اچھا ناقد تخلیق کار کے لیے مشعل راہ ہے

978

معروف شاعرہ، ادیبہ، مصورہ اور ماہر تعلیم پروفیسر رضیہ سبحان سے جسارت میگزین کی گفتگو

نثار احمد نثار
جسارت میگزین: آپ اپنی تصنیفات کی تفصیلات بیان کریں۔
رضیہ سبحان: میری اب تک الحمدللہ 5 کتابیں آچکی ہیں جس میں پہلی کتاب سرد آگ، خاموش دستک، سیپیاں محبت کی، مکاں لامکاں اور ابھی حال ہی میں یعنی 2019ء میں پانچویں کتاب ’’آگہی کی منزل پر‘‘ ہے۔ جب کہ سرد آگ اور خاموش دستک پر جامعہ نمل کی طالبہ نے اپنا ماسٹرز کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے، اور سرد آگ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انگریزی نظموں کے منظوم تراجم شامل ہیں۔
جسارت میگزین: سوشل ایکٹویٹی اور ادبی مصروفیات کے بارے میں کچھ بتائیں۔
رضیہ سبحان: میرا تعلق تعلیم و تدریس سے رہا، عبداللہ کالج سے وابستہ رہی جہاں 40 سال میں نے بحیثیت انگریزی استاد کے تدریس کی۔ مضمون میرا انگلش لٹریچر تھا۔ اُس وقت میرے بچے چھوٹے تھے اسی لیے گھر کو میری زیادہ ضرورت تھی۔ گھر کی ذمہ داری، بچوں کی تعلیم، انہیں وقت دینا ضروری تھا، یہی وجہ تھی کہ میں دوسرے مشاغل اور سرگرمیوں سے دو رہی۔ یہاں تک کہ شاعری کرنے کے باوجود کسی مشاعرے میں حصہ نہیں لیا، حالانکہ میں نے اپنی ملازمت کے دوران ہی تین کتابوں کی اشاعت بھی کی۔ 2008ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد مزید 2 کتابیں شائع ہوئیں اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ہی اپنا مصوری کا شوق دوبارہ شروع کیا، اور اب مشاعروں میں بھی حصہ لینے لگی ہوں۔
جسارت میگزین: اپنا خاندانی پس منظر بتائیں۔
رضیہ سبحان: میرا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے، میرے نانا حکیم تھے، میرے ماموں شریف المجاہد صاحب ایک معروف صحافی کے علاوہ قائداعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے ہیں، جب کہ میرے بڑے ماموں ابوالعمل صاحب یونیورسل میگزین کے ایڈیٹر تھے جو ایک بین الاقوامی رسالہ تھا، اور میرا بھائی اور بھتیجا بھی شاعری کرتے ہیں۔ ان کے سوا خاندان میں کسی اور کو یہ شوق نہیں۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک علمِ عروض کی کیا اہمیت ہے؟
رضیہ سبحان: علمِ عروض شاعری میں بہت اہم ہے۔ اس کی اہمیت پر میں کیا روشنی ڈال سکتی ہوں! یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ بہت سے شاعر علمِ عروض سے بے بہرہ ہونے کے باوجود مکمل شاعر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان میں شعر کہنے کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے، اور میں بھی ان میں سے ایک ہوں، حالانکہ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے۔
جسارت میگزین: آج کل تنقید کا معیار کیا ہے؟
رضیہ سبحان: تنقید کا مطلب ہی کھرے کھوٹے کو پرکھتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں تنقید نگاروں نے اپنی ذمہ داری بہت اچھے طریقے سے پوری کی، مگر آج کل اس کام میں انصاف نہیں کیا جارہا ہے۔ سچے تنقید نگاروں کا فرض ہے کہ زمانۂ قدیم کے عظیم فن کاروں کی بالترتیب درجہ بندی کریں اور زمانۂ جدید کی تخلیقات کی بھی جانچ کریں، کیوں کہ تنقید فکر کا وہ شعبہ ہے جو یہ دریافت کرتا ہے کہ شاعری کیا ہے، یا پھر اس کے بعد ہی رائے دیتا ہے کہ شاعری اچھی ہے یا بری۔ میں سمجھتی ہوں کہ تنقید اور تحقیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے، اور وہ یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مشعلِ راہ ہوتے ہیں، بلکہ کئی جگہ تو تنقید بہتر تخلیق کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمارے ادب میں آزادؔ کے لیکچر اور حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری مشہور ہیں۔
جسارت میگزین: موجودہ دور کے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
