خالص توبہ

1640

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
۔’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں۔‘‘(سورہ تحریم: 8)۔
توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندے کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا اور طریقِ بندگی کی طرف پلٹ آیا۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہوگیا۔ پھر سے نظرِ عنایت اس بندے کی طرف مائل ہوگئی۔ مذکورہ آیت میں توبۃ النصوح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں۔ توبہ کو نصوح کہنے سے مراد ایسی خالص توبہ ہے جس میں ریا کاری شامل نہ ہو، اور آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے، اپنے گناہوںٍ سے توبہ کرکے اپنے آپ کو انجام بد سے بچا لے۔ گناہوں کے ارتکاب سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے توبہ کے ذریعے سے اس کی اصلاح کرے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابی بن کعبؓ سے توبۃ النصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا ’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘
ایک روایت میں حضرت عمرؓ نے توبۃ النصوح کی تعریف اس طرح بیان کی ہے: ’’توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار اس کے ارتکاب کا ارادہ بھی نہ کرے۔‘‘ حضرت علیؓ نے توبۃ النصوح کی تعریف اس طرح فرمائی: ’’توبہ کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہئیں:
-1 جو کچھ ہوچکا ہے اس پر نادم ہو۔
-2 اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو اُن کو ادا کر۔
-3 جس کا حق مارا ہو اُس کو واپس کر۔
-4 جس کو تکلیف پہنچائی ہو اُس سے معافی مانگ۔
-5 آئندہ کے لیے عزم کرلے کہ اس گناہ کا ارادہ تک نہ کرے گا۔
-6 اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تُو نے اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا، اور اس کو اطاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تُو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔
توبہ درحقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہونا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے، ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کرلینا کہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے یا کسی بدنامی کا باعث ہے، توبہ کے زمرے میں نہیں آتا۔ توبہ کے لیے شرط یہی ہے کہ جس وقت آدمی کو احساس ہوجائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، اُسی وقت توبہ کرلینا چاہیے، اور جس شکل میں بھی ہو، بلا تاخیر اس کی تلافی کرنی چاہیے۔ توبہ بار بار کرنا اور پھر اس کو توڑتے چلے جانا دراصل گناہ کا اعادہ کرنا ہے۔ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہونا چاہیے، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری نہیں۔ توبہ سچے دل سے کرنا اور اس بات کا عزم کرنا کہ وہ پھر گناہ کا اعادہ نہ کرے گا۔ اگر کسی بشری کمزوری کی بنا پر اسی گناہ کا اعادہ ہوجائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہوگا البتہ بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنا چاہیے، اور زیادہ سختی سے اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہوگا۔ ہر مرتبہ جب بھی گناہ یاد آئے اسے توبہ سے بھلانے کی کوشش کرے اور اپنے گناہ پر شرمندگی کا احساس غالب آجائے۔ اس لیے جس شخص نے حقیقتاً اللہ کے خوف سے گناہوں سے توبہ کی وہ خدا کی نافرمانی پر مُصر نہیں ہوسکتا۔
توبہ اگر سچے دل سے کی جائے تو ہوسکتا ہے اللہ اسے قبول کرلے۔ مگر گناہ گاہ کی توبہ قبول کرنا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر لازم نہیں، بلکہ یہ تو اس کی سراسر مہربانی اور عنایت ہے کہ وہ گناہ بھی معاف کرے اور انعام بھی دے۔ بندے کو اس سے معافی کی امید ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر بار بار گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے اس کو معافی مل جائے گی۔ سورۃ النساء آیت 17 میں ارشادِ ربانی ہے: ’’ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق انہی لوگوںکے لیے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظرِ عنایت سے پھر متوجہ ہوجاتا ہے، اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی۔ اس طرح توبہ ان کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے دردناک سزا تیار کررکھی ہے۔‘‘
اس آیت میں یہ وضاحت فرما دی گئی ہے کہ میرے ہاں معافی صرف اُن بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بناء پر قصور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہوکر اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ مگر توبہ اُن کے لیے نہیں ہے جو خدا سے بے خوف اور بے پروا ہوکر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ بندے کی توبہ بس اسی وقت تک قبول کرتا ہے جب تک آثارِ موت شروع نہ ہوں۔ کیوں کہ امتحان کی مہلت جب پوری ہوگئی اور کتابِ زندگی ختم ہوچکی تو اب پلٹنے کا کون سا موقع ہے!‘‘
ارشادِ ربانی ہے: ’’البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو اس کے بعد توبہ کرکے اپنے طرزِعمل کی اصلاح کرلیں۔ اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے، ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی، ایسے لوگ تو پکے گمراہ ہیں۔‘‘ (سورہ مائدہ‘ آیت 39)
’’یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرے تو وہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (سورہ انعام آیت 54)
توبہ کے بعد کفارے کی صورت سورہ نساء میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ دوسرے مومن کو قتل کرے اِلاّ یہ کہ اس سے چُوک ہوجائے، اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کردے اور مقتول کے ورثا کو خون بہا دے، اِلاّ یہ کہ وہ خون بہا معاف کردیں۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے، اگر مقتول کسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو، تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا، پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو ماہ کے روزے رکھے۔ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے، اور اللہ علیم و دانا ہے۔‘‘ (آیت 90)
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مومنین کی صفات میں سب سے پہلی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں، توبہ کرتے ہیں، اور جب بھی اُن کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے تو فوراً اس پر نادم ہوکر اللہ کی طرف پلٹ جاتے ہیں، نہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر ان کا مواخذہ نہیں کرتا جس کی انسان نے خود اصلاح کرلی ہو۔ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلب کی توبہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ضروری ہے، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں اپنا مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پاتی ہے جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوتا ہے، وہ جاتی رہتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا ہو، وہ اپنے گرنے کو محسوس کرے اور اس کو برا سمجھے۔
