فرح ناز فرح
فاطمہ بہت پیاری بچی تھی اپنے دادا دادی کی بہت لاڈلی تھی ان کے گھر کے آنگن میں ایک آم کا درخت تھا جس پر صبح سویرے ڈھیروں پرندے نیچے بھی آجاتے اور دانہ چگتے ان میں ایک لال چونچ والا پرندوں کا جوڑا فاطمہ کو بہت اچھا لگتا تھا لیکن جب وہ ان کے پاس جاتی وہ اڑ جاتے اور وہ اداس ہو جاتی۔ آج فاطمہ کی سالگرہ تھی سب ہی بہت خوش تھے فاطمہ صبح ہی صبح اٹھ گئی اور دادی کے ساتھ پرندے دیکھنے آنگن میں آگئی آج لال چونچ والا پرندوں کا جوڑا دانہ چکنے نہیں آیا وہ بہت اداس ہو گئی دادی اماں نے کہا ہو سکتا ہے وہ اپنی نانی کے یہاں گئے ہوں کسی کی سالگرہ میں جیسے آج میری فاطمہ کی سالگرہ ہے اور فاطمہ سب بھول کر سالگرہ کی باتیں کرنے لگی۔ سارے مہمان آچکے تھے سب نے بہت اچھے اچھے گفٹ دیے تھے علاوہ شیری چاچو کے وہ ہمیشہ سرپرائز گفٹ دیتے تھے جو فاطمہ کو بہت اچھے لگتے تھے۔ آخر کار انتظار کے بعد شیری چاچو کا سرپرائز گفٹ بھی آگیا ایک سنہری پنجرے میں وہی لال چونچ والا جوڑا۔ فاطمہ نے چاچو کو خوب پیار کیا اور تالیاں بجائیں۔ اس پنجرے کو آم کے درخت کے نیچے رکھ دیا گیا فاطمہ رات تک ان کے پاس بیٹھی رہی۔ صبح سب سے پہلے وہ اس پنجرے کے پاس پہنچی، پرندوں کا شور سنائی دے رہا تھا اور بعض پرندے نیچے اتر کے بھی آرہے تھے لیکن وہ دونوں ایک طرف سہمے ہوئے بیٹھے تھے دادی نے نوٹ کیا کہ انہوں نے کھانا کھایا نہ پانی پیا ہے۔ دادی اماں اس طرح تو یہ بیمار ہو جائیں گے فاطمہ ان کو اداس دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ یہ کھانا کیوں نہیں کھارہے؟ دادی اماں نے فاطمہ کو اپنے پاس بیٹھایا اور کہنے لگیں بیٹا قید میں نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس یہ آزاد فضائوں میں اڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اگر ہم کو کوئی خوبصورت سے کمرے میں بند کر دے تو ہم کو کیسا لگے گا۔ ’’تو دادی جان ہم ان کو آزاد کر دیتے ہیں‘‘۔ ’’ٹھیک ہے آپ پنجرے کا دروازہ کھلو دیں‘‘ اور فاطمہ نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا پرندے باہر نکل کر اڑے اور دیوار کی منڈیر پر بیٹھ گئے دوبارہ نیچے آئے اور دانہ چگنے لگے اور اپنی مخصوص آوازیں نکالنے لگے دادی جان نے کہا کہ یہ آپ کا شکریہ ادا کررہے ہیں فاطمہ کو بہت مزہ آیا زور زور سے ہنسنے لگی وہ پرندے بہت دیر تک وہیں پھدکتے رہے لگتاتھا وہ فاطمہ کے دوست بن گئے ہیں۔