داستانِ عشق

966

ظہیر خان

مجھے اس وقت فنا نظامی کانپوری یاد آگئے…
داستانِ ترکِ عشق کچھ اتنی پرانی ہوگئی
پہلے اک حادثہ پھر واقعہ پھر اک کہانی ہوگئی
’’داستانِ عشق ‘‘ …یہ بھی ایک کہانی ہے ‘ ترکِ عشق کی نہیں بلکہ حاصلِ عشق کی …
بات بہت پرانی ہے ، اسی لیے تو کہانی ہے
مجھے یقین ہے کہ آپ اس کہانی سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ میں نے اسے اپنے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ’’شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات‘‘۔بقول شاعر…

صرف اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

تو ملاحظہ کیجیے ایک کہانی اس خاکسار کی زبانی…
عظیم مغل بادشاہ اکبر کے صاحبزادے جہانگیر جنہوں نے دنیائے عشق و محبت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا اور شہزادہ سلیم کے نام سے مشہور ہوئے، مزاجاََ عاشق تو نہ تھے مگر مہر النساء (نورجہاں) کی شوخ ادائوں نے انہیں عاشق مزاج بنا دیاتھااور عشّاق حضرات کے لیے تحفتاََ ایک ڈراما نما داستانِ عشق چھوڑ گئے۔ مشہور واقعہ ہے کہ سلیم اپنے باغ میں تھے اور وہی کچھ کر رہے تھے جو شہزادے اپنے خالی اوقات میں کیا کرتے ہیں۔ مہر النساء ان کے ہمراہ تھیں۔ شہزادے نے دو عدد کبوتر مہر النساء کے حوالے کیے اور کہا کہ انہیں پکڑ کر رکھو میں ابھی آیا۔ اور جب سلیم واپس آئے تو مہر النساء کے ہاتھ میں صرف ایک کبوتر تھا۔ سلیم برہم ہوئے اور پوچھا ’’دوسرا کبوتر کہاں گیا‘‘ مہر النساء نے جواب دیا ’’اڑ گیا‘‘ سلیم نے غصّے سے پوچھا ’’کیسے‘‘ بجائے اس کے کہ شہزادے کی برہمی کا اس پر کوئی خوف طاری ہوتا مہر النساء نے ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ دوسرے کبوتر کو اڑاتے ہوئے کہا ’’اے…… سے……‘‘ بس یہی وہ ادائے خاص تھی جس نے سلیم کو مہر النساء کا عاشق بنادیا اور ایک طویل تاریخی سلسلۂ عشق کا آغاز ہوگیا۔ ہم نے مغلیہ تاریخ کا بغور مطالعہ کیا اور کوشش کی کہ کہیں سے وہ دو عدد کبوتر ہاتھ آجائیں جنہیں سلیم نے مہر النساء کو بطور امانت دیے تھے تاکہ ایک صحت مند عشق کا آغاز ہوسکے مگر افسوس کہ وہ کبوتر ہمیں نہ مل سکے لہٰذا اب ہم اس خوبصورت حادثۂ عشق کو قیاس کرلیتے ہیں تاکہ ہمارے مضمون کا آغاز جیسا ہے ویسا ہی رہے تبدیل نہ ہو۔
شہزادہ دن رات مہر النساء کے تصور میں کھویا رہتا تھا اس کے عشق میں دبلا ہوتا رہا اور ویسے ہی حسین خواب دیکھنے لگا جو عاشق حضرات دیکھتے ہیں۔ مگر قسمت اس کا ساتھ دینے پر راضی نہ تھی۔ اور وہی ہوا جو ہمارے یہاں اکثر فلموں میں ہوتا ہے۔ یعنی شہزادہ سلیم ابھی مکتبِ عشق کا پہلا سبق بھی صحیح طریقے سے یاد نہ کر پایا تھا کہ کسی رقیب نے ابّا حضور یعنی اکبرِ اعظم تک یہ خبر پہنچا کر آگ لگا دی۔ اُدھر سلیم کے دل میں آتشِ عشق بھڑک رہی تھی اور اِدھراکبرِ اعظم کے دل میں غصّے کی آگ یعنی ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔ مہر النساء کو اس عظیم سانحہ کی کچھ خبر نہ تھی وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر حسبِ معمول اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے میں مصروف تھی۔ اکبر تک جس خبر رساں ایجنسی نے خبر پہنچائی تھی اس نے حقیقت سے انحراف کیا تھا اور خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مہر النساء بھولے بھالے اور معصوم شہزادے (شہزادے جو اکثر معصوم ہی ہوتے ہیں) کو اپنے حسن و جمال کے جال میں پھانس کر ہندوستان جیسے عظیم ملک کی ملکہ بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اکبر پڑھا لکھا نہ تھا نہ ہی اس کے پاس کوئی ڈگری تھی حتیّٰ کہ جعلی بھی نہ تھی مگر بہت دور اندیش تھا اس نے سوچا کہ اگر ایک معمولی گھرانے کی لڑکی سلطنتِ مغلیہ میں ملکہ کے عہدے پر فائز ہوگئی تو آئندہ کے سارے شہزادے بھی اپنی ملِکات کے لیے غیر معیاری لڑکیوں کا انتخاب کریں گے اور اس طرح سلطنتِ مغلیہ کی ساکھ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اس کے جاہ و جلال نے جوش مارا اور ابھی وہ کسی خوفناک قسم کا حکم نامہ جاری کرنے ہی والا تھا کہ اس کی چہیتی بیوی جودھا بائی نے اپنا ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے بادشاہ کو دانشمندانہ مشورہ دیا کہ جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لو۔ بیٹا جوان ہے اپنی جوانی کے جوش میں کچھ بھی کرسکتا ہے لہٰذا کوئی ایسی سیاسی چال چلی جائے کہ ناگن بھی مرجائے اور تلوار بھی نہ ٹوٹے (اکبر اپنی کمر میں لاٹھی نہیں تلوار ٹانگتا تھا) اکبر اپنے نو رتنوں کے علاوہ کسی اور سے مشورہ لینا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر بات چونکہ گھر کے اندر کی تھی اس لیے گھر والی کا مشورہ اس کی عقلِ جلالی میں آگیا۔ اور اس پر عمل کرتے ہوئے اس نے ایک عدد ایرانی سپاہی علی قلی بیگ (شیر افگن) دو عدد قاضی اور ڈرامے کی اہم کردار مہر النساء کو اپنے دربارِ خاص میں طلب کرلیا اور … اکبر کے جلالی حکم کے آگے دونوں فریق نے ’’قبول کیا‘‘ ’’قبول کیا‘‘ کہہ کر ڈرمے کا ایک پارٹ مکمل کردیا۔
شہزادہ سلیم ایک ناشاد نامراد عاشق کی طرح اپنے عشق کا جنازہ جو بڑی دھوم دھام سے نکل رہا تھا اپنی نشیلی آنکھوں سے دیکھتا رہا اور آہیں بھرتا رہا۔ بقول شاعر ’’عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ شہزادہ سوائے صبر کے کچھ نہ کرسکا۔ اس کی ماں نے اسے تسلّی دی کہ ’’بیٹا صبر کر، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے‘‘ مگر شہزادے کو پھل تو درکنار اس کا پھول بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ لہٰذا شہزادے کے شب و روز ویسے ہی گزرنے لگے جیسے ایک ناکام عاشق کے گزرتے ہیں۔ ساری ساری رات جاگ کر اختر شماری کرنا اور صبح دیر تک سونا۔ اکبر کو اپنے لختِ جگر پر جو کافی منتوں اور مرادوں کے بعد دنیا میں آیا تھا رحم آیا لہٰذا اس نے شہزادے کی دوسری شادی کا بندوبست کیا اور جے پور کے راجہ کی بیٹی جو حسن و جمال میں یکتا تھی شہزادے کے پلّے باندھ دی۔ ’’درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ شہزادے کے حرم میں دو عدد حسینائیں موجود تھیں مگر شہزادے کو وہ سکون نہ پہنچا سکیں جو فقط مہر النساء کے تصوّر سے اسے حاصل تھا۔ شہزادے کے دل میں بغاوت کی ہلکی ہلکی چنگاریاں جنم لے رہی تھیں مگر اکبر کے جوش و جلال کے آگے شعلہ نہ بن سکیں اسے یقین تھا کہ اگر ذرا بھی زبان کھولی تو تیسری راجپوتنی اس کے پلّے باندھ دی جائے گی۔
سلیم خاموش رہا اس انتظار میں کہ ابّا حضور دنیا سے رخصت ہوں اور وہ آزادی حاصل کرسکے۔ اور آخر کار سلیم کی آرزو پوری ہوئی اکبر دنیا سے رخصت ہوئے اور سلیم ’’جہانگیر‘‘ کا لقب اختیار کرکے ہندوستان کے تختِ شاہی پر براجمان ہوئے اور اپنے ناکام اور نامکمل عشق کی تکمیل کے منصوبے بنانے لگے۔ سلیم جو رقابت کی آگ میں ایک عرصے سے جل رہا تھا اپنے رقیبِ روسیاہ یعنی علی قلی بیگ جو اس کے لیے راستہ کا بہت بڑا اور وزنی پتھر تھا اسے راستے سے ہٹانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ علی قلی بیگ جو اس وقت بردوان میں تھا اور اپنی منکوحہ مہر النساء اور ایک عدد بیٹی کے ساتھ زندگی کی بھرپور لذتوں سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ آگرہ سے ایک طوفان آنے والا ہے۔
سلیم نے اپنے ایک خاص فوجی افسر کو حکم دیا کہ بردوان جائو اور میرے رقیب علی قلی بیگ کی ملاقات اس فرشتے سے کروادو جو روحیں قبض کرتا ہے۔ بادشاہ کا حکم سر آنکھوں پر، فوجی افسر نے حکم کی تعمیل کی اور سلیم کا رقیب مہر النساء کو بیوہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔ سلیم نے مہر النساء کو آگرہ بلوالیا اور اس سے شادی کی پیش کش کی جسے مہر النساء نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ تم میرے شوہر کے قاتل ہو لہٰذا تم سے شادی نہیں کرسکتی۔
جہانگیر نے اسے قلعہ میں نظر بند کردیا۔ کچھ عرصہ بعد مہر النساء کو اپنے عاشقِ بے قرار پر رحم آہی گیا اور وہ شادی کے لیے راضی ہوگئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ سلطنتِ مغلیہ میں اکبر کے ایک سرکاری ایرانی ملازم مرزا غیاث بیگ کی بیٹی ہندوستان کی ملکہ بنی جسے ’’نور جہاں‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا اور اس طرح وہ عشق کی ایک د استان مکمل کرگئی۔
آپ کی معلومات میں اضافہ کے لیے ایک بات عرض کرتا چلوں کہ مہر النساء (نورجہاں) شہزادہ سلیم کا پہلا اور آخری عشق تھا۔ دربارِ اکبری میں انار کلی نام کی کوئی کنیز نہ تھی اور نہ ہی شہزادہ سلیم سے اس کی کوئی عشق کی داستان ہے۔ انار کلی مشہور ڈراما نگار امتیاز علی تاج کے ڈرامے ’’انار کلی‘‘ کا ایک فرضی کردار ہے اسی ڈرامے سے متاثر ہوکر مشہور ہدایت کار کے۔آصف نے فلم’’ مغلِ اعظم‘‘ بنائی تھی۔

حصہ