قرآن پاک میں توبہ کرنے والوں کے لیے ’’تائبون‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے۔ جب بھی اسے اپنی بھول، غفلت یا خود مختارانہ رویّے کا احساس ہوتا ہے، وہ شرمندگی کے ساتھ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو تازہ کرلیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ، خدا کی طرف بار بار پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس پلٹنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے۔ ان صفات کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر 112 میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو، پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والا، اس کی بندگی بجا لانے والا، اس کی تعریف کے گن گانے والا، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والا، اس کے آگے رکوع اور سجدہ کرنے والا، نیکی کا حکم دینے والا، بدی سے روکنے والا، اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والا… اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں۔ اور اے نبیؐ ان مومنوں کو خوش خبری سنائو۔‘‘
سورہ توبہ میں ان تین مومن بندوں کی معافی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے کیا ہے جنہوں نے غزوۂ تبوک کے موقع پر نفس کی ذرا سی کمزوری پر سزا پائی۔ یہ تینوں مومن مسلمان کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ تینوں سچے مومن تھے، اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سے تھے، جن کی صداقت ہر شبہ سے بالاتر تھی۔ کعب بن مالک بدر کے سوا ہر غزوے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ غزوہ تبوک کے سلسلے میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہوئیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کے لیے حاضر ہوئے جو اس غزوہ میں پیچھے رہ گئے تھے، ان میں 80 سے زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن کعب بن مالکؓ‘ ہلال بن امیہؓ اور مرارہ بن ربیعؓ تھے۔ منافق جھوٹے عذر پیش کرتے اور آپؐ ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے۔ پھر ان تینوں کی باری آئی۔ ان تینوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کیا۔ آپؐ نے ان تینوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کرکے فیصلے کو ملتوی کردیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔
احادیث کی کتابوں میں حضرت کعب بن مالکؓ نے اپنا واقعہ جو اپنے بیٹے کو سنایا، وہ تفصیل سے موجود ہے۔ ان کا بیان ہے: ’’غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسلمانوں سے جنگ میں شرکت کی اپیل کرتے، میں اپنے دل میں ارادہ کرلیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروںگا، مگر پھر واپس آکر سُستی کرجاتا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہونے میںکیا دیر لگے گی۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی، یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستے ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سُستی مانع ہوئی حتیٰ کہ وقت نکل گیا۔ اُس زمانے میں جب کہ میں مدینہ میں رہا، میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور کررکھا ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسبِ معمول آپؐ نے پہلے مسجد میں آکر دو رکعت نماز ادا کی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنی معذرتیں لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کیں۔ یہ 80 سے زیادہ آدمی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی بناوٹی باتیں سنیں، ان کے ظاہری عذر قبول کیے اور باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا ’’خدا تمہیں معاف کرے‘‘۔ پھر میری باری آئی، میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ’’تشریف لایئے، آپ کو کس چیز نے روکا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’خدا کی قسم اگر میں اہلِ دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بناکر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا۔ باتیں بنانا تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر میں آپؐ کے متعلق یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کرکے میں نے آپؐ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپؐ کو مجھ سے پھر ناراض کردے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپؐ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں جسے پیش کرسکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا‘‘۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا اب اٹھ جائو اور انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ تمہارے معاملے میں کوئی فیصلہ کرے۔‘‘
میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تُو نے کوئی عذر کیوں نہ کردیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہوکر کوئی بات بنادوں، مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں مرارہ بن ربیعؓ اور ہلال بن امیہؓ نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی، تو مجھے تسلی ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا، مگر کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں میرا کوئی واقف کار نہیں ہے۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسبِ معمول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار کرتا رہ جاتا کہ جواب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ جنبش کریں۔ نماز میں نظر چرا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھتا کہ آپؐ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں، مگر وہاں یہ حال تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے رہتے اور جہاں میں نے سلام پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف سے نظر ہٹالی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچازاد بھائی اور بچپن کے دوست ابوقتادہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا، مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ’’ابوقتادہ میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسولؐ سے محبت نہیں رکھتا؟‘‘ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچھا وہ خاموش رہے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا ’’اللہ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ اس پر میرے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے قبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ خراسان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں نے کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا ’’ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر بہت ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کردیا جائے، ہمارے پاس آجائو ہم تمہاری قدر کریں گے‘‘۔ میں نے کہا ’’ایک اور بلا نازل ہوئی‘‘۔ اسی وقت اس خط کو چولہے میں ڈال دیا۔ چالیس دن اسی حالت میں گزر چکے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیحد ہوجائو۔ میں نے پوچھا ’’کیا طلاق دے دوں؟‘‘ جواب ملا: نہیں بس الگ رہو۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جائو اور انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اس معاملے میں فیصلہ کرے۔ پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا تھا اور اپنی جان سے بے زار ہورہا تھا کہ یکایک ایک شخص نے پکار کر کہا ’’مبارک ہوکعب بن مالک‘‘۔ میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ یہ میری معافی کا حکم ہوگیا ہے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبویؐ کی طرف چلا۔ دیکھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ’’تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ معافی حضورؐکی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے؟‘‘ فرمایا ’’خدا کی طرف طرف۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کردوں؟‘‘ فرمایا ’’کچھ رہنے دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبرکا حصہ رکھ کر باقی سب صدقہ کردیا۔ پھر خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی اس پر تمام عمر قائم رہوں گا۔‘‘

حصہ