وزیر کی دانائی

976

صوفی تبسم
نوشیرواں، ایران کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کا ایک وزیر بزر جمہر تھا جو اپنی دانائی اور فراست کے لیے بہت مشہور تھا۔ بادشاہ حکومت کے کاروبار میں اس پر پورا بھروسا کرتا تھا۔
ایک یہودی سودا گر بادشاہ کا بہت دوست تھا۔ وہ سوداگر بڑا مالددار تھا۔ بادشاہ کو جب کبھی روپے کی ضرورت پڑتی تو وہ اپنے اسی سودا گر دوست سے جتنا روپیہ چاہتا قرض لے لیتا۔ بادشاہ اس کا بہت ممنون تھا اور چاہتا تھا کہ کبھی موقع ملے تو اس کا احسان اتارے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ سوداگر بزرجمہر سے ملا اور کہنے لگا:
’’میرا ایک ہی لڑکا ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ وہ بادشاہ کے دربار میں ملازم ہو جائے۔ مَیں خود کہتے ہوئے جھجکتا ہوں۔ تم بادشاہ سے بات کر کے یہ کام کرا دو تو تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘
بزرجمہر نے کہا: ’’میاں تم سودا گر ہو، خوب دولت کماتے ہو، تمہارا بیٹا نوکری کرکے کیا کرے گا۔ نوکری میں اور پھر بادشاہی نوکری میں بڑے جھمیلے ہوتے ہیں۔ سوداگر بچہ یہ کام نہیں کرسکے گا۔‘‘
یہودی سوداگر نے جواب دیا: ’’مَیں نے اپنے بیٹے کو شروع ہی سے اچھی تعلیم دلوائی ہے۔ بڑی توجہ سے اس کی تربیت کی ہے۔ اس خوبی سے کام کرے گا کہ تم اور بادشاہ سلامت خوش ہوں گئے، موقع ملنے کی بات ہے۔‘‘
بزرجمہر نے بہتیرا سمجھایا لیکن سوداگر نہ مانا۔ بزرجمہر کسی نتیجہ پر نہ پہنچا تھا کہ ایک دن سوداگر نے بادشاہ کی دعوت کی۔ بزرجمہر اور سلطنت کے دوسرے امیروں اور وزیروں کو بھی بلایا۔ دولت پاس تھی، ہزاروں روپے خرچ کرکے مکان کو اس طرح سجایا کہ جدھر نظر پڑتی انسان آرائش کے سامان کو دیکھ کر حیران رہ جاتا۔
یوں تو ایک سے ایک چیز عجوبہ تھی… لیکن وہاں ایک چیز کو دیکھ کر سب مہمان دنگ رہ گئے۔
ایک کونے میں ایک چھوٹا سا سنہری تخت بچھا ہوا تھا… تخت پر ایک زندہ بلی بیٹھی ہوئی تھی۔ جس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کو پھیلائے ہوئے تھے۔ ایک ہاتھ میں جلتا ہوا چراغ اور دوسرے ہاتھ میں پھولوں کی ایک بہت خوب صورت ننھا منا گلدستہ تھا۔
بلی یوں چپ چاپ اور ساکت بیٹھی ہوئی تھی جیسے کوئی سنگِ مرمر کا بت ہو۔
بزرجمہر نے جب اس بلی کو دیکھا تو وہ فوراً تاڑ گیا کہ سوداگر نے اپنی عقل کی دھاک بٹھانے کے لیے جان بوجھ کر یہ بات کی ہے۔ اور دراصل وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ… دیکھو مَیں نے اس بلی کو جو ایک معمولی حیوان ہے کتنی اچھی طرح سدھارا ہے اپنے بچے کی تربیت کیوں نہ کی ہو گی۔
اتنے میں کھانے کے لیے دسترخوان لگایا گیا، اور سب مہمان بیٹھ گئے۔ بزرجمہر نے اپنے ایک نوکر کو بلایا اور کہا کہ چپکے سے جائو اور ایک پنجرے میں چوہا بند کرکے لے آئو۔
نوکر فوراً گیا اور حکم بجا لایا۔
بزرجمہر نے اشارہ کیا،… نوکر نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔
چوہے نے پنجرے سے باہر چھلانگ لگا دی۔ چوہے کا نظر آنا تھا کہ بلی نے نہ آئو دیکھا نہ تائو، فوراً چراغ اور گلدستہ پھینک کر چوہے پر لپکی اور پھر آن کی آن میں ہر چیز کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا۔
سوداگر بزرجمہر کی چال کو سمجھ گیا اور پھر اس نے کبھی بھی اپنے بیٹے کے لیے سفارش نہ کی۔

حصہ