بچہ آپ کی بھرپور توجہ چاہتا ہے

968

مہرالنساء
کہتے ہیں کہ ایک شہنشاہ کو ایک مرتبہ خیال آیا کہ اس کے پاس دنیا جہاں کا مال و اسباب جمع ہے، بے پناہ اختیارات حاصل ہیں، نوکروں کا شمار نہیں، کیا ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے وہ ایک معصوم بچے کی ہر خواہش پوری کرسکتا ہے؟ یہ سوچتے ہی اس نے ایک بچہ طلب کیا اور اس کے آگے لعل و جواہر کے ڈھیر لگا دیے، انواع و اقسام کی کھانے پینے کی چیزیں رکھ دیں۔ بچہ خوشی خوشی کھانے پینے اور کھیلنے لگا۔ کچھ دیر بعد اسے منہ بسورتے ہوئے پایا گیا۔ شہنشاہ نے پوچھا کہ کیا چاہیے؟ بچے نے کہا: مٹکا۔ مٹکا حاضر کیا گیا اور بچہ اس سے کھیلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ پھر رونے لگا۔ پوچھا گیا کہ اب کیا چاہتے ہو؟ جواب ملا: ہاتھی۔ فوراً فیل خانے سے بچے کے لیے ایک سدھایا ہوا ہاتھی لایا گیا۔ بچہ خوشی خوشی ہاتھی سے کھیلنے لگا، لیکن چند منٹ گزرے تھے کہ وہ پھر منہ بسورنے لگا۔ پوچھا گیا: اب کیا چاہیے؟ بچے نے کہا: مجھے ہاتھی کو اس مٹکے میں ڈالنا ہے۔ شہنشاہ سمیت دربار کے سارے خدام سٹپٹا گئے۔ نوکروں کی فوجِ ظفر موج بچے کی خواہش کے تسلسل سے عاجز آگئی۔ بہرحال یہ تو معصوم خواہشوں کا معاملہ تھا، بچہ اور بھی کئی طریقوں سے اپنے بڑوں کو زچ کرسکتا ہے۔ اور ایسے گھر جہاں بچے ہوتے ہیں، وہاں اس طرح کے مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ تمام تر محبتوں کے باوجود والدین کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں؟ لالچ، ترغیب، ڈانٹ ڈپٹ، چیخ و پکار کسی چیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایسی صورتِ حال کو جنم دینے والے عوامل میں وقتی ضدیں بھی ہوسکتی ہیں، بے تحاشا اچھل کود، توڑ پھوڑ اور غلط عادتیں بھی۔ ایسے معاملات میں اکثر بڑوں کی سوجھ بوجھ جواب دے جاتی ہے۔
بدلتے تقاضوں نے زندگی کے ہر پہلو پراثرات ڈالے ہیں، بچے بھی ان سے مبرا نہیں ہیں۔ ایک سادہ دیہی معاشرے اور کھلے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کو نسبتاً زیادہ آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک عام شہری گھرانے میں پلنے والے بچے کو اگرچہ بہت سی آسائشات حاصل ہوتی ہیں مگر اُس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے والے عوامل کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسے گھروں میں جہاں ہر چند قدم پر دیوار حائل ہوتی ہے، ہر دوسری چیز کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یا گھر کے سامنے مصروف سڑک ہوتی ہے تو ہر وقت حادثات کا ڈر لگا رہتا ہے، گھر میں بجلی کے آلات بھی خوف کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسے گردوپیش میں بچوں کو دن میں ہزار بار ’’مت کرو‘‘ کے الفاظ سننے پڑتے ہیں۔
اسی طرح جدید معاشرے میں والدین کو بچوں کے مستقبل کے تقاضے بھی دامن گیر رہتے ہیں۔ فلاں کا بچہ ڈاکٹر بن رہا ہے، میرا بیٹا بھی ڈاکٹر بنے گا۔ مقابلہ بازی یا مسابقت کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو بہتر سے بہتر اور اچھے سے اچھے اسکول میں داخل کرائیں، یعنی وہ بچے کو آنے والی زندگی میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہر بچے کا رجحان ایسا نہیں ہوتا۔ ضرورت ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے۔ بچہ اپنا آپ منوانا چاہتا ہے بڑوں کی طرح، بلکہ غالباً ان سے بھی زیادہ۔ بچہ بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ اسے نظرانداز کیا جائے۔ چنانچہ ایک جانب بچے کی بنیادی و فطری خواہشیں ہوتی ہیں اور دوسری جانب والدین کے تقاضے… ان میں اکثر تصادم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس صورت ِحال سے بچنے کے لیے والدین کو بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی سے شعوری کوششیں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بچہ زندگی کے ہر موڑ کا سامنا اعتماد اور کامیابی سے کرسکے۔
بچے کا پیغام سنیں