رضیہ سبحان: اردو زبان اور اردو کے فروغ کے لیے یہ دونوں ذرائع بہت اہم ہیں، کسی بھی طرح ان کی اہمیت کم نہیں۔ جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے، آج کل الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے اس کی اہمیت نسبتاً کم ہوئی ہے، یہ دونوں ذرائع اپنی ذمہ داری کسی حد تک نبھا رہے ہیں۔ اب اس میں سوشل میڈیا کا اضافہ بھی بہت تیزی کے ساتھ ہوا ہے جو فوری رابطے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اردو ادب میں اس سے بھی استفادہ کیا ہے کہ ہم منتخب نثر پارے اور شاعرانہ کلام اپنے ایک خاص حلقے میں بھیج کر اسے فروغ بھی دے رہے ہوتے ہیں اور عام بھی کررہے ہوتے ہیں۔
جسارت میگزین: اردو کے فروغ کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں ان کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
رضیہ سبحان: انجمن ترقی اردو، اردو لغت بورڈ اور اکادمی ادبیات پاکستان… ان اداروں کا یہاں ذکر لازم ہے جو ذمہ داری سے یہ کام کررہے ہیں۔ ان کے یہاں ہونے والی تنقیدی و فکری نشستیں، رسالوں کا اجراء، وقتاً فوقتا مختلف کتب کا شائع کرانا… یہ سب ان کی اچھی کوششیں ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
رضیہ سبحان: میری رائے میں ادب معاشرے کی شہ رگ پر ہاتھ رکھتا ہے، کوئی بھی ادب معاشرے کے زندہ رہنے کا ذریعہ ہے، کیوں کہ ادب ہی کے ذریعے آپ ایک خاص عہد میں جھانک سکتے ہیں۔ تاریخ میں کئی داستانیں اور افسانے موجود ہیں جو اس کی عکاسی کرتے ہیں، اُس وقت کا کلچر یا رہن سہن بیان کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: معاشرے میں شاعر کی کیا اہمیت ہے؟
رضیہ سبحان: شاعری اظہار کا لطیف اور منفرد ذریعہ ہے، شاعر اپنے گرد جو ماحول یا موضوعات ہیں انہیں اظہار کا ذریعے بناتا ہے، اس کے علاوہ جو انسانی کیفیات ہوتی ہیں انہیں شعر میں بہت اچھے انداز میں اچھے الفاظ میں بیان کردیا جاتا ہے جیسا کہ دریا کو کوزے میں بند کرنا:
نیست ہونے کو ہے ایک لمحہ بہت
بات بننے کو زمانہ چاہیے
نثر نگار پورے پورے پیرا لکھتا ہے، تفصیلی بیانات سے اپنا مفہوم ادا کرتا ہے، مگر شاعر دو مصرعوں میں اپنی بات مکمل کرجاتا ہے۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
رضیہ سبحان: چونکہ ترقی پسند تحریک کا مقصد فنونِ لطیفہ کو عوام کے قریب لانا اور واقعات و حقیقت نگاری پر زور دینا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے منشور کے منظر عام پر آتے ہی سب نے اس کا خیرمقدم کیا۔ یہ تحریک ہمیشہ ہی معتبر لوگوں کے ہاتھ رہی۔ نثر یا نظم کی تخلیق کے پیچھے بھی ایک سوچ اور ذہنیت کارفرما ہوتی ہے جو کسی نہ کسی فلسفے کا نتیجہ ہے۔ جدیدیت ہر طرح کی کلیت کے خلاف ہے، اس لیے انسانی مرکزیت سے Humanistism قصہ پارینہ ہو چکا ہے، یعنی مابعد جدیدیت والے انسان کی آزادی کے نظریات کو انسان کی آزادی کا نظریہ سمجھتے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک نثری نظم کی کیا اہمیت ہے؟
رضیہ سبحان: پچھلی کئی دہائیوں سے نثری نظم موضوع بحث بنی ہوئی ہے، مگر مختلف آرا کے باوجود شعر و ادب کی دنیا میں کئی اچھی نثری نظمیں وجود میں آنے لگی ہیں۔ پرانے لوگ، بزرگ کسی بھی نئی روایت کو بدعت سمجھ کر قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے، نئی نسل تقلید اور فیشن پرستی کی دوڑ میں ہر نئی چیز کو اپنانا چاہتی ہے۔ نثری نظم میں بھی شدت پسند رویّے شامل رہے۔ نثری نظم کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے کیونکہ اس میں شاعری کی حقیقی روح کو ضائع نہیں کیا گیا ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
رضیہ سبحان: اردو زبان مصری کی طرح میٹھی ہے۔ جب تک دنیا میں کڑوا زہر ہے، مٹھاس اپنی جگہ قائم رہے گی۔ جن ممالک میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں تک تو اس کا مستقبل روشن اور ارتقا یقینی ہے، ہمارے یہاں بھی جس طرح اردو پر کام ہورہا ہے تو وہ دن دور نہیں جب اردو عملی طور پر سرکاری زبان ہوگی۔ زبان اور ادب کو اