دل ہمارے پتھر جیسے ہوگئے ہیں۔ کیا خوشی، کیا غم… اب کوئی تاثر ہمارے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ کون دوست ہے کون دشمن، میرے لیے اب اس چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘
رقیہ کی زبانی اُس کی زندگی اور آپ بیتی کے یہ چند جملے تھے جس نے ہم سب کو افسردہ اور حیران کردیا… اور آج رقیہ جیسی نہ جانے کتنی ہستیاں ان مراحل سے گزر رہی ہیں۔ رب العزت امتِ مسلمہ میں غیرت اجاگر کر، کہ وہ ان سسکیوں کو سن سکے۔ صرف کشمیر ہی نہیں دنیا کے کئی خطوں میں مسلمانوں پر ایسا ہی ظلم و تشدد ہورہا ہے، اور دن بدن اس میں اضافہ لمحہِ فکریہ ہے۔ امتِ مسلمہ کا بیدار ہونا انتہائی ضروری امر ہے۔
بچپن میں اماں سے ایک کہانی سنی تھی کہ ایک خودغرض انسان کے پڑوسی کے گھر میں آگ لگ گئی۔ اسے معلوم ہوا تو بیوی بچوں سے کہا: ’’ہمارا کیا جارہا ہے، ہم اپنی نیند اور آرام کیوں خراب کریں! جن کا گھر ہے وہی اس آگ کو بجھائیں‘‘۔ یہ کہا اور جاکر سو گیا۔ رات میں وہ آگ مزید پھیل کر اُس کے گھر تک آگئی۔ اس کی آنکھ تب کھلی جب اُس کا اپنا گھر بھی آدھے سے زیادہ جل گیا۔ آج امتِ مسلمہ کا بھی یہی حال ہے۔ اپنے ذاتی مفادات اور مصلحتوں کے تحت خاموش تماشائی بن کر ان مظلوموں کی بے بسی کو دیکھ رہی ہے، بلکہ ظالموں کو تمغوں اور اعزازات سے نوازا جارہا ہے۔ مسلمان تو آپس میں ایک تسبیح میں پروئے ہوئے دانوں کی طرح ہیں، ان کا اکٹھے جڑے رہنا ہی ان کی طاقت و عزت کی دلیل ہے۔ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے چاہے کتنے ہی خوبصورت ہوں، جدا جدا ہوکر ان کی وہ اہمیت نہیں رہتی جو اس تسبیح میں پروئے ہونے کی صورت میں تھی۔ اس تشویش ناک صورتِ حال میں ایک مثبت چیز جو مجھے اپنے دیس میں نظرآتی ہے ، وہ ہے سیاسی وغیر سیاسی جماعتوں کا کشمیر کے مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر جمع اور متفق ہونا جس کی نہ صرف تائید بلکہ تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہر معاملے میں ہم پاکستانیوں میں یہ چیز نظر آئے۔ الحمدللہ ہماری افواج دنیا کی مانی ہوئی بہادر، غیرت مند افواج ہیں، ہمیں ان پر ناز ہے، ان کے حوصلے بلند ہیں۔ رب العزت نصرت و کامرانی دینے والا ہے، وہ انہیں ہر محاذ پر سربلند کرے گا، اِن شاء اللہ۔ میں ان سطور کے ذریعے نہ صرف اپنی افواج اور کشمیر کے لیے دعاگو ہوں، بلکہ ہم سب کی یہ بھی دعا ہے کہ عالم اسلام کو بھی رب العزت سرخرو کرے۔

حصہ