مسائل ایسے سائل ہیں جو کب ٹالے سے ٹلتے ہیں

524

محمد وسیم قمر
کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی‘ اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے ایک بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ کرنسی پر تصویر کا ہونا صحیح ہے غلط؟ عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ’’میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ مجھے یقین ہے میرا فتویٰ نہیں چلے گا کرنسی نوٹ چل جائے گا۔‘‘
میرے پڑوس میں ایک بزرگ ہیں‘ انہوں نے قصہ سنایا کہ کسی گاؤں میں ایک میراثی تھا‘ اس کو گاؤں کا چوہدری بننے کا شوق تھا۔ اس کے اسرار پر اس کو گاؤں کا نمبردار بنا دیا گیا۔
چوہدری بنتے ہی اس نے عیش وعشرت کی زندگی گزارنی شروع کر دی۔ یوں اس نے گاؤں کے معاملات کی فکر بھی نہ کی اور نہ ہی اس کے مسائل پر کوئی کام کیا۔ گاؤں کا اسکور لیول گرتا گیا اور اس کا شمار غریب ترین گاؤں میں ہونے لگا۔
ایک دن چوہدری نے گاؤں کی پنچائیت بلا لی۔ گاؤں والوں نے بھی شکر کیا کہ چلو چوہدری کو کم از کم خیال تو آیا ہمارے مسائل کا۔ پنچائیت سے چوہدری نے لمبا چوڑا خطاب کیا۔
’’میرے بزرگو! دوستو! بھائیو! بہنو! اور اس گاؤں کے واسیو…! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مہنگائی نے جینا حرام کر دیا ہے‘ آٹا مل نہیں رہا‘ سبزی غریب کی پہنچ سے باہر ہے‘ تیل و گیس کا سب کو معلوم ہے۔ میرے بھائیو! اب بتاؤ بندہ کرے تو کیا کرے؟‘‘
گاؤں والے بھی خوش ہوئے کہ چلو چوہدری کو بھی ان مسائل کا ادراک تو ہے۔ لیکن گاؤں والے اس وقت حیران ہوئے جب ایک دم چوہدری نے ہاتھ باندھ کہ عرض کی کہ’’اللہ کا واسطہ گاؤں والو.میری مدد کرو میں بھوکا مر رہا ہوں۔‘‘
پہلی کہاوت کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں حالات بالکل ایسے ہی ہیںعلما بے چارے سر پیٹ کر رہ گئے کے معاشرے میں پردے کا رواج عام کیا جائے وگرنہ اس کا انجام بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اب حالات ایسے ہیں کہ آئے دن بچوں سے زیادتی کے کیسز میڈیا پر آتے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ننھے بچوں اور کلیوں کو بھی درندے نوچنے سے باز نہیں آتے۔ قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کرنے پر سزائے موت کی بات ہوئی تو ہمارے ملک کی سب سے میچور جمہوری سیاسی پارٹی کے چئیرمین نے اس کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔
اوکاڑہ سے اسلام آباد جاتے ہوئے بس میں میرے برا بر کی نشست پر ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ اپنی گفتگو سے وہ کافی تجربہ کار معلوم ہوتے تھے‘ جب ان سے بات ہونے لگی تو معلوم ہوا کہ وہ extremist views رکھتے ہیں۔ مجھے تو جیسے موقع مل گیا۔
میں نے ہوا میں چھوڑی کہ مولوی کون سا کم ہیں۔ انہوں نے پہلے تو مجھے غور سے دیکھا اور پھر اپنا موبائل نکال کر مجھے زینب ریپ سے لے کر تاحال جتنے بھی ریپ ہوئے ہیں جو میڈیا پر رپورٹ ہوئے ان کی تفصیل میرے گوش گزار کی اور صرف ایک بات کہی’’بیٹا تم مجھے پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو‘ یہ بتائو اس طرح کے کیس میں کتنے مولوی ملوث ہیں؟‘‘
حقائق بتا رہے تھے کہ اکا دکا ہی اسکینڈل ایسے تھے جو So called مولویوں کے تھے۔ میرے تو بزرگ نے چودہ طبق روشن کر دیے۔ حقائق ایسے تھے جن کو جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا۔ میں اکثر معاشرے میں انتشار کی جڑ مولویوں کو ٹھہراتا ہوں۔ لیکن ان کی باتیں مجھے قائل کرنے کے لیے کافی تھیں کہ معاشرے کے ہر طبقے میں کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں‘ جو اس طبقے کے لیے ذلالت کا باعث بنتی ہیں۔ علماء‘ سیاست دانوں‘ میڈیا‘ اسکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں‘ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انتشار کا باعث ہیں.پھر فتوے جاری ہوں یا پھر سزائیں…وہ اپنا کام کر ہی گزرتے ہیں۔
اب آتے ہیں دوسری کہاوت کی طرف۔ ملک کا سربراہ تقریر کررہا تھا ایک دم شاید ان کو کیسے اپنے گھر کا خیال آگیا کہ اپنی تنخواہ کا رونا رو دیا کہ جناب اس تنخواہ میں تو میرا بھی گزارا نہیں ہوتا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جتنی تنخواہ موصوف کی ہے اس میں اتنے بڑے اسٹیٹس کے ساتھ گزارہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن بات یہاں پھر غریب عوام کی ہے کہ وہ کیا کریں؟ اگر انہوں نے ’’چوہدری‘‘ پر اعتماد کر کے اسے سربراہ بنا ہی لیا ہے تو وہ بھی کچھ خیال کرے‘ مسائل نہ بتائے بلکہ ان کو حل کرے‘ مسائل بتانا تو میڈیا کا کام ہے‘ ان کا کام تو انہیں حل کرنا ہے۔
مجھے افکار علوی کا شعر یاد آتا ہے کہ

مرشد! دعائیں چھوڑ ترا پول کھل گیا
تو بھی مری طرح ہے ترے بس میں کچھ نہیں

حصہ