قناعت کرنا سیکھیں

474

کنزہ ارشد
اسے شروع سے ہی یہ سکھایا گیا تھا کہ جو بھی مانگنا ہے اللہ سے مانگو، نہ ملے تو رو کے مانگو، رونا نہ آئے تو گڑگڑا کر مانگو لیکن مانگو صرف اللہ سے۔ وہ بھی بہت خوش تھا کیوں نا ہوتا اللہ تعالیٰ ہر خواہش جو پوری کر رہے تھے بلکہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بعض اوقات اسے مانگنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی تھی اور جو چاہیے ہوتا تھا بن کہے مل جاتا تھا۔ ہاں کبھی کبھی جب وہ امی کو تنگ کرتا تھا اور ضدی بن جاتا تھا تب اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گئے ہیں، پھر اسے طرح طرح کے خوف آن گھیرتے تھے اور وہ ڈر کے مارے دوڑا دوڑا جاتا اور امی کی گود میں چھپ کر خوب آنسو بہاتا، تب امی پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہتیں اور ماتھے پر پیار کر کے خوب کہانیاں سناتی تھیں۔ یوں اگلی صبح وہ ہلکا پھلکا ہو کر نماز ادا کرتا اور اسکول کی وردی پہنے، اپنی چوکی پر بیٹھا بہانے بہانے سے امی سے پوچھتا ’’ماں جی! ماں جی! جب چھوٹے بچے امی کو تنگ نہ کریں اور بنا ضد کیے ہی دہی کی کٹوری سوکھی روٹی کے ساتھ کھا جائیں تو اللہ سوہنا راضی ہو جاتا ہے نا؟‘‘، امی مسکرا مسکرا کر سر ہلا دیتیں اور اس کے آگے سے دہی کی خالی کٹوری اٹھا کر اسے ایک آنا تھما دیتیں۔
’’اللہ سوہنا کہتا ہے مجھ سے مانگو بہتیرا (بہت) مانگو، اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے‘‘۔ امی کا چہرہ اور اس کی آنکھیں چمک چمک جاتیں۔ ’’ہاں ماں جی! یہ صبح ہی تو اللہ سوہنے سے ایک آنا مانگا اور اور۔۔۔ دیکھو نا ماں جی! دیکھو نا ماں جی!‘‘ وہ صحن بھر گھومتا، دادی کو جگاتا، ان کو بتاتا اور ابا کی ڈانٹ پر سرپٹ اسکول کے لیے بھاگ نکلتا۔ اسے پتا ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ خوشی خوشی اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوتا تھا لیکن اللہ تعالی کو سب پتا ہوتا تھا، وہ ذات سب جانتی ہے۔ یوں امی بھی راضی ہو جاتی تھیں اور اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی جلد سن لیا کرتے تھے۔
پھر وہ بڑا ہوگیا، اس کی خواہشات نے بھی اڑان بھرنی شروع کر دی لیکن یہ کیا کہ اب اللہ تعالیٰ اکثر ناراض ناراض سے رہنا شروع ہو گئے تھے۔ ’’ماں جی! ماں جی! اللہ سوہنا پکا پکا بھی ناراض ہو جاتا ہے کیا؟‘‘ امی مسکرا کر نفی میں سر ہلا دیتیں اور ان کے تیزی سے چلتے ہاتھ اگلی روٹی توے پر ڈالتے جبکہ وہ اپنی چوکی پر بیٹھا انگشت شہادت منہ میں دبا لیتا اور دور آسمان کی وسعتوں میں کچھ کھوجنے کو دیکھتا۔
’’ہاں ماں جی! ہو سکتا ہے اللہ سوہنے نے اس بار خزانے بھرنے کے لیے جس فرشتے کی ڈیوٹی لگائی ہو وہ ذرا سست ہو؟‘‘ اس کے کھوئے کھوئے لہجے پر غور کیے بنا امی ایک خفگی بھری نظر اس پر ڈال دیتیں۔ ’’اللہ سوہنے کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔ تو نے فجر پڑھ کے اس سے مانگا نہ ہو گا ورنہ یہ نہ ہو کبھی کہ اللہ سے مانگو اور وہ نہ دے۔‘‘ فجر کے ذکر پر وہ گڑبڑا سا گیا اور نظریں چرا کر اپنی چوکی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ تب امی نے اس کی ہتھیلی پر ایک روپیہ رکھ دیا۔ امی کے چہرے کی وہی چمک اور اس کے چہرے کی پھیکی سی مسکراہٹ۔اس کو ایک روپیہ تھوڑی نا چاہیے تھا۔
