روداد تقسیم اسناد جامعۃ المحصنات لاہور

2105

محمدہ بخاری
(جامعۃ المحصنات لاہور)
جامعات المحصنات پاکستان علم کے میدان میں امید کی ایک ایسی کرن ہے جو معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی انتشار،دین سے دوری اور علم کی کمی کو پورا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ معاشرے میں ایسی مسلمان طالبات تیار کر رہا ہے جو دینی و عصری علوم سے آراستہ ہوکر اپنے دائرہ کار میں ہر طرح سے مثالی خاتون کا کردار پیش کر سکیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی جا معۃ المحصنات منصورہ لاہور کی جانب سے دوسالہ تقریب تقسیم اسناد کی صورت میں سامنے آئی ۔منصورہ لاہور آڈیٹوریم کو دیدہ زیب چارٹس اور پھولوں سے آراستہ کیا گیا جب کہ اسٹیج نہایت خوب صورت اور نفاست سے سجایا گیا۔ماحول ہر آنے والے کے لئے باعث تسکین تھا۔ اس باوقار محفل میں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین محترمہ دردانہ صدیقی ،ڈاٗیریکٹرجا معات المحصنات پاکستان محترمہ افشاں نوید بطور مہمان خصوصی شریک تھیں۔جبکہ ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر حمیرا طارق، آمنہ عثمان، ثمینہ سعید، ناظمہ وسطی پنجاب ربیعہ طارق، ناظمہ جنوبی پنجاب تسنیم سرور، ناظمہ سندھ عطیہ نثار، ناظمہ خیبرپختونخوا عنایت بیگم، ناظمہ کراچی اسماء سفیر، ڈائریکٹر ویمن اینڈ فیملی کمیشن ڈاکٹر رخسانہ جبیں، ڈائریکٹر فلاح خاندان عافیہ سرور،ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سمیت دیگر اراکین مرکزی شوریٰ نے بھی شرکت کی۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیاگیا۔تلاوت و ترجمہ کی سعادت شہادہ الخاصہ کی طالبات خدیجہ خالد اور حفصہ رشید نے حاصل کی۔جن کی پرسوز آواز میں قرآن پاک کی تلاوت نے سامعین پر سحر طاری کردیا۔

” قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں  اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار”

تلاوت قرآن کے بعد طالبہ خدیجہ مریم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔

یا صاحب الجمال ویاسید البشرر
من وجہک الحبیب لقد نور القلب
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدابزرگ توئی قصہ مختصر

