سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے

566

صائمہ عبدالواحد
آج انٹرویو سے واپسی پر ردا سوچوں میں گم تھی۔آج بھی جاب کا کچھ نہ بنا۔ گھر کا خرچ، بچوں کی فیس… کہ اچانک رکشا سگنل پر رکا اور ایک بھکارن لڑکی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ’’باجی! اے باجی! کچھ پیسے دے دے، کھانا کھاؤں گی۔‘‘ ردا اپنی پریشانی میں تھی۔ پیسے اور کھانے کے مطالبے نے اسے مزید پریشان سا کردیا۔ اسے اس بھکارن میں اپنی بیٹیاں نظر آنے لگیں۔
رش کے باعث رکشا تھوڑا آگے جاتے ہی پھر رک گیا۔ وہ کالی رنگت والی بھکارن لڑکی پھر اس کے رکشے کے پاس تقاضا کرتی آئی ’’باجی اے باجی !کچھ پیسے دے دے، کھانا کھاؤں گی۔‘‘
’’ کھانا کھانا ہے تجھے، آبیٹھ میرے ساتھ میرے گھر چل، میں کھانا کھلاؤں گی تجھے۔‘‘ ردا رسان سے کہنے لگی۔
’’نہ باجی میں گھر نہیں جاؤں گی تیرے ساتھ، تم لوگ کھانے کا لالچ دے کر گھر لے جاتے ہو اور ہمیں مارتے ہو اور ہم سے کام کراتے ہو۔‘‘
’’میں کیوں کام کروائوں گی تجھ سے…! میرا کون سا بڑا مکان ہے…! میں تو خود کام کرتی ہوں۔‘‘
’’باجی تجھے کام کی کیا ضرورت ہے، تُو تو اتنی سوہنی ہے۔‘‘ اس کی بات ردا کے دل کو لگ گئی۔ ’’یہ کیا بات کی؟ کیا عورت کھلونا ہے، یا اسے خوب صورتی اور بدصورتی نے کلاس میں تقسیم کردیا ہے…؟‘‘ اتنے میں رش کم ہوا اور رکشا یہ جا وہ جا۔
گھر پہنچ کر ردا اپنے کام میں لگ گئی۔ بچوں نے کھانے کا تقاضا کیا تو اسے وہ بھکارن یاد آئی… وہ بھوکی تھی۔ کاش میں اسے کھانا دے پاتی۔ اس کے چہرے پر عجیب سی کشش تھی، ہوسکتا ہے کسی اچھے گھر کی بچی ہو۔ خبروں میں بھی تو آئے دن یہی دکھاتے ہیں اغوا اور زیادتی کے واقعات اور سگنل پر مانگنے والوں کا اتنا رش، اور وہ بھی چھوٹے چھوٹے بچے… چائلڈ لیبر کے قوانین بنانے والے حکومتی اہلکار کہاں سو رہے ہیں؟ کیا انہیں سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے پورا بیگار نیٹ ورک نظر نہیں آتا؟ یہ بچے کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں سے لائے جاتے ہیں؟ کس کی سرپرستی میں یہ گھناؤنا کاروبار ہورہا ہے؟کیا اربابِ اختیار جانتے بوجھتے حقیقت سے چشم پوشی برت رہے ہیں یا ملکی حالات ان کے اختیار سے باہر ہیں؟

ٹوٹکے

مچھلی کی بدبو ختم کرنا:
مچھلی دھونے سے پندرہ منٹ قبل اس پر آٹا لگا دیں، اس طرح اس کی بُو ختم ہوجائے گی۔
فریج میں برف کی ٹریز کو جمنے سے بچانا:
فریج میں جب برف کی ٹریز پانی بھرکر رکھتے ہیں تو برف جمنے کے بعد وہ اکثر اس طرح چپک جاتی ہیں کہ ان کو اکھاڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں لوگ انہیں چھری سے اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں، اور فریج کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر برف کی ٹرے کے نیچے پلاسٹک کی Mats رکھ دی جائیں تو ٹرے بڑی آسانی سے نکل آئے گی۔
پھٹے ہوئے دودھ کو کارآمد بنانا:
پھٹے ہوئے دودھ کو پھینکیں نہیں، اسے ایک دو ابال دے کر پوری طرح پھٹ جانے دیں، پھر چھان کر پنیر نکال لیں۔ پنیر میں مرضی کے مطابق نمک، مرچ اور دل چاہے تو باریک کتری پیاز ڈال کر ان کی ٹکڑیاں تل لیں۔ خالی کھائیں یا آلو مٹر کے ساتھ بھجیا بنائیں، یا پھر دودھ جلا کر کھویا بنا لیں۔ (نوٹ) پنیر نکالنے کے لیے ابالنے سے پہلے آدھی پیالی دہی بھی ڈال دیں۔ پنیر زیادہ بنے گا اور مزیدار بھی ہوگا۔

ایک شعر تین شاعر

ایک دفعہ دو افراد میں ایک شعر کے متعلق جھگڑا ہوگیا۔ دونوں مرزا کے پاس پہنچے اور ان کی رائے طلب کی۔ مرزا نے کہا: شعر پڑھیے۔ شعر پڑھا گیا۔ انہوں نے دو ایک بار خود پڑھا اور فرمایا واقعی بے نظیر شعر ہے:

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

’’مرزا صاحب! میں کہتا ہوں یہ شعر غالب کا ہے، میرے دوست کی رائے ہے ذوق کا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ایک شخص نے کہا۔
’’حضرات! آپ دونوں غلطی پر ہیں۔ یہ شعر غالب کا ہے نہ ذوق کا۔ دراصل اسے تین شاعروں نے مل کر کہا اور وہ تھے جناب دل شاہجہاں پوری، جناب جگر مرادآبادی اور محترمہ ادا بدایونی۔ ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ تینوں کے تخلص شعر میں موجود ہیں۔‘‘ (مرسلہ: صدف)۔

حصہ