سوئیں گے حشر تک

653

حمیرا مودودیؒ/ مرتب: اعظم طارق کوہستانی
تیسری قسط
آخر اکر ۲۹ ؍ اپریل ۱۹۵۵ء کو قانونی سقم کی بنا پر اباجان ۲۵ ماہ کی قید و بند کے بعد رہا ہو کر گھر آ گئے ۔ وہ بڑا ہی خوشیوں والا مبارک دن تھا ۔ ہمارا گھر پھولوں ،ہاروں اور مٹھائیوں سے بھر گیا ۔ہر طرف سے مبارک ،سلامت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ ساراد ن خوشیوں میں گزر گیا ۔ جب رات ہوئی تو ہم سب سونے کے لیے لیٹ گئے ۔خوشی اور تھکاوٹ کے مارے عشا بھی نہیں پڑھی کہ یکدم اماں جان کی آواز کانوں میں پڑی: ’’ذراد یکھو کتنی بے شرمی کی بات ہے،بجائے شکرانے کے نفل پڑھنے کے اُنھوں نے فرض نماز بھی نہیں پڑھی ۔جب باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو یہ کیسے نفل پڑھ پڑھ کر یں مانگ رہے تھے ۔ بس نکل گیا مطلب ! اب تھوڑی کبھی اللہ سے واسطہ پڑنا ہے ! ‘‘ یہ سنتے ہی ہم اُٹھے اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگے ۔
اس پوری رات اماں جان شکرانے کے نفل پڑھتی رہیں، یعنی اُنھوں نے سزائے موت والی رات جو منت مانی تھی (کہ جب میاں خیریت کے ساتھ گھر واپس آئیں گے تو جس طرح آج رات حاجت کے ۱۰۰ نفل پڑھے ہیں اسی طرح شکرانے کے ۱۰۰ نفل پڑھوں گی ) اس کو پورا کر رہی تھیں ۔لیکن اس مرتبہ اُنھوں نے چاے کا تھرموس اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد چاے پیتی تھیں جب کہ سزائے موت کی خبر سننے کی اس ہولناک رات میں بالکل چاے نہیں پی تھی ۔۔۔۔سخت گرمی کا موسم تھا ۔صبح کو اماں جان بہت ہنسیں اور کہنے لگیں کہ انسان بھی کتنا ناشکرا ہے ۔جب میاں کی جان کے لالے پڑے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آ رہی تھی تو یہ سو نفل بہت ہلکے تھے ۔نہ نیند آئی ،نہ تھکاوٹ محسوس ہوئی، نہ طبیعت بوجھل ہوئی اور نہ دھیان ہی ادھر ادھر ہوا ۔جو الفاظ زبان سے نکل رہے تھے وہی دل سے بھی نکل رہے تھے ۔کمر بعد میں جھکتی تھی دل پہلے جھک جاتا تھا ۔لیکن کل رات کبھی نیند آتی تھی ،کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی اور کبھی سر میں درد ہوتا تھا ۔ وہ ’’ جذب اندرون ‘‘ سرے سے نصیب ہی نہ ہوا جو اس مرتبہ ملا تھا ۔ وہ ساتھ میں توبہ اور استغفار بھی کر رہی تھیں ۔سچ ہے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتے چاہے ساری عمر سجدے میں گرے رہیں ۔
ایک روز اباجان نے ہمیں جیل کے حالات بتائے کہ جب لاہور سے انھیں ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کے وقت وہاں پہنچے ، جو کمرہ اباجان کو دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈ پمپ تھا ۔ وہ اے کلاس کے قیدی کے کمرے میں پہنچے تو سی کلاس کا ایک مشقتی جو انھیں خدمت کے لیے دیا گیا تھا ،بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا ۔ تقریباً ۴۰ سال کا خوب مضبوط جسم کا تنومند آدمی تھا ۔ پہلے تو اس نے اباجان کو غور دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا ۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا ۔ پھر ہینڈ پمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگے : ’’ میاں جی نہا لیجیے‘‘۔۔۔ ابا جان غسل خانے سے جو نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر ان کے لیے چارپائی بچھا کر بستر کر دیا گیا ہے ۔پوچھا : ’’ پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی ۔یہ کیوں بچھائی ہے ؟ ‘‘ تو وہ کہنے لگا :’’ گرمی بہت ہے میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا تا کہ کمرہ ٹھنڈا رہے اور آپ دوپہر کو آرام کر سکیں ۔‘‘ جتنی دیر میں ابا جان نے ظہر کی نماز پڑھی اتنی دیر میں اس نے کھانا تیار کر لیا اور بڑے سلیقے سے لا کر اباجان کے سامنے رکھا ۔ ساتھ میں بڑی معذرت کرتا رہا کہ مجھے آپ کے ذوق کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے ۔بس جلدی میں جو ہو سکا کر لیا ہے ۔
