سوئیں گے حشر تک

536

حمیرا مودودیؒ
مرتب: اعظم طارق کوہستانی

دوسری قسط

دوسرے بڑے بھائی احمد فاروق گھر سے کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک ہاکر زو رزور سے اعلان کر رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔
وہ تو اپنا اخبار بیچنے کے لیے آواز لگا رہا تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ ایک بچہ جو یونیفارم پہنے سائیکل پر اپنے اسکول جا رہا ہے یہ اسی کے باپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہے غرض احمد فاروق بھائی آدھے راستے سے ہی واپس آگئے۔
میں اور اسما جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے تو ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں۔ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ آکا بھائی اخبار ہاتھ میں لیے کیوں گھبرائے ہوئے اماں جان کے پاس آئے تھے اور اس اخبار میں کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا ۔ لیکن ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ سیدھی اسکول چلی گئیں ۔
ہم ۶۰ فیروز پور روڈ والے سرکاری اسکول میں پڑھتی اور پیدل جاتی تھیں ۔اسکول میں ہمیں جو بھی دیکھتا حیران رہ جاتا ۔ہماری ہیڈ مسٹریس صاحبہ ایک عیسائی خاتون تھیںاُنھوں نے جب اسکول اسمبلی میں ہمیں دیکھا تو سب سے کہا : ’’ دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیں کہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے بالکل پرسکون اسمبلی میں کھڑی ہیں اور شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن ایسے موقعے پر بھی اپنی بچیوں کو صاف ستھرے کپڑے پہنا کر ،بال بنا کر ، کھلا پلا کر اسکول روانہ کر دیا ۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ ایسے موقعے پر بھی اُنھوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو مقدم جانا ۔کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو اس وقت اس نے رو رو کر اور بین کر کر کے سارا محلہ سر پر اٹھایا ہوا ہوتا۔‘‘
ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کہا : ’’ عام لوگوں اور لیڈروں میں یہی فرق ہوتا ہے۔‘‘ اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اسما ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔وہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ تو عیسائی تھیں اور ایسی باتیں کر رہی تھیں جب کہ ہماری دوسری اسکول ٹیچرز جو مسلمان تھیں کہہ رہی تھیں کہ یہ کہاں سے لیڈر بن گئے یہ تو غدار ہیں، پاکستان کی مخالفت کرنے والے۔ لڑکیاں بھی دیکھو کتنی مکار ہیں۔ یہ سب ایکٹنگ ہے چالاک ماں کی چالاک بیٹیاں !
اسکول سے جب ہم اپنے گھر ۵ اے ذیلدار پارک آئے تو منظر ہی کچھ اور تھا ۔
پوری گلی لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ دور دور تک بسیں کھڑی تھیں جن میں سوار ہو کر لوگ دوسرے شہروں سے آگئے تھے ،ہم دونوں بہنیں گلی سے گزر کر گھر کے دروازے تک بمشکل پہنچ پائیں ۔پھر دروازے سے گھر کے اندر داخل ہونا مشکل تر ہو گیا ۔کچھ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور کچھ خاموشی سے آنسو بہا رہے تھے۔ ایسے میں جب اُنھوں نے ہمیں خاموشی سے بستے اٹھائے اسکول سے گھر آتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اُنھوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا : ’’ جب مولانا کے بچے نہیں رو رہے اور صبر وسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم روتے اور بے صبرے ہوتے کیا اچھے لگتے ہیں۔‘‘
کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’ صبر تو اسی کو کہتے ہیں ۔‘‘ بڑی مشکل سے ہجوم میں سے گزر کر جب ہم گھر کے اندر پہنچے تو پورا گھر خواتین سے پٹا پڑا تھا۔ جو خواتین اس دن ہمارے گھر اظہار ہمدردی کے لیے محبت سے آئی تھیں ،رو رہی تھیں ۔۔۔۔۔اماں جان ان کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں اور یہی حال ہماری دادی اماں کا بھی تھا ۔جب ہمیں دیکھا تو اماں جان نے بس اتنا کہا : بیٹا گھبرانا نہیں ،صبر کرنا ۔‘‘ اور پھر ہم سب کو اپنے ہاتھ سے پکایا ہوا کھانا کھلایا اور جا کر خواتین میں بیٹھ گئیں ۔
اس روز ایک خاتون نے اماں جان سے کہا تھا کہ بیگم صاحبہ ،آج رات آپ ۱۰۰ نفل حاجت کے لیے پڑھیں اور پھر تہجد کے نفل پڑھ کر مولانا کی زندگی ،سلامتی اور بقا کے لیے دعا کر کے یہ منت مانیں کہ جب سلامتی ،خیرعافیت سے گھر واپس آئیں گے تو پھر میں اسی طرح ۱۰۰ نفل شکرانے کے اداکروں گی ۔۔۔۔غرض وہ ساری رات اماں جان نے نفل پڑھتے ہوئے گزاری ۔رات کو جب دیکھا (ایسی ہولناک رات میں بھلا نیند کسے آنی تھی ) انھیں نفل پڑھتے ہوئے پایا ۔ فجر کی اذان سنتے ہی ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔فجر کی نماز کے بعد اماں جان نے تلاوت کے لیے قرآن کھولا اور وہی سلسلہ جہاں سے روز پڑھتی تھیں پڑھنا شروع کیا ۔ہمیں حیرت ہوئی کہ سورۃ بقرہ کی جو آیت ان کے سامنے آئی وہ یہ تھی :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّہِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّہِ قَرِیْب[البقرہ۔۲۱۴]
ترجمہ : پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمھیں جنت میں داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے ؟ ان پر سختیاں گزریں ،مصیبتیں آئیں وہ ہلا کر مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں ،اللہ کی مدد قریب ہے ۔
اس آیت کو اماں جان پڑھتی گئیں اور روتی گئیں ۔۔۔پھر مجھے بلایا اور یہ آیت دکھائی کہنے لگیں : ’’دیکھو یہ زندہ کتاب ہے ،یہ انسان کی دکھتی رگ پکڑتی ہے ۔یہ دل کا چور پکڑتی ہے ۔ یہ دکھی انسان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے ۔بس شرط یہ ہے کہ تم اس سے دوستی کر لو ! یہ حالات کے مطابق ، دلی کیفیت کے مطابق ہمیں کیسے تسلی دے رہی ہے ،کیسے ہمارے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے !‘‘
بس پھر سارا دن اماں جان مطمئن رہیں ۔۔۔۔وہ بار بار اس آیت کا ورد کرتی رہیں اور کہتی رہیں:’’ ویسے تو سارے قرآن پر ہی اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے ایسی زندہ کتاب ہم کو عطا فرمائی لیکن اس آیت کا ہم سب پر بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے ایسے نازک وقت میں ہمیں حوصلہ دیا ،بشارت دی اور ہماری دست گیری کی ۔ دوسری رات بھی آئی اور گزر گئی ۔اماں جان مطمئن رہیں ،باہر مردوں سے اور عورتوں سے گھر بھرا رہا۔ عورتیں روتی ہوئی آتی تھیں مگر اندر آکر جب اماں جان اور دادی جان کا صبر دیکھتی تو خاموش ہو جاتی تھیں اور ایک دوسری سے کہتی تھیں ’’اس کو کہتے ہیں صبر!‘‘
اباجان کی سزائے موت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں ،ہڑتالوں اور سزا کی منسوخی کے مطالبات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ دوسرے مسلم ممالک ہی نہیں بہت سے غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کی طرف سے بھی گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے نام تار بارش کی طرح برس رہے تھے ۔ ردعمل انتہائی وسیع اور ہمہ گیر تھا۔
