کچھ آگے بڑھو تو بات بنے

304

اسماء صدیقہ

اس خون میں ڈوبی نگری پہ
اور آگ میں جھلسی وادی پہ
(پھر دنیا کی بے فکری پہ)
سب آہیں نعرے، تقویریں
(اور اس پہ داد کی تشہیریں)
لاچاروں کی محصوری پہ
سب نعرے کتنے اچھے ہیں
اور ان کا ساتھ نبھانے کو
جو لوگ بھی یکجا ہو جائیں
وہ سارے کتنے اچھے ہیں
پر واک اور ٹاکی کے تیروں سے
اب نعروں اور تقریروں سے
کچھ آگے بڑھو تو بات بنے
جو ظلم کو ہاتھوں سے روکے
اب کوئی تو وہ بات بنے
جو ناخن لے تدبیروں کے
ہاں مظلوموں کے حق کے لیے
باہر جو مل کے نکلے ہو…!
اور ان کی قید و اذیت پہ
کیا جوش غضب سے بپھرے ہو
آغاز وہ کتنا اچھا تھا
(اظہار یقینا سچا تھا)
بند اس پہ کیا جو راہ عمل
کھلواڑ ہوا دیگروں سے
آزاد وطن کے رکھوالو!
اظہار کوئی ایسا بھی کرو
اسرار کھلیں شمشیروں سے
اس ظلم و ستم کی جدت پہ
آغاز کوئی انکار کا… ہو
ایجاز کوئی کردار کا… ہو
تاریخ جہاں کے متوالو…!
تاریخ سے ناطہ توڑو مت
رخ سجھائی سے موڑو مت
کچھ حرف و بیاں کی منزل سے
اب آگے چلو تو بات بنے
اک چوٹ ذرا زنجیروں پر
اک گونج کوئی تکبیروں سے

حصہ