مشینی خواب

244

مہرین فاطمہ
چور ایک بنگلے کی دیوار کود کر اندر آیا ۔ذراسی کوشش کے بعد وہ ایک کھڑکی کھولنے میں کامیاب ہو گیا اور کھڑ کی سے کمرے میں داخل ہو گیا۔اس نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا ،دیواروں کے ساتھ میزیں لگی ہوئی تھیں اور ان میزوں پر طرح طرح کے سائنسی آلات رکھے تھے۔
ہال کے بیچ میں ایک آٹھ فٹ اونچا شیشے کا گولا موجود تھا ،جو ایک لکڑی کے اسٹینڈ پر کھڑا تھا۔
اس بنگلے میں ایک سائنس داں پروفیسر تابانی اکیلے رہتے تھے۔
چور نے ایک الماری کا پٹ کھولا تو اسے کہیں گھنٹی بجنے کی سی آواز سنائی دی۔
اس نے وہم سمجھ کر توجہ نہ دی۔وہ ابھی اپنی مطلب کی چیزوں کا جائزہ لے ہی رہا تھاکہ فضا میں پولیس سائرن گونج اْٹھے۔
دوسرے ہی لمحے اس نے بھاگنے کا ارادہ کیا ،مگر اسی دوران باہر سے آواز آئی:’’ہم نے بنگلے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔
پولیس تمھیں ایک منٹ کی مہلت دیتی ہے ،بغیر کوئی چالا کی دکھائے باہر آجاؤ،ورنہ ہم اندر آجائیں گے۔‘‘
وہ جیل نہیں جانا چاہتا تھا اسی لیے وہ چھپنے کی جگہ تلاش کررہا تھا۔اچانک اس کی نظر شیشے کے گولے پر پڑی۔گولے کے اگلے حصے پر بہت سارے بٹن لگے تھے۔
اس نے کئی بٹن دبائے۔آخر ایک بٹن دبانے سے دروازہ کھل گیا۔ا س نے گولے میں داخل ہو کر درواز ہ بند کر لیا۔دروازہ بند ہوتے ہی اس پر غنودگی طاری ہو گئی۔
اسی وقت اس کے ذہن میں مصر کی ملکہ قلوپطرہ کا خیال آیا اور پھر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا۔
آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کوئی صحرا ہے۔پولیس سے جان بچنے پر وہ خدا کا شکر بھی ادا کررہاتھا اور ڈربھی رہا تھا کہ کسی بڑی مصیبت میں نہ پھنس جائے۔اتنے میں دور سے دو گھوڑ سوار آتے دکھائی دیے۔اس نے اپنی پستول نکال لی۔گھوڑسوار قریب آکر گھوڑے سے اْتر گئے۔
انھوں نے اجنبی زبان میں کچھ کہا۔وہ حیرت سے منہ کھولے انھیں دیکھتا رہا۔دونوں نے اسے زبردستی گھوڑے پر بٹھالیا اور ایک طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں اسے چھوٹے بڑے اہرام نظر آئے،پھر اسے قلوپطرہ کا خیال آیا۔اب وہ سمجھا کہ وہ گولادراصل ٹائم مشین ہے اور علاقہ مصر کا ہے۔
وہ لوگ اہراموں کے پیچھے بنے قلعہ نمامحل میں داخل ہورہے تھے ،جس کی دیواروں پر تیر اندازوں کے دستے کھڑے تھے۔پہرے دار مستعد کھڑے تھے۔غرض بہت چہل پہل تھی۔اندر پہنچے تو دیکھا کہ دربار سجا ہوا تھا۔لوگ قطاردرقطار کھڑے اور بیٹھے تھے۔
جب کہ بالکل سامنے ہیرے جواہرات سے مزین تخت پر نہایت حسین وجمیل عورت بیٹھی تھی۔سب درباری حیرت سے آنے والے عجیب وغریب انسان کو دیکھ رہے تھے۔اس عورت نے اپنی زبان میں چلا کر ان دونوں سے پوچھا۔
سب لوگ اب غصے سے مستقبل سے آنے والے کو دیکھنے لگے۔
