پہلے کہتے تھے کہ کھاگئے سب چور، اب یہ کہتے ہیں مافیاز کا ہے زور

604

۔”ملک کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے وژن کے مطابق بنانا میرا خواب ہے، قوموں کی زندگی میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں جس سے گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ مشکل حالات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ قوموں کی ترقی نوجوانوں کی ترقی سے منسلک ہے۔ نوجوان ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ان پر ہم جس قدر خرچ کریں گے ملک اتنا ہی ترقی کرے گا۔ مہنگائی کے ذمہ دار مافیاز ہیں جن کا خاتمہ کریں گے، ایک ایک مافیا کو پکڑیں گے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان اس وقت جن مشکلات سے گزر رہا ہے یہ مشکلات گزشتہ حکومتوں کی بدانتظامی اور کرپشن کا نتیجہ ہیں۔ اصلاحات کے عمل میں وقت لگتا ہے، رکاوٹیں بھی پیش آتی ہیں، ہماری حکومت کو نظام کی دیرپا درستی کرنی ہے۔ کئی بین الاقوامی بڑی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کےلیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ہماری افرادی قوت ہی ہمارا سرمایہ ہے۔ ہم کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، کرپشن ختم ہونے تک ملکی ترقی ممکن نہیں۔ سرمایہ کاری میں آسانیاں پیدا کرنے کےلیے معاشی ٹیم محنت کررہی ہے، کاروباری شخصیات نے معاشی اصلاحات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانے پر معاشی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عوامی مسائل کے حل کےلیے متعلقہ وزراء کے دروازے کھلے ہیں، اس عمل کی نگرانی خود کررہا ہوں، وغیرہ وغیرہ وغیرہ“
”یہ وغیرہ وغیرہ کیاہے؟“
”وغیرہ وغیرہ، یعنی اس کے علاوہ اور بھی ہے۔“
”میں نے تشریح کرنے کو نہیں کہا، میں تو کہہ رہا ہوں کہ جب اخبارات میں ایسی کوئی تحریر نہیں چھپی ہے، نہ ہی خان صاحب نے کہا ہے تو تم کیوں اضافہ کررہے ہو؟“
”خان صاحب کو اپنی عادت کے مطابق اپنے بیانیے میں کل جو کچھ بھی مزید کہنا ہے میں پہلے سے ہی وغیرہ وغیرہ کہہ کر اس کی راہ ہموار کررہا ہوں۔“
”کیا مطلب!تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“
”میرے کہنے کا مطلب صاف ہے، پہلے کہا کرتے تھے قرض مانگنے والی قوم کسی کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتی، جب اقتدار میں آئیں گے تو قومی خزانے میں اربوں ڈالر آجائیں گے۔ جب کچھ نہ آیا تو دوست ممالک سے دوستی کے نام پر مانگنے لگے۔ پہلے سختی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، پھر ملکی مفادات کی مالا جپتے ہوئے ایسے گئے کہ جو اپنا تھا وہ بھی دے کر آگئے۔ کل تک کہا کرتے تھے: چوروں کو نہیں چھوڑیں گے، لوٹی ہوئی دولت کا ایک ایک پیسہ برآمد کریں گے، کسی سے ڈیل کریں گے اور نہ ہی ڈھیل دیں گے، لٹیروں کو کسی قیمت پر بھی ملک سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ پھر خود ہی فرمایا: مجھے ترس آگیا ہے، لہٰذا جانے دو۔ پہلےکنٹینر پر کھڑے ہوکر اور اب بیرونِ ملک خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کو ترقی سے کرپٹ حکمرانوں اور اُن کے فرنٹ مینوں نے روک رکھا ہے۔ اب کہتے ہیں: اس کے پیچھے مافیا ہے۔ جب ملک میں تبدیلی کے دعوے دار اپنی کہی باتیں یا بیانات بار بار تبدیل کریں، ایسی صورت میں میری جانب سے وغیرہ وغیرہ کہہ دینا کیا برا ہے!“
”مجھے تمہاری باتوں سے خان صاحب سے ذاتی عداوت کی بو آرہی ہے تبھی تو تمہیں اس حکومت کے اچھے کام بھی نظر نہیں آرہے۔ اسی حکومت نے قرض کی ایک رقم واپس کی ہے اور قرض لینے سے اجتناب بھی کررہی ہے۔“
”پہلی بات تو یہ ہے کہ میں کسی کی ذاتیات سے متعلق کیوں گفتگو کروں گا؟ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ جب سے خان صاحب کی حکومت آئی ہے، پاکستان میں بسنے والے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، غریب غریب تر ہورہا ہے جبکہ خان صاحب کے گرد رہنے والے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف یہ صورتِ حال ہے، تو دوسری جانب مہنگائی کے بم گرائے جارہے ہیں۔ اگر میری باتوں پر یقین نہیں ہے تو ان اعداد و شمار کو ہی دیکھ لو جن کے مطابق آٹا، چینی، دالیں، گھی، چاول، گوشت، یہاں تک کہ سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اگست 2018ء سے جنوری 2020ء کے درمیان اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 30 سے 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سےہر پاکستانی کے گھر کا ماہانہ خرچ 40 فیصد بڑھ گیا ہے۔ ظاہر ہے پہلے جو راشن 20 ہزار روپے میں آتا تھاوہ اب 28سے30ہزار روپے میں ملے تو اس قسم کے نتائج کا آنا اچنبھے کی بات نہیں۔ خان صاحب جن پر کرپشن اور ملکی دولت لوٹنے کے الزامات لگایا کرتے تھے اُن کے دور میں مہنگائی کی شرح 5.5فیصد تھی، اِس وقت 14.5 فیصد ہے۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو شرح سود6 اعشاریہ5 فیصد تھی، جبکہ اب 13اعشاریہ 2 فیصد ہے۔ کرپٹ حکمرانوں کے دور میں چکی کے آٹے کا10کلو کا تھیلا 450 روپے کا ملتا تھا، جبکہ تبدیلی کےبعد 700 روپے کا ہوچکا، یعنی صرف آٹے کی قیمت میں30 فیصد تبدیلی آئی۔ کرپٹ لوگوں کی حکومت میں چینی 56 روپے فی کلو میں ملا کرتی تھی، آج80روپے سے زائد فروخت ہورہی ہے۔ اس طرح چینی46فیصد اضافے کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔ اسی طرح بیسن کی قیمت کو بھی پر لگ چکے ہیں، یعنی 65روپے کلو فروخت ہونے والا بیسن 48 فیصد اضافے کے ساتھ اب 135 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ اگست2018ء میں کھلا دودھ 90 روپے لیٹر ملتا تھا، جبکہ اب 110 روپے لیٹر ملتا ہے۔ اس طرح دودھ کی قیمت میں 22 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ گھی، تیل 40 فیصد اضافے کے ساتھ 240 روپے میں فروخت ہورہے ہیں، جبکہ تمام قسم کے دالیں 35 فیصد اضافے کے ساتھ فروخت کی جارہی ہیں۔ گائے کا گوشت 600 روپے کلو، جبکہ بکرے کا گوشت جو کہ پہلے یعنی ”چوروں“ کے زمانے میں 700کلو روپے تک بآسانی دستیاب تھا وہ اب 1300سو روپے فی کلو ملتا ہے۔آگے چلتے ہیں اور کچھ بات بجلی و گیس کی بھی کرلیتے ہیں۔ گھریلو استعمال کی بجلی میں 30فیصد جبکہ گیس کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ کرپٹ حکمرانوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی حکومت بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 230بلین ڈالر سے کم ہوکر 189بلین ڈالررہ گئے ہیں، اس یہاں بھی 40سے 41بلین ڈالر کی کمی ہوئی۔ بینک ڈیفالٹ 654سے 774بلین تک چلا گیا۔ اسٹاک مارکیٹ کی صورتِ حال انتہائی خراب ہوئی، یعنی یہ مارکیٹ ماضی کے مقابلے میں 9اعشاریہ6فیصد گری۔ ٹیکس وصولی کی تو بات ہی نرالی ہے، اتنا شور شرابہ اور وصولی میں 400ارب کی کمی آئی۔
اگر میں غلط بیانی کررہا ہوں تو تم ہی اس حکومت کا کوئی ایک عوام دوست کام بتادو۔ میں جانتا ہوں سوائے خاموشی کے تمہارے پاس کوئی جواب نہیں۔ ساری باتیں چھوڑو یہی بتا دو کہ ایک زرعی ملک میں آٹے اور چینی کا بحران کیسے آیا؟ 56 روپے فی کلو فروخت ہونے والی چینی 80 سے 90 روپے کلو کیسے فروخت ہونے لگی؟ سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کی گئی گندم کون کھا گیا؟ سب پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ آٹے اور چینی کی قمیت بڑھا کر کون روزآنہ 2ارب کا ڈاکا مار رہا ہے؟ میری بات چھوڑو، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے تبدیلی سرکار کی کارکردگی اور مافیا مافیا کی گردان کرنے والوں پر جو لب کشائی کی ہے اسی کو دیکھ لو۔ سینیٹر سراج الحق کہتے ہیں کہ حکومت کے ہر فیصلے سے ثابت ہورہا ہے کہ ہر سطح پر دو دو پاکستان ہیں، اگر آٹے اور چینی کا بحران پیدا کرنے والے مافیا کا تعلق اپوزیشن سے ہوتا تو اب تک وہ پکڑ لیا جاتا، چونکہ اس مافیا کا تعلق سرکاری پارٹی اور حکومت سے ہے، اس لیے اب تک اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم صاحب مافیا کو خوب جانتے ہیں اس لیے انہیں اپنی بے بسی کا بھی پتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان آٹے اور چینی کا بحران پیدا کرنے والے مافیا کو جاننے کے باوجود کیوں گرفتار نہیں کرتے؟ کیا طاقتور مافیا کو اسی طرح غریبوں کا خون چوسنے کی کھلی چھوٹ ملی رہے گی؟ حکومت نے مہنگائی کے مارے عوام کو مافیاز کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ امیر جماعت اسلامی کہتے ہیں: موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے آٹا اور چینی مافیا کے ساتھ ساتھ لینڈ اور ڈرگ مافیا بھی طاقتور ہوگیاہے، یہ مافیاز حکومتی صفوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، حکومت طاقتور مجرموں کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے۔
سنا تم نے سچائی کیا ہے! اور جہاں تک سابقہ حکومت کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں اور قرض کی واپسی کا تعلق ہے تو اس کا جواب بھی سن لو۔ ایک طرف پی ٹی آئی کی حکومت نے اگر 5 ہزار ارب کی ادائیگی کی ہے تو دوسری طرف صرف ایک سال میں ریکارڈ 12ہزار ارب کا قرضہ لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کسی بھی بڑے منصوبے پر کام نہیں ہورہا، نہ ہی ترقیاتی فنڈ جاری کیے جارہے ہیں، حکومتی ارکان سادگی کی اعلیٰ مثال ہیں، وزیراعظم قومی خزانے سے کچھ نہیں لیتے، غیر ملکی دوروں کا خرچہ ان کے دوست اٹھاتے ہیں، تو پھر پیسہ آخر جا کہاں رہا ہے؟“

حصہ