سارس سے کورونا تک

776

ابنِ عباس
اس دنیا میں آئے دن نئے نئے وبائی امراض سے نمٹنا پڑتا ہے ماضی میں دنیا بھرمیں آئے وبائی امراض کو تو چھوڑیےسارس وائرس سمیت آج کل چین میں کورونا نے جو رونا ڈال رکھا ہے اسی پر بات کر لیتے ہیں۔
دنیا میں کورونا وائرس کی وبا 2003 ءمیں سارس وائرس سے پھیلنے والی وبا سے بڑی ہے اور اس کے متاثرین کی تعداد بھی سارس کے مقابلے میں زیادہ ہو چکی ہے، تاہم کرونا وائرس کم مہلک ہے۔
سانس کی تکلیف پیدا کرنے والی بیماری سارس 2003 ء میں چین میں پھیلی تھی مگر اس نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک تقریباً 20ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں جو چین میں دسمبر میں سامنے آیا تھا۔
کرونا وائرس سے اب تک 427ہلاکتیں ہوئی ہیں جو کہ تمام کی تمام چین میں ہوئیں، تاہم یہ سارس کی وجہ سے ہونے والی 774 ہلاکتوں سے کہیں کم ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس وبا کو ایک ہنگامی صورت حال قرار دیا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ چین کے باہر اب تک 98 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں مگر کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔
برطانیہ میں کورونا وائرس کے دو کیسز پہلی مرتبہ رپورٹ ہوئے ہیںجبکہ زیادہ تر بین الاقوامی کیسز ان لوگوں میں سامنے آ رہے ہیں جو چین کے ہوبائی صوبے میں ووہان کے شہر کا سفر کر چکے ہیں جہاں سے اس وائرس کی ابتدا ہوئی تھی۔جبکہ جرمنی، جاپان، ویتنام اور امریکہ میں آٹھ کیسز میں متاثرین اس علاقے کا سفر کرنے والے افراد سے متاثر ہوئے ہیں۔
آئیے اب کورونا وائرس کا سارس سے موازنہ کر لیتے ہیں۔
چین میں 2003 میں پھیلنے والی سارس بیماری بھی کورونا وائرس کی ایک قسم تھی جس نے 26 ممالک کو متاثر کیا تھا۔
یہ نیا وائرس اب تک کم ممالک میں پھیلا ہے، اور بھلے ہی اس سے بین الاقوامی طور پر کہیں زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، مگر اس کی وجہ سے کافی کم اموات ہوئی ہیں۔
بدھ کو چین میں اس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد سارس کی وجہ سے سامنے آنے والے کیسز سے تجاوز کر گئی تھی۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق سارس کی وجہ سے تقریباً 30 ارب ڈالر (22 ارب پاؤنڈ) کا نقصان ہوا تھا، نئے آنے والے کورونا وائرس سے عالمی معیشت پر اس سے بھی زیادہ خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئےکئی بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوں، کار کمپنیوں اور ریٹیل اسٹورز نے چین میں اپنے کاروبار عارضی طور پر بند کر دیے ہیں۔جبکہ چین پر عالمی ادارہ صحت نے سارس کی وبا کی شدت کو چھپانے پر بھی تنقید کی تھی مگر اب تازہ ترین وائرس کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر اس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔ چین نے کئی شہروں میں اپنے کروڑوں شہریوں کو باقاعدہ قرنطینے میں ڈال دیا ہے۔
ہانگ کانگ میں شہری ایک فارمیسی کے باہر ماسک خریدنے کے لیے قطار بنائے کھڑے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نشاندہی بھی مشکل ہے اور اسے روکنا بھی انتہائی مشکل ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس وبا کو روکنا سارس سے زیادہ مشکل کیوں ہے؟
اس جواب کا تعلق چین سے نہیں ہے۔ اس نئے وائرس کے خلاف چین کے ردِعمل کی برق رفتاری اور وسعت کو بے مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ فرق اس وائرس کے انسانی جسم کے اندر کام کرنے کا طریقہ کار ہےجبکہ سارس ایک خوفناک انفیکشن تھا جو پوشیدہ نہیں رہتا تھا۔ مریض صرف تب ہی متاثر ہوتے تھے جب ان میں اس کی علامات ظاہر ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ سے بیماروں کو الگ کرنا اور کسی بھی ممکنہ طور پر متاثر شخص کو قرنطینے میں ڈالنا آسان تھا۔
مگر اس نئے وائرس کو تلاش کرنا مشکل ہے اس لیے اسے روکنا انتہائی مشکل ہے۔
اگر وائرس کے نکتہ نظر سے دیکھیں، تو ارتقائی اعتبار سے اس کی بقا کی حکمتِ عملی سارس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
اندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ بیمار لوگ خود ہسپتال آئیں، آپ کو خود باہر جا کر انھیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
اور اب ایسے تفصیلی کیسز سامنے آ رہے ہیں جس میں پایا گیا ہے کہ لوگوں میں علامات ظاہر بھی نہیں ہو پاتیں کہ وہ وائرس پھیلنے کا سبب بننے لگتے ہیں۔