تخت پر بیٹھی عورت نے زور دار آواز سے کسی کو طلب کیا۔ایک انتہائی بوڑھا آدمی آیا اور ادب سے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔عورت نے بوڑھے کو کوئی حکم دیا۔بوڑھا اس کے قریب آیا اور ایک انگوٹھی پہنائی۔انگوٹھی پہنتے ہی اس کا سر ہلکا سا سْن ہو گیا،لیکن اب وہ ان کی بات سمجھ سکتا تھا۔
عورت نے پوچھا:’’تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’میں مسلمان ہوں اور ملک پاکستان سے آیا ہوں۔‘‘
’’یہ پاکستان کون سی جگہ ہے ؟‘‘عورت نخوت سے بولی:’’ہم نے تو ایسا نام کبھی نہیں سنا۔ہم قلوپطرہ ہیں۔عظیم مصر کی ملکہ۔
تمھارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘
اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
ملکہ نے پھر سوال کیا۔ملکہ کو گھورتے ہوئے وہ یہ یقین کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت ہے۔کوئی جواب نہ پاکر ملکہ نے کسی جادو گر کو طلب کیا۔
جادو گر بھی اسے دیکھ کر حیرت زدہ تھا۔ملکہ نے جادو گر سے پوچھا:’’تم بتاؤ،یہ کس مقصد سے یہاں آیا ہے۔‘‘
’’ملکہ عالیہ!میں بہت حیرت زدہ ہوں ،کیوں کہ جو میں دیکھ رہا ہوں ،وہ آپ لوگ نہیں دیکھ رہے۔یہ آدمی وقت کو شکست دے کر ہمارے زمانے میں آگیا ہے۔
‘‘جادو گر زامون نے جواب دیا۔
’’میں اسے ختم کرنے کا حکم دیتی ہوں۔‘‘
جلاد اس کی طرف تلوار لے کر لپکا۔اس نے بھی اپنی پستول سے گولی چلادی۔دیکھتے ہی دیکھتے لمبا چوڑا جلاد زمین پر گر کر بے حس وحرکت ہو گیا۔دھماکے کی آواز سے سب درباری خوف زدہ ہو کر اِدھر اْدھر بھاگنے لگے۔
جب سب درباری پیچھے ہٹ گئے تو وہ داخلی دروازے تک آیا اور ایک گھوڑے پر بیٹھ کر اسے سر پٹ دوڑ ادیا۔صحرا پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا،ایک سوار اس کے پیچھے آرہا تھا۔وہ گھوڑے سمیت ایک غار میں داخل ہو گیا ،لیکن گھوڑے سے اْٹرتے ہوئے گرا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیر اچھا گیا۔
آنکھ کھلی تو دیکھا ،وہ اسی گولے میں موجود ہے ،جس میں داخل ہو کر وہ چھپا تھا۔وہ اس جادوئی گولے سے نکل آیا۔باہر پولیس اور بوڑھا اسی جگہ کھڑے تھے۔پولیس نے اسے گھیرلیا۔
اسے گولے سے نکلتا دیکھ کر پروفیسر نے کہا:’’ارے ،اس خوابیدہ گولے کا تو مجھے خیال ہی نہیں آیا۔‘‘
بوڑھا سائنس دان ہنسنے لگا۔پولیس والے بھی مسکرانے لگے۔
’’یہ ایک خواب دکھانے والی مشین ہے۔اس مشین میں جا کر کوئی بھی اپنی مرضی کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ ‘‘پروفیسر نے بتایا تو سب ہنسنے لگے۔چور کو وہ بوڑھا ایک انتہائی مکار انسان لگنے لگا۔
اس نے یہ مشین یقینا کسی خاص مقصد کے لیے بنائی ہو گی۔اسے یاد آیا کہ وہاں اسے ایک انگوٹھی پہنائی گئی تھی۔اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے اس نے انگوٹھی اْنگلی سے اْتارنی چاہی،مگر اْنگلی خالی تھی۔پولیس کے ایک اہلکار نے اسے پکڑ کروین میں بیٹھا دیا۔

حصہ