پھر اس نے نوٹ کر لیا کہ اباجان کس وقت کون سی دوائیاں کھاتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ ناشتے کی ، دوپہر کے وقت کھانے کی اور رات کو کھانے کی صحیح صحیح ادویہ ان کے سامنے رکھتا تھا ۔ کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ تم نے صبح کے وقت کی دوا نہیں رکھی ہے ۔اباجان نے بتایا :’’ اس نے جیل میں میری ایسی خدمت کی اور اس محبت سے خدمت کی کہ میں حیران رہ جاتا۔‘‘
ایک دن اس قیدی نے بتایا کہ جب اس کوارٹر میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آ رہا ہے جس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں ! بس اس کو راہ راست پر لانا ہے ۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامہ پر دستخط کر دے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے بس تمہارا کام اسے ہر طرح تنگ کرنا ہے ۔کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے ۔بس جی میں کوارٹر میں بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں کہ آج کیسے شخص سے پالا پڑتا ہے ؟ آخر میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں کسی سے کم تو نہیں ہوں! پھر جب آپ اندر آئے اور میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور سوچتا رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کوئی خطرہ ہو سکتا ہے ؟ میاں جی آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کر لیا ۔
پھر اباجان نے بتایا: ’’جب میں تفہیم القرآن لکھنے میں مصروف ہو جاتا تھا یا جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ بس وہ بیٹھا ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھتا رہتا تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے کہ بقر عید آگئی۔ اتفاق سے جو راشن جیل میں دیا جا تا تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا ہی نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہوگئیں یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہو چکا تھا۔ملازم سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں اب آپ کو ناشتا کیسے دوں؟ میں نے اس سے کہا کہ رات کو جو چنے کی دال اور روٹی بچی تھی وہی گرم کر کے لے آئو ۔کہنے لگا وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا ! بھلا عید کے دن کوئی رات کی باسی دال روٹی کھاتا ہے؟ میں نے اسے سمجھایا کہ تم میری فکر نہ کرو میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھالوں گا (چونکہ اباجان صبح اٹھ بجے ناشتہ کرنے کے عادی تھے اور اپنے معمولات میں وقت کے سخت پابند تھے اس لیے اُنھوں نے آرام سے دال روٹی کا ناشتہ کر لیا ۔یہاں پر دادی اماں کی تربیت رنگ لا رہی تھی جو انھیں کبھی سونے کا نوالہ کھلاتی تھیں اور کبھی چٹنی روٹی ) جس وقت میں ناشتہ کر رہا تھا تو کسی کے سسکیاں بھر بھر کر رونے کی آواز آئی ۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی ملازم بیٹھا رو رہا تھا ۔پوچھا کہ کیا بال بچے یاد آ رہے ہیں ؟کہنے لگا کہ میں آپ کو دال روٹی کھاتے دیکھ کر رو رہاہوں ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عید کے دن رات کی باسی دال روٹی تو ہم غریبوں نے بھی کبھی نہیں کھائی ۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں آپ نے بھلا کہاں کھائی ہو گی؟ میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی یہ راستہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور میں بڑی خوشی سے اس راہ پر چل رہا ہوں ۔اگر کبھی بالکل بھوکا بھی رہنا پڑا تو میں آ رام سے رہ لوں گا ۔ تم میری وجہ سے رنجیدہ نہ ہوا کرو۔
میں تو ناشتہ کر کے تفہیم القرآن لکھنے بیٹھ گیا تھا لیکن ملازم بے چارے نے احتجاجاََ ناشتہ نہ کیا (اگرچہ اس کے لیے دال روٹی بچی ہوئی رکھی ہوئی تھی ) ۔اتنے میں کوارٹر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا ۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک سنتری ناشتے دان ،بڑے بڑے پیکٹ اور گٹھڑیاں اٹھائے کھڑا تھا کہ مولانا صاحب آپ کے چاہنے والے تو فجر کے وقت ہی یہ چیزیں لے آئے تھے اور جیل کے دروازے پر کھڑے تھے لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب کا دفتر عید کی نماز کے بعد کھلا ۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تلاشی اور جانچ پڑتال ہوئی اس لیے دیر لگ گئی ۔ اب جو ملازم نے وہ پیکٹ ،ناشتے دان اور گٹھڑیاں کھولیں تو ان میں انواع و اقسام کی بے شمار نعمتیں تھیں ۔ میں نے اپنے جیل کے ساتھی سے کہا دیکھو یہ سب تمھارے لیے آیا ہے کیونکہ تم ہی اداسی میں بھوکے بیٹھے ہو اب خوب جی بھر کے کھائو اور باقی چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آئو ۔مگر ملازم کف افسوس مل رہا تھا کہ کاش ! وہ دال روٹی میں نے آپ کو دینے بجائے کوئوں کو کھلا دی ہوتی ۔میرے بہت کہنے پر اس نے ناشتہ کیا اور باقی ساری چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آیا اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کہتا کہ میرے میاں جی کے لیے یہ سب چیزیں آئی ہیں ۔اُنھوں نے تمھیں بھجوائی ہیں!
عید کے روز دوپہر ہوئی تو اسی طرح دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور پھر اسی طرح ناشتے دان اور ہانڈیاں کپڑے میں بندھی ہوئی آگئیں ۔ایسے ایسے کھانے آئے کہ ملازم تو حیران رہ گیا ۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور باقی قیدیوں میں بانٹ آیا ۔ رات کو پھر اتنا ہی کھانا آ گیا ۔ الغرض عید کے تین دن ہمارے رفقا نے ملتان جیل میں اتنا زیادہ اور ایسی ایسی انواع و اقسام کا کھانا پہنچایا کہ سارے جیل والے اش اش کر اٹھے ۔‘‘
ادھر اباجان ہمیں یہ سب کچھ بتا رہے تھے ،ادھر اماں جان نے ہمیں کہا:’’ دیکھو سورۃ مریم کی آخری آیات میں بھی یہی بات کہی گئی ہے ۔ إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَنُ وُدّاً[سورۃ مریم۹۶]ترجمہ : کہ جو اہل ایمان نیک اعمال کرتے ہیں رحمن ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے ۔‘‘ وہ اسی طرح زندگی کے واقعات کو آیات اور احادیث کے ساتھ منطبق کر کے ہمیں ان کا مطلب سمجھایا کرتی تھیں ۔آج اخبار پڑھتے اور ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھتے ہوئے قرآن کی آیات اور احادیث یاد آتی ہیں ۔ساتھ ہی اماں جان کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں :’’ تم عمل کر کے تو دیکھو پھر آیتیں اور حدیثیں خوداُٹھ کر تم کو اپنا مطلب سمجھا دیں گی۔‘‘
اماں جان نے ایک مرتبہ دادی اماں سے التجا کی کہ آپ کسی کو بددعا نہ دیں۔ آپ کی دعا اور بددعا حرف بہ حرف لگتی ہے ۔یہ وہ موقع تھا جب ۱۹۵۳ میں اباجان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا کہ ’’ جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے یا اللہ ! تو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ اس کا آدھا دھڑ گل جائے ۔‘‘ اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہوگیا۔یہ خبر پڑھ کر ہم حیران رہ گئے کہ دادی اماں کی بددعا غلام محمد کو کیسی لگی ۔ (جاری ہے)۔

مولانا مودودی کے بارے میں اعجاز شفیع گیلانی کی راے

(بانی گیلپ سروے)

مولانا کی فکر کی ایک بڑی بات یہ ہے کہ ان کے نام کے بغیر یہ فکر بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو متحرک کرنے میں اگر آپ بیسویں صدی کے دس نام لیں تو مولانا ان میں ضرور شامل ہوں گے۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ وہ شخص جس کی اپنی زندگی زیادہ تر کتابوں کو لکھنے میں گزاری۔ وہ کیسے ملک کے سیاسی معاملات میں اتنا زیادہ متحرک تھا اور وہ کیسے ایک علیحدہ سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوا۔ مولانا نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو دینی تعلیم اور قرآنی تعلیمات کے سیکھنے کی طرف راغب کیا۔ جدید موضوعات پر ان کی گہری نظر رہی۔ پاکستان میں دینی لحاظ سے ان کی کتابوں کا نام سرفہرست آتا ہے۔

حصہ