پھر وقت کا پہیا گھومتا ہوا اسے وہاں لے آیا جہاں کسی سے پتا چلا کہ صرف اللہ سے ہی نہ مانگو انسانوں سے بھی مانگو۔ اسے بڑا تعجب ہوا اس بات پر کہ یہ عجب ہی منطق ہے بھئی کہ اللہ تعالی کے علاوہ بھی کوئی ہے جو خواہش پوری کرتا ہے۔ اس بار اس نے ماں جی سے پوچھنے کا تردد بھی نہیں کیا کہ اب وہ اس کے من کی بات سمجھتی ہی کہاں تھیں۔ پھر اس نے ایک دن ایک انسان کے آگے ہاتھ پھیلا ہی دیا اور وفور اشتیاق سے آنکھیں بند کر لیں کہ ’’دیکھوں تو کتنا مالا مال ہونے والا ہوں کہیں سنبھالا ہی نا جائے تو کیا کروں گا‘‘۔
من ہی من میں پرجوش سرگوشیاں کرتا وہ ایک ناخدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا، آنکھ اسکی تب کھلی جب اسکی کھلی ہتھیلی پر وقت کی زور دار چھڑی پڑی لیکن وہ تکلیف کوئی تکلیف تھی بھلا اس تکلیف کے آگے جو اسے لوگوں کے سامنے تضحیک اٹھا کر ہوئی۔ ہر کوئی اس پر ہنس رہا تھا، آوازے کس رہا تھا۔وہ تماشا بن گیا تھا اپنے ہی جیسے کسی انسان کے آگے ہاتھ پھیلا کر۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اسے سامنا بھی نہیں کرنا آتا تھا ایسے حالات کا۔اللہ سے مانگنے کی عادت جو تھی۔انسان سے مانگنے کا تجربہ نہ تھا۔
وہ پلٹا اور دوڑتا چلا گیا۔ کیسی منزل، کیسا راستہ۔اسے کچھ ہوش نہ تھا۔جب ہواس بحال ہوئے تو امی کی گود میں سر رکھے رو رہا تھا۔ ماں جی نے منہ تو نہ موڑا لیکن وہ دکھی تھیں۔ وہ ان کے دل میں رہتا تھا نا جبھی جان گیا۔۔۔
’’ماں جی! کسی بھٹکے ہوئے کو کوئی سرا ہاتھ نہ آتا ہو تو وہ کیا کرے؟۔جس کی جھولی خالی ہو وہ کس کی جانب ہاتھ کرے؟‘‘
اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، لیکن نظریں جھکانے سے حقیقت نہیں چھپ جاتی۔
’’اللہ سوہنے سے مانگ۔۔۔سوہنے کے خزانوں میں کمی تھوڑی ہے؟؟‘‘
آخر کو وہی بات ہو گئی جس سے وہ ڈر رہا تھا۔ اب پتا نہیں ڈر زیادہ تھا یا شرمندگی۔ کس منہ سے جائے اللہ کے سامنے؟
نظر اٹھانے تک کا یارا نہ تھا اللہ تعالی کے سامنے۔
ایسے ہی انسان دو کوڑی کا محتاج ہو جاتا ہے جب وہ ناشکری کرتے ہوئے اللہ کی رحمت و نعمت سے منہ موڑتا ہے۔ زیادہ کی طلب ہمیشہ انسان میں لالچ پیدا کرتی ہے۔کون جانے کہ یہ لالچ کب ہوس میں بدل جائے۔
بالآخر وہ بیحد شرمندہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں گڑگڑایا، معافی مانگی، اور دنیا کی دھوکہ دہی کا شکوہ بھی کیا… لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی دل اب بھی بھاری تھا۔
’’ماں جی! دل بھاری ہے۔اللہ سوہنا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے؟‘‘
اس کے دن رات ویراں ہو گئے تھے۔ وہ مایوس سا اپنی چوکی پر ماں جی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
’’راضی کر لے ناں اسے۔ اس کی رضا پر راضی ہو جا!‘‘ ماں جی عقیدت و محبت سے بولی تھیں۔
وہ رب کو راضی کرنے میں لگ گیا۔ رب نے اسے فی الحال بندوں پر چھوڑا ہوا تھا، جن سے اس نے کچھ حاصل تو نہ کیا لیکن سیکھا بہت۔ سب سے پہلے تو یہ سیکھا کہ ’’محتاجی صرف اللہ کی!‘‘ کیونکہ انسان کو رزق تو اللہ کی ذات ہی دیتی ہے لیکن جب انسان دنیا کی چکا چوند میں اپنے مرتبے سے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے تب اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ لوٹ سکے اور اپنے مرتبے کی قدر کر سکے۔
تھوڑا کھا لیں لیکن وہ جو آپ کو اللہ کا شکرگزار کرے نہ کہ اور کھانے کی ہوس پیدا کرے۔ہر کسی کے پاس ماں نہیں ہوتی جو سمجھائے۔ زندگی بہت کٹھن امتحان بھی لیتی ہے اس لیے جو آپ کو دیا گیا ہے اس پر قناعت کرنا سیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو زیادہ کے لالچ میں جو ملا ہے، اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔

حصہ