خواب سے حقیقت تک

378

فرزانہ محمود
راشدہ بیگم نے عظمیٰ کو بہت آوازیں دیں مگر بے سود رہیں۔ وہ اٹھیں اور عظمیٰ کو ڈھونڈتے دوسرے کمرے میں آگئیں۔ عظمیٰ کی انگلیوں اور پیروں کی جنبش بتا رہی تھی کہ وہ یقینا کانوں میں گانے گھول رہی ہے۔
’’بہری ہو کیا؟ کانوں میں ڈھکن لگے ہیں؟‘‘ راشدہ بیگم نے غصے سے ہینڈز فری کھینچا۔
’’کیا ہوا امی…؟ لگتا ہے میرے ہینڈز فری لگاتے ہی پاک، بھارت جنگ چھڑ گئی!‘‘ عظمیٰ دوبدو بولی۔
راشدہ بیگم مزید الجھیں ’’سر پر بندھا دوپٹہ دکھائی نہیں دیتا تم کو…؟‘‘ وہ رکیں اور عظمیٰ کو چائے بنانے کا کہہ کر پھر سے لیٹ گئیں۔
عظمیٰ نے منہ بسورتے باورچی خانے کا رُخ کرلیا۔
…٭…
عظمیٰ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی، اسی لیے ہر بات بغیر کہے پوری کردی جاتی۔ بے جا لاڈ پیار کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے مزاج میں ضد اور ہٹ دھرمی در آئی تھی۔ اماں ابا کی امیدوں کے برعکس وہ دھکے سے ہی گریجویشن کے فائنل ایئر میں تھی اور اب گھر ہی میں سارا دن گشت لگانے اور ریڈیو سننے میں شب و روز بیت رہے تھے۔ گھرداری سے ویسے بھی اسے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اماں کی تھوڑی سی سختی کے سامنے ابا کا لاڈ ڈھال ثابت ہوتا۔ آج بھی راشدہ بیگم طبیعت کی ناسازی کے باعث عظمیٰ کو چائے بنانے کا کہہ کر پچھتائیں جب گانے سننے میں مصروف عظمیٰ نے گرم چائے مگ میں انڈیلتے ہوئے اپنے پیر پر گرا ڈالی۔ پائوں پر بنا آبلہ اس کے پھوہڑ پن کی دُہائی دے رہا تھا۔ عظمیٰ کو موقع ملا اور چیخ چیخ کر رونے لگی۔
اتنے میں بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔
’’آگئے تمہارے حمایتی… اب اور اونچا رو، پتا تو چلے کتنے ظلم کیے ہیں میں نے…‘‘ یہ کہتے ہوئے راشدہ بیگم نے بیٹی کو کرسی پر بٹھایا اور دروازہ کھولنے لگیں۔
داخل ہوتے ہی عظمیٰ کے والد اُس کی اونچی آواز سن کر یکدم اس کی طرف بھاگے… ’’کیا ہوا میری بیٹی کو، تم نے مارا ہے؟ بھلا جوان بچی پر بھی کوئی ہاتھ اٹھاتا ہے!‘‘ ابا مسلسل بولتے چلے گئے۔ عظمیٰ نے فوراً موقع کا فائدہ اٹھایا اور روتے ہوئے ابو کو سارا ماجرا بیان کردیا۔
’’میں نے منع کیا تھا کہ بچی سے کام مت کروایا کرو۔‘‘ ابو سیخ پا ہوئے۔
راشدہ بیگم اپنی صفائی میں بولیں ’’آبلہ ہی ہے، ٹھیک ہوجائے گا، آپ دونوں نے تو طوفان اٹھا لیا ہے۔‘‘
اسی اثناء میں عظمیٰ نے بڑھ کر زبان چلائی۔ راشدہ بیگم نے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ عظمیٰ کے والد سامنے آگئے ’’یہاں تو میدانِ جنگ ہی بنا ہوا ہے، باہر سے بندہ تھکا آیا ہے، یہ نہیں کہ اُسے پوچھ لیا جائے۔‘‘ ابا غصے سے کہتے عظمیٰ کو کمرے میں لے گئے۔
…٭…
راشدہ کی کسی بھی بات کی ویسے بھی کوئی اہمیت نہ تھی، یہ اس گھر کا معمول تھا۔ ان کی بات تو کوئی نہ سنتا، نہ ہی مانتا تھا، مگر اس لڑائی کے بعد عظمیٰ کو جیسے کھلی چھوٹ مل گئی۔ راشدہ بیگم اب کسی کام کا نہ کہتی تھیں، نہ ہی عظمیٰ کسی معاملے میں دلچسپی لیتی تھی۔ وقت سرکا… وہ مزید خودسر ہوگئی، اماں کو اکثر نظرانداز کرنے لگی تھی۔ ابا سونے کا نوالہ تو کھلا رہے تھے مگر شیر کی نگاہ رکھنا یاد نہیں رہا۔ اماں بالکل غافل نہ تھیں، یہی وجہ تھی کہ عظمیٰ کے رویّے میں تبدیلی انہوں نے محسوس کرلی تھی۔ راشدہ بیگم نے کئی دفعہ شوہر کے گوش گزار کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن لاحاصل رہا۔ عظمیٰ سارا دن فون پر مصروف رہتی۔ اماں جان چکی تھیں کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ راشدہ بیگم نے اب ابا کو کھلے الفاظ میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا جسے ابا ہنسی میں ٹال گئے۔
’’میری بیٹی ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتی‘‘، فخریہ انداز میں کہتے وہ پھر سے ٹی وی کے تبصرے سننے میں مگن ہوگئے۔ مگر ماں تو اولاد کی ایک ایک حرکت سے بہ خوبی واقف ہوتی ہے۔ راشدہ بیگم کی بائیں آنکھ بار بار پھڑکنے لگی تھی۔
موسم بیتا… عظمیٰ کے لیے ایک رشتہ آیا تو اماں نے سکون کا سانس لیا۔ مناسب سمجھ کر اماں ابا نے ہامی بھر لی اور رشتہ طے پا گیا۔ جب عظمیٰ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اچانک ہتھے سے اکھڑ گئی۔ اس بات پر اب روز ماں بیٹی میں بحث ہوتی۔ ایک دن بحث جھگڑے میں بدلی۔ عظمیٰ لحاظ کی سب حدیں پار کررہی تھی۔ اسی لمحے ابا طبیعت کی ناسازی کے باعث جلد آفس سے گھر آگئے۔ دروازے پر پہنچتے ہی گھر کی دیوار عبور کرتی عظمیٰ کی اونچی آوازیں ان کو دھچکا دینے کے لیے کافی تھیں۔ وہ یہ سہہ نہ سکے اور وہیں گر کر بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو اسپتال میں تھے۔ کچھ روز میں طبیعت سنبھلنے پر گھر آئے۔ ان دنوں میں اماں بھی اپنے دل کی ساری بھڑاس عظمیٰ پر نکال چکی تھیں اور عظمیٰ کو اس ہارٹ اٹیک کا ذمہ داری ٹھیرا دیا تھا۔ عظمیٰ بھی ابا کی حالت دیکھ کر سہم گئی۔ اس نے چپ رہنے میں عافیت جانی۔ کچھ دن بعد حالات معمول پر آنے لگے اور شادی کی تیاریاں زور شور سے شروع ہوگئیں۔ عظمیٰ اب بھی اس شادی پر راضی نہ تھی لیکن اُس میں ابا کو منع کرنے کی ہمت نہ تھی۔
شادی قریب آرہی تھی، اس کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ اس کی سہیلیاں بارات کے روز پارلر لے جانے کی غرض سے صبح سے ہی اس کے گھر آچکی تھیں۔ عظمیٰ پارلر جانے کے لیے تیار تھی، وہ دوستوں کے ہمراہ پارلر کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ کچھ آگے جاکر ایک گاڑی عظمیٰ کے انتظار میں پہلے سے ہی کھڑی تھی جس میں صرف عظمیٰ بیٹھ کر چلی گئی اور اس کی سہیلیوں نے اپنے گھروں کی راہ لی۔
کچھ گھنٹوں میں مہمان آچکے تھے، رشتے دار اور محلے کی خواتین عظمیٰ کے انتظار میں تھیں، مگر پتا چلا کہ کسی کو نہیں معلوم وہ کون سے پارلر گئی ہے۔ راشدہ بیگم کی بے چینی و اضطراب بڑھتا جارہا تھا، وہ بھانپ گئی تھیں کہ ضرور کچھ برا ہونے والا ہے۔ بارات آچکی تھی لیکن دلہن کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ ایک رنگ آتا دوسرا جاتا۔ پریشان ہوکر انہوں نے عظمیٰ کے والد کو بتایا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کمرہ بند کرکے اماں زار و قطار روئیں تو لوگوں نے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ عظمیٰ کے گھر سے بھاگنے کی بھنک بارات کو پڑ چکی تھی، اب وقت ہاتھ سے پھسل چکا تھا اور ذلت عظمیٰ کے گھر کا رُخ کرچکی تھی۔ یہ دکھ عظمیٰ کے ابا برداشت نہ کرسکے اور جان سے گزر گئے۔ راشدہ بیگم کو دہرے صدمے پہنچے اور وہ ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ چند روز میں ان کا گھر خالی کروا کر راشدہ بیگم کو ایدھی ہومز بھیج دیا گیا۔

حصہ