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جن بچوں کے والدین شروع ہی سے بچوں کے پکارنے، رونے، بے چین ہونے وغیرہ پر ان کو فوری توجہ دیتے ہیں وہ بچے دوسروں کی نسبت زیادہ پُراعتماد ثابت ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ چند دنوں کا بچہ دودھ کے لیے روتا ہے، ایسے میں جو مائیں فوراً بچے پر توجہ دیتی ہیں اور اس کی ضرورت پوری کرتی ہیں، اس بچے کے پُراعتماد شخصیت بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح نیند سے جاگنے پر جب بچے ماں کو موجود نہ پاکر پریشانی میں روتے ہیں تو جو مائیں فوراً اپنے بچوں کے پاس پہنچتی ہیں، وہ بچے زیادہ پُراعتماد ہوتے ہیں۔ بچہ ذرا سا بڑا ہوکر اپنی کسی ضرورت کے لیے پکار رہا ہو تو ایسی مائیں جو گھر کے کام کاج میں لگی رہتی ہیں اور اس کی ضرورت کو پورا کرنے میں دیر کرتی ہیں، ان کے بچے عام طور پر پُراعتماد ثابت نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ بچہ جب بھی آپ کی ضرورت محسوس کرے اور کسی بھی طریقے سے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرے، آپ کا اُس کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اُس کا مطالبہ جائز ہے یا ناجائز۔ اُس کا مطالبہ سننے کے بعد آپ فیصلہ کریں کہ آپ کو اسے کس طرح مطمئن کرنا ہے۔
چھونے کا احساس
بہت ہی چھوٹے بچوں کے لیے انتہائی اہم چیز انہیں چھونا ہے، کیوں کہ اس دور میں انہیں خوراک کے ساتھ احساسِ تحفظ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کے جسم پر ہاتھ پھیرنا، چومنا، گدگدانا، بانہوں میں لینا اور گلے لگانا اہم ہے۔ ایک اور چیز سمجھ لینی چاہیے کہ بہت چھوٹے بچوں کو ہوا میں اچھالنا ہمارے ہاں عام ہے، جو بچے میں خوف کا عنصر پیدا کرتا ہے، کیوں کہ اس میں گہرائی کو محسوس کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ یہ خوف اس کے ذہن میں بیٹھ کر بڑا ہونے پر اسے ایک بااعتماد شخص بننے سے روک سکتا ہے۔
بچہ آپ کی زبان سمجھتا ہے
چند دنوں کا بچہ بھی والدین خصوصاً ماں کی بات چیت، چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات کو کافی حد تک سمجھتا ہے اور اپنے طور پر جواب بھی دیتا ہے، خواہ یہ جواب ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ سال ڈیڑھ سال کے بچوں سے صاف اور واضح انداز میں بات چیت کریں، توتلے پن سے گفتگو نہ کریں تو زیادہ اچھا ہے۔ کیوں کہ بچہ وہی کچھ سیکھتا اور بولتا ہے جو والدین بولتے ہیں۔
بچہ تعریف چاہتا ہے
بچہ کسی بھی عمر کا ہوا‘ اُسے اپنی تعریف سننا بہت اچھا لگتا ہے، اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سراہا جائے۔ تعریف اور حوصلہ افزائی بڑے اہم ہتھیار ہیں جن سے بچوں کی ذہانت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف جس بچے کو مسلسل تنقید اور روک ٹوک کا سامنا ہو، خواہ والدین اصلاحی نکتہ نظر ہی سے کیوں نہ کریں، یہ چیزیں اُس کے اعتماد کو تباہ کردیتی ہیں، وہ اپنے آپ کو کسی قابل نہیں سمجھتا، چنانچہ وہ کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہوجائے اور ماں یا باپ کی طرف سے ڈانٹ نہ کھانی پڑے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بچوں کا غلطیاں کرنا ان کے سیکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ جہاں تک ممکن ہو بچوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، کیوں کہ بچے جتنا زیادہ سیکھتے ہیں، اتنے ہی بااعتماد ہوتے ہیں۔
بچہ پلو سے باندھ کر رکھنے کی چیز نہیں
بعض مائیں اپنے بچوں کو ہر وقت پلو سے چپکائے رکھتی ہیں۔ اُن کا مناسب آزادی نہ دینا اور حد سے زیادہ حفاظت کرنا بچے کو پُراعتماد بننے سے روک سکتا ہے، ایسے بچے اپنے ہم عمر بچوں سے اکثر پیچھے دیکھے گئے ہیں۔ یہ بچے ماں کی موجودگی میں شیر اور تنہا گیدڑ ثابت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عملی زندگی میں بچہ اپنی ماں کو ساتھ لے کر تو نہیں چل سکتا۔ اسے اپنی انفرادی حیثیت سے اپنے مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ ایسے بچے اسکول جانے سے بھی گھبراتے ہیں، کیوں کہ ماں کی غیر موجودگی میں انہیں عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے۔ لہٰذا بچوں کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کی مناسب آزادی دیں تاکہ وہ اپنی ذات پر اعتماد کرنا سیکھیں۔
بچے سے چھوٹے موٹے کام کرائیں
ماں کے لیے بچے کا ہر کام خود کرنا بھی بچے کے اعتماد کے لیے زہر ہے۔ بچے میں بہت زیادہ نفسی توانائی پائی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بچے کو اُس کی عمر کے حساب سے چھوٹے موٹے کام کرنے دیں، ورنہ یہ بچہ والدین کو بہت زیادہ تنگ کرے گا، یعنی اس کی تمام توانائیاں منفی سمت میں استعمال ہوسکتی ہیں۔ بچے سے جتنے زیادہ اور مختلف نوعیت کے کام کرائے جائیں وہ نہ صرف اتنا زیادہ سیکھے گا بلکہ خوش بھی رہے گا۔ اس طرح اُس کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا اور وہ اپنی آئندہ زندگی میں زیادہ پُراعتماد ثابت ہوگا۔

حصہ