۱۳ مئی کو اماں جان نماز عصر سے فارغ ہوئی ہی تھیں کہ جماعت کے ایک صاحب اندر آئے اوراُنھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کو دروازے کے پاس بلائو۔ ہم سب ڈر گئے کہ پتا نہیں کیسی خبر ہے ؟ اماں جان بھی بڑی گھبرائیں ہوئی آئیں کہ یکدم دروازے کے پیچھے سے آواز آئی: ’’بیگم صاحبہ مبارک ہو! مولانا کی سزائے موت ۱۴ سال قید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف ایک بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال مزید قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے ۔‘‘ وہ صاحب تو اپنی کہی جا رہے تھے ادھر اماں جان کھڑے قد سے سجدے میں گر گئیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم لوگ بھی سجدے میں گر گئے ۔
اب تو گھر کا ماحول ہی بدل گیا ۔ سب طرف سے مبارک ،سلامت شروع ہو گئی ۔یہ کسی نے سوچا ہی نہیں کہ آ گے ۲۱ سال قید ہے !اماں جان بار بار کہہ رہی تھیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔پھر کہتیں : دیکھو آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ اُٹھ کر اپنا مطلب ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ ہم ایسے حالات کے لیے ہیں اور ہمارا یہ مطلب ہے ۔
اس وقت اماں جان نے ہم کو اپنا خواب سنایا تھا جو اباجان کی کورٹ مارشل سے سزائے موت سے صرف ایک دن پہلے اُنھوں نے دیکھا تھا ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ہوائی جہاز آ کر اتر اہے اور میں تمہارے اباجان ہم سب کو لے کر سوار ہو گئے ہیں ۔۔۔ جہاز ہے کہ بڑی تیز رفتار کے ساتھ آسمان کی طرف عمودی پرواز کر رہا ہے ۔مجھے سخت چکر آرہے ہیں اور بڑی گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ میرا دل پھٹ جائے گا ۔پھر یک لخت ہوائی جہاز کہیں اتر جاتا ہے اور تمھارے اباجان میرا ہاتھ پکڑ کر ،سہارا دے کر جہاز سے اتار رہے ہیں ۔ ادھر میری جان پر بنی ہو ئی ہے اور ادھر تمہارے اباجان کی آواز آتی ہے کہ ذرا کھڑی ہو کر نیچے دیکھو تو سہی کہ تم کتنی بلندی پر آ گئی ہو ۔۔۔۔پھر میں نیچے دیکھتی ہوں تو واقعی لوگ سڑکوں پر بونوں کی طرح نظر آ رہے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں کھلونوں کی طرح نظر آ رہی ہیں ۔۔۔اتنے میں میری آنکھ کھل گئی ۔ خواب سنا کر کہنے لگیں کہ اب اس خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کو تو صرف اپنے بندوں کے درجات بلند کرنے تھے ۔ ! اس بھاری آزمائش میں سے بخیرو خوبی گزار کر ہمیں بلندیوں تک پہنچانا تھا!
اماں جان اور دادی اماں کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ بچے خوش وخرم رہیں اور ان کی نفسیات پر کوئی اثر نہ پڑے ۔ہماری اماں جان کہتی تھیں : انسان کا بچپن خوشیوں سے بھرپور ہونا چاہیے اور اسے کبھی عدم تحفظ کا احساس نہ ہونے پائے کیونکہ کسی بھی قسم کی محرومی اگر بچپن میں آ دمی کو ڈس لے تو یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو گہنا دیتی ہیں۔ یہ تلخ یادیں پھر ساری زندگی آسیب کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔انھیں یہ فکر پریشان کرتی ہے کہ میرے بچے بچپن میں ہی بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کا بچپنا چھن گیا ہے ۔ اس کے ازالے کے لیے اُنھوں نے بڑے جتن کیے اور مختلف طریقوں سے ہمیں مصروف رکھا ۔
(جاری ہے)

مولانا مودودی کے بارے میںالطاف حسین قریشی کی راے

(مدیر اعلیٰ اُردو ڈائجسٹ)

مولانا نے نوجوانوں کے دل میں یہ بات پختہ کر دی کہ وہ اسلام کے ذریعے پوری دنیا میں انقلاب لاسکتے ہیں اور اس حوالے سے ان کا لٹریچر بہت ہی زیادہ معاون ثابت ہوا ہے اور یہی خوبی ہے کہ جس نے ان کی جماعت کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کیا ہے ۔ میں نے بذات خود ان کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میں بچپن سے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا مطالعہ کر رہاہوں اور میرا صحافت کی طرف آنا بھی ان کی تحریروں کی وجہ سے تھا اور مجھے یقین ہے کہ ان کاکام صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

حصہ