وائی فائی رانجھا

520

۔’’سارا دن گلی کے نکڑ پر بیٹھے کیا کرتے رہتے ہو؟کوئی کام وام نہیں ہے تمہارے پاس؟ اور تُو بھی ان کے ساتھ بیٹھنے لگا ہے، تیرے باپ کی تو کمر لوہا چن چن کر دہری ہوچکی ہے، کوئی احساس ہے تجھے؟ اور یہ موبائل ہاتھ میں لیے کیا پروفیسری جھاڑ رہا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، بس دوستوں کے ساتھ بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا۔‘‘
’’فلم دیکھ رہا تھا! کون سی فلم؟‘‘
’’ہم لوگ سوہنی مہیوال دیکھ رہے تھے۔‘‘
’’اس فلم میں ایسا کیا ہے جو تم سارے اتنی توجہ سے دیکھ رہے ہو۔‘‘
’’خالو! لوک داستان پر بنائی جانے والی یہ بہترین فلم ہے، فارغ تھے اس لیے دیکھنے بیٹھ گئے۔‘‘
’’یہ اتنی سی بات نہیں، کوئی چکر ہے، تبھی تو کچہری لگائے بیٹھے ہو۔‘‘
’’نہیں ایسا کچھ نہیں، بس تھوڑا انجوائے کررہے تھے، سنا ہے فلم اچھی ہے، لوک داستان پر بننے والی اس فلم میں سوہنی مہیوال کی زندگی سے متعلق خاصی معلومات ہیں، بس یہی سوچ کر دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’یہ کون تھے…؟ ڈاکٹر تھے؟ راج گیری کرتے تھے؟ یا پھر موٹر بنانے کی مہارت رکھتے تھے؟ جو اُن سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’سچی داستانوں کو پڑھنے اور اُن پر بنائی جانے والی فلمیں دیکھنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
’’دیکھو مجھے بھی بہت سی داستانیں یاد ہیں، مجھ سے پوچھ لیتے، بتادیتا… اس کے لیے فلم کا سہارا لینے کی کیا ضرورت! یہ ساری داستانیں ایک سی ہی ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں خالو، ایک ایسی ہی فلم میں کیدو کا کردار انتہائی منفی اور ظالمانہ بھی ہے۔‘‘
’’کیدو تو اچھا آدمی تھا جس نے ایک گھر کی عزت بچانے کے لیے مخبریاں کیں۔ آج کے دور کی طرح تھوڑی، کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی کہتے ہیں جس کی لڑکی ہے جب اُسی کو ہوش نہیں تو ہم کیا کریں! اور پھر دوسروں کے چکر میں پڑنے سے ہمیں کیا حاصل! اس لیے خاموشی اختیار کرنے میں ہی بہتری ہے۔ اُس دور میں کم از کم ایسے لوگ تو موجود تھے جو کسی کی بہن، بیٹی پر نظر رکھتے تھے، میرا مطلب ہے دھیان رکھتے تھے۔‘‘
’’ارے خالو، یہ سچی محبت ہے جس میں سوہنی نے اپنے محبوب مہیوال کی خاطر مٹکے پر بیٹھ کر دریا عبور کرتے ہوئے جان دے دی تھی۔‘‘
’’داستان کو چھوڑ، میں اصل بات بتاتا ہوں، سوہنی تو پاگل تھی تبھی تو یہ انجام ہوا۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اُسے بغیر کشتی کے، دریا عبور کرنے کا احمقانہ مشورہ دیا کس نے؟ اور پھر دریا کے اُس پار لینے کیا جا رہی تھی؟ اُس مہیوال سے ملنے جسے کوئی منہ تک نہ لگاتا تھا؟ اسی طرح رانجھا بھی تھا جو دن بھر بھینسوں کے گوبر کی بو سونگھ سونگھ کر نفسیاتی مریض ہوچکا تھا، اور تجھ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ سوہنی کی موت کچے گھڑے پر بیٹھ کر دریا پار کرنے کی وجہ سے ہوئی؟ اس میں بے جان مٹکے کا کیا قصور؟ سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں جانے کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ ٹھٹھر کر مر گئی ہوگی۔ میں تو کہتا ہوں یہ قتل تھا، اور قاتل وہ ہے جس نے اُسے دریا کے اُس پار بلایا۔ اُسے کسی نے نہیں پوچھا۔ آج کے دور میں ہوتا تو دفعہ 302 لگتی، سب عشق کرنا بھول جاتا۔ اگر اُس وقت مہیوال کو سزا دے دی جاتی تو آج نہ یہ محبت کا چکر ہوتا اور نہ تم یہاں بیٹھے یوں اپنا وقت برباد کررہے ہوتے۔ چلو اٹھو، یہاں بیٹھ کر انٹرنیٹ پر  لڑکیوں سے رابطہ کرنے کے بجائے اپنے گھر جاؤ اور کوئی کام وام کرو۔‘‘
…………
ایک زمانہ تھا جب محلے کے بزرگ نوجوانوں پر نظر رکھا کرتے تھے۔ بچیوں کو نوجوان لڑکوں سے پردہ کرنے کی تلقین کرتے اور خصوصاً گھروں سے باہر نکلتے وقت سر پر چادر اوڑھنے کو کہا کرتے تھے۔ خلیل بھائی بھی ان بزرگوں میں سے ایک ہیں جو سارے محلے میں اپنی اس عادت کے باعث خاصے مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محلے کے تمام لوگ انہیں ’خالو‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ویسے خلیل بھائی کی اس بات میں خاصا وزن ہے کہ  سوشل میڈیا نے پوری قوم کا مزاج ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، چھوٹے اور کمسن بچو ں سے لے کر ہر شخص فیس بُک سمیت دیگر سائٹس کا دیوانہ نظر آ تا ہے، خاص طور پر جب سے اسمارٹ فون آیا ہے، ہر امیر غریب نے اسے اپنا اسٹیٹس سمبل بنا لیا ہے۔ ہمارے ملک میں انٹرنیٹ تک سستی اور آسان رسائی نے تو جیسے قوم کو انٹرنیٹ کے استعمال کا رسیا بنادیا ہے۔ انٹرنیٹ کے منفی اثرات سے متاثر ہوکر ہم مغربی تہذیب کے اس قدر دیوانے ہوچکے ہیں کہ اُن کی ہر بات کی نقل کرنا فیشن سمجھتے ہیں۔ نوجوانوں کے بالوں کا اسٹائل اور پہناوا ہی دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ شاید ہم کسی یورپی ملک کا حصہ ہیں۔ اتنے بے ڈھنگے اسٹائل شاید گورے بھی نہ بناتے ہوں جتنے ہمارے نوجوان اُن کی نقل کرتے ہوئے بنا لیتے ہیں۔ نوجوانو ں کی بعض حرکتوں سے کبھی کبھی تو مجھے پاکستان میں مادر پدر آزاد معاشرے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس وقت چونکہ ملک کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس لیے ہر طرف مغربی تہذیب کے دلدادہ ہی زیادہ نظر آتے ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں، موبائل پر انٹرنیٹ کے استعمال سے فیشن کے اعتبار سے اب دور دراز دیہات اور بڑے شہروں کے نوجوانوں میں کوئی واضح فرق دکھائی نہیں دیتا، اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو عالمی گائوں یعنی گلوبل ویلیج بنادیا ہے، لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے غلبے نے ہمیں اپنی اصل تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات اور دین سے بہت دور کردیا ہے۔ وائی فائی نے نوجوانوں کے ذہنوں کو پلٹ کررکھ دیا ہے، انہیں علم ہی نہیں ہے کہ وہ کس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں، اور کس تیزی سے گمراہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کے ذمہ دار والدین ہیں، حکومت ہے، سیاسی وسماجی جماعتیں ہیں، یا پھر مذہبی راہنما… سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر اس وقت عدالتو ں میں زیر سماعت مقدمات کی چھان بین کی جائے تو ان میں بھی فیس بُک پر ہونے والے رابطوں کے باعث ہونے والی پسند کی شادیوں پر چلنے والے کیسز ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا پر اخلاق سوز ڈرامے جو بہت عرصے سے دکھائے جارہے ہیں ان کے اثرات اب کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈراموں کی کہانیوں پر ذرا غور تو کریں، وہ کس تہذیب کو پیش کرتی ہیں! کسی نوجوان لڑکی کا غیر نوجوان کے ساتھ آئوٹنگ پر جانا، ہوٹلنگ کرنا اور کھلے عام کار وغیرہ میں پھرنا… کیا یہ پاکستانی تہذیب کا حصہ ہے؟ ماں باپ کے سامنے اپنے بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کی باتیں کرنا کون سے اسلامی معاشرے کی عکاسی ہے؟ صرف ایک یا دو فیصد طبقے کی روش کو پورے معاشرے پر تھوپا جارہا ہے۔ جو ماں باپ اپنے بچوں سے اس قدر غافل ہیں کہ ان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھر سے باہر کب اور کیوں جاتے ہیں، وہ اپنے آپ کو ماڈرن اور تہذیب یافتہ کہلانے کے خبط میں مبتلا ہیں، لیکن ملک کی اکثریت تو اسلامی روایات پر عمل پیرا ہونے کی خواہش مند ہے۔ آج کے ڈراموں نے کم سن اور کچے ذہن کے بچوں کی معصومیت تک چھین لی ہے، جبکہ سوشل میڈیا تو شتر بے مہار کی واضح مثال بنا ہوا ہے جو مرضی لکھ دو، جو مرضی کہہ دو، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ فیس بُک پر اس قدر لچر پن ہے کہ خدا کی پناہ… انتہائی اخلاق سوز تصاویر اور ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ والدین پر موجودہ حالات میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر گہری نظر رکھیں، ان کی تمام سرگرمیاں والدین کے نوٹس میں ہونی چاہئیں، ورنہ سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ والدین کی غفلت کے باعث بہت سارے معصوم بچے بے راہ روی کا شکار ہوکر اپنے اور اپنے والدین کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہمارے معاشرے میں زہر گھول رہا ہے، جس کے تدارک کے لیے والدین اور حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ سیاسی و سماجی راہنما، اساتذہ، علماء اور والدین نئی نسل کی اچھی تربیت کے لیے لائحہ عمل اختیار کریں جس سے بچوں میں اپنے اچھے برے کا شعور بیدار ہوسکے۔ انٹرنیٹ کا درست استعمال نوجوانوں کو ترقی کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے، نہ کہ موبائل پر کھیلا جانے والا پبجی گیم۔ میڈیا کو اگر قوم کی درست سمت میں راہنمائی کے لیے استعمال کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی بہت ساری برائیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ اور جب قوم اپنی سمت درست کرلے تو پھر اسے کوئی ترقی، خوشحالی اور بلندیوں پر جانے سے نہیں روک سکتا۔ آئیے ہم سب اپنے گھر سے اپنے بچو ں کی تربیت کا بیڑا اٹھائیں تاکہ مجموعی صورت حال بھی بہتر ہوسکے۔

حصہ