پروگرام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے تقسیم اسناد و انعامات کا مرحلہ شروع ہوا۔طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے بیگم مہتاب سراج الحق اور ڈائریکٹر فلاح خاندان محترمہ عافیہ سرور کو سٹیج پر مدعو کیا گیا جنہوں نے شہادہ العامہ و الخاصہ کی طالبات کی بہترین کارکردگی پر انعامات تقسیم کیے-
جامعتہ المحصنات لاہور کے تحت درس نظامی کے ساتھ عربی لینگویج کورس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے طالبات عربی زبان و بیان پر دسترس حاصل کر لیتی ہیں جس کا عملی مظاہرہ طالبات نے عربی زبان میں درس قرآن و درس حدیث دے کر کیا-
درس قرآن شہادہ العالمیہ ثانی کی طالبہ غزالہ عبد الباری نے دیا- سورہ التوبہ کی آیت نمبر 122 کی تشریح کرتے ہوئے ان کا کہنا تہا کہ ہر بڑے قبیلے اور گروہ میں سے چند لوگوں کو نکلنا چاہیے جو کہ علم حاصل کرکے اپنے اپنے علاقے میں علم کی شمع روشن کریں-
اس کے بعدعلم کی اہمیت و فضیلت پر شہادہ العالمیہ اولی کی طالبہ نفیسہ حسین نے درس حدیث بیان کیا۔
سامعین کے جذبوں کو گرمانے کے لئے نشید شہادہ الخاصہ کی طالبات نے پیش کی جس کو سامعین نے بہت سراہا۔
بعد ازاں دوسالہ کارکردگی کا جائزہ وائس پرنسپل محترمہ حفصہ اشرف نے پیش کیا۔
رپورٹ میں جامعہ کے مشن اور اغراض و مقاصد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک بہترین فرد کی تیاری کے لئے بہت سے مراحل سے گزرنا پرتا ہے۔رپورٹ میں محترمہ حفصہ اشرف نے یہ بھی بتایا کہ انتہائی محدود وسائل میں ادارہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے طالبات کو زیورِتعلیم سے آراستہ کررہا ہے۔
اس کے بعد تقسیم اسناد و انعامات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔شہادہ العالیہ کی طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے سٹیج پرمحترمہ افشاں نوید کو دعوت دی گئی جنہوں نے طالبات کو انعامات سے نوازا-
بعد ازاں  ”ستارے جن کے دم سے ہیں وہ کہکشاں تم ہی ہو”  کے عنوان سے مذاکرہ کمپیوٹر سائنس کی معلمہ شازیہ عبد القادر نے کنڈکٹ کروایا۔مذاکرے میں جامعہ سے تعلیم حاصل کر نے کے بعد جامعہ کے مشن کی تکمیل پر گفتگو کی گئی۔مذاکرے کے شرکاء سابقہ طالبات سلمیٰ سلطان،راحت خلیل،محمدہ بخاری،اقراء مصطفی،عنبرین ظفر،انیلہ عبد اللہ تھیں۔
سوالات کے جوابات اعتماد کے ساتھ دیتے ہوئے طالبات نے اعتراف کیا جامعہ المحصنات دوسرے دینی مدارس سے ممتاز اپنے طریقہ تعلیم و تربیت کی بدولت ہے۔قرآن و حدیث کے عمیق علم کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا مفید استعمال کرنابھی سکھایا جاتا ہے دوران تعلیم ہمیں صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے- اس کے ساتھ گھریلو امور میں مہارت بھی دی جاتی ہے۔یہ جامعہ المحصنات کی تعلیم و تربیت کی بدولت ہی ممکن ہوا کہ ہم گورنمنٹ و پرائیوٹ کالجز میں تدریسی فرائض سرانجام دینے گئے تو نمایاں ہی رہے۔اپنے گھروں میں بھی قرآن و سنت کی تعلیم عام کرنے اور مراکز ناظرہ کا اہتمام کرتی ہیں۔آخر میں طالبات نے اپنے اساتذہ کی ان تھک محنت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
تقسیم اسناد کے تیسرے اور آخری مرحلے میں شہادہ العالمیہ کی طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈپٹی سیکرٹری محترمہ ثمینہ سعید کو دعوت دی گئی۔انہوںنے طالبات کی بہترین کارکردگی پر انعامات تقسیم کیے۔بورڈ میں پوزیشنز لینے والی طالبات کو نقد انعامات بھی دئیے گئے۔
محترمہ فرزانہ چیمہ صاحبہ نے سال  2019 کی بہترین کارکردگی پیش کرنے والی طالبہ ساجدہ حسین کوبیگم اسعد گیلانی گولڈ میڈل دیا۔
طالبات اور اساتذہ کی بہترین کارکردگی پر مہمان خصوصی ڈائیریکٹر جامعات المحصنات پاکستان محترمہ افشاں نوید نے مبارک باد پیش کی اور اس پر مسرت موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ کے گلشن میں اتنے پیارے پھول اور گلدستے،کیاریاں موجود ہیں الحمد للہ۔۔۔آپکو دیکھا،سنا ،محسوس کیا اوردل کی گہرائی سے یہ دعا نکلی اللہ آپ کے ذریعے تحریک اسلامی کو بہت سارا نیا خون اور حوصلہ دے ۔۔ آپ سب نے جامعہ سے بہت کچہ سیکھا ،میںیہ اضافہ کرنا چاہوں گی اب آپ کو اپنی بہترین صلاحیتوں سے اپنے جامعہ کا قرض اتارنا ہے کہ یہ جامعہ آپ سے ہی آباد ہے۔جامعہ المحصنات کا مشن ہے کہ اچھے انسان معاشرے کو دیں جو صرف اپنی ذات کے دائرے میں نیک نہ ہوں بلکہ ہمارا کام ہے کہ ”کرتی رہوں روشن اِدھررکھ دوںکہ ادھر رکھ دوں ” ۔دجالی فتنے جو آج آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں آپکے پاس علم شریعت موجود ہے اس کی روشنی میں امید ہے کہ آپ معاشرے سے جہالت دور کریں گی۔

اٹھ کہ بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اس کے بعد دعوت خطاب صدر مجلس قیمہ دردانہ صدیقی صاحبہ کو دیا گیا آپ نے اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کی اہمیت پر سیرحاصل گفتگو کی-
نظریہ پاکستان اور اسلام سے ہم آہنگ یکساں نظام تعلیم ملک کی ضرورت ہے عوام نصاب تعلیم اور ناموس رسالت پر کسی اسلام دشمن سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
تعلیمی اداروں کا ملک و ملت کی تعمیر میں بڑا کردار ہوتا ہے، اساتذہ کسی بھی معاشرے میں انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اسلامی فلاحی ریاست قائم ہونے سے بھی پہلے نبی کریمﷺ نے تعلیم کا نظام قائم کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے بیرونی غلامی کے پیروکار نصاب میں سے قرآن و حدیث کو نکالنے کی کے بعد دیگر کوششیں کرتے رہتے ہیں مگر عوام ایسی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔۔ دردانہ صدیقی نے کہا کہ اللہ نے امامت کا دامن علم سے جوڑا، نبی کریم ﷺ نے صحابہ کے حصول تعلیم کوترجیح دی اور ان اصحاب نے آگے چل کر اسلامی ریاست کی باگ دوڑ سنبھالی۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے ہمیں ذہنی غلامی کے شکنجے میں دھکیل دیا، جب کہ قادیانیوں کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے بھی نصاب پر حملے جاری ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عورت آزادی مارچ، سوشلزم کے نام پر آج سیکولرازم کے مردے میں دوبارہ جان ڈالی جارہی ہے یہ سارے مسترد شدہ اور آزمائے ہوئے نظریے اور نظام ہیں اب اسلام کی باری ہے، خود کو اس بڑی ذمہ داری کے لئے تیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانچ اگست سے ہماری شہ رگ کشمیر بھارت کے کرفیو میں ہے، وادی کو انسانی جیل بنادیا گیا، لیکن کشمیر ایشو کو پس پردہ ڈالنے کے لئے روز کوئی نہ کوئی نان ایشو کو ایشو بنا کر ادھر توجہ مبذول کرادی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جامعہ کی طالبات پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف حالات حاضرہ سے پوری طرح باخبر ہوں بلکہ اپنے ارد گرد بھی آگاہی کا فریضہ انجام دیں ۔تقریب کا اختتام دعا کے ساتھ ہوا۔

حصہ