عام طور پر ہماری توجہ صرف اس بات پر رہتی ہے کہ کوئی وائرس کتنا ہلاکت خیز ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت مل کر اس کے خطرے کی حقیقی نوعیت بتاتی ہے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ اس قدر خطرناک وائرس سے چین کیسے نمٹ رہا ہے؟
اس کا سیدھا سے جواب ہے کہ تبت میں ایک تصدیق شدہ کیس کا مطلب ہے کہ یہ وائرس چین میں تقریباً ہر خطے میں پہنچ چکا ہے۔
چین کا وسطی صوبہ ہوبائی، جہاں تقریباً تمام ہلاکتیں ہوئی ہیں، وہ لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے۔ تقریباً چھ کروڑ کی آبادی والے اس صوبے میں ہی ووہان شہر ہے جہاں سے اس وائرس کی ابتدا ہوئی تھی۔
اس شہر کو تقریباً سیل کر دیا گیا ہے اور وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے کئی ٹرانسپورٹ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ہوبائی جانے والے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ گھر سے دفتری کام کریں۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مقیم ہوبائی کے شہریوں کو ‘جتنا جلد ممکن ہو سکے واپس لانے کے لیے چارٹرڈ طیارے بھیجے گا۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ ان ‘عملی مشکلات کی وجہ سے کیا جا رہا ہے جس کا سامنا چینی شہریوں کو بیرونِ ملک کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ وائرس دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ممالک اپنے شہریوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ چین کا غیر ضروری سفر نہ کریں۔
اندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔
چین کی جانب سے اس وائرس سے بچائو کی لیے کی جانے والی کوشیشوں پر عالمی ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ جس کے مطابق ووہان سے غیر ملکی شہریوں کا سینکڑوں کی تعداد میں رضاکارانہ انخلا جاری ہے۔
برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، سنگاپور اور نیوزی لینڈ ممکنہ طور پر ایسے تمام شہریوں کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینے میں ڈال دیں گے تاکہ ان پر علامات کے لیے نظر رکھی جا سکے اور مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
آسٹریلیا کا منصوبہ ہے کہ وہ چین سے نکالے گئے تمام شہریوں کو اپنے مرکزی خطے سے 2000 کلومیٹر دور کرسمس آئیلینڈ نامی ایک جزیرے پر قرنطینے میں رکھا گا۔
یہاں انھیں ایک حراستی مرکز میں رکھا جائے گا جہاں پر عموماً پناہ کے متلاشیوں کو رکھا جاتا ہے۔
کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں اور اس کے پھیلائو پرجاپان کے سائنسدانوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نئے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 2 میں سے ایک مریض ایسے شخص کی وجہ سے انفیکشن کا شکار ہوا جس کے متاثر ہونے کی اس وقت علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں۔جاپانی پروفیسر ہیروشی نِشی ارا کی سربراہی میں ہوکائیڈو یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کی ایک ٹیم نے ان ممالک کے 52 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے جہاں وائرس کا کھوج لگانے کے لئے پہلے ہی تحقیق کی جا چکی ہے۔ اِن ملکوں میں چین اور جرمنی شامل ہیں۔مذکورہ ٹیم کو پتہ چلا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے کی علامات ظاہر ہونے کا اوسط دورانیہ 3.8 روز تھا جو کہ پہلے سے بتائی گئی پانچ روزہ اوسط مدت کے مقابلے میں کم ہے۔سائنسدانوں نے یہ قیاس کر کے مزید تجزیے کیے کہ ہرمتاثرہ شخص 2.2 لوگوں کو وائرس منتقل کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اِس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہو سکتا ہے دو میں سے ایک مریض نے کسی ایسے متاثرہ شخص کو وائرس منتقل کر دیا ہو جس میں کوئی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں۔جاپانی سائنسدانوں کی ٹیم نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ جائزہ چھوٹے پیمانے پر تھا تاہم یہ ایک ایسے طبّی ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو معمر افراد اوربیماری کی واضح حالت والے ان لوگوں کی حفاظت کرے جن میں شدید علامات ظاہر ہونے کا امکان ہو۔
میرے پاس اس وائرس سے بچائو کا واحد اور آسان طریقہ ہے یعنی کھانے پینے میںاللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حرام چیزوں کر ترک کرکے حلال اور طیب چیزوں کا استعمال کیا جائے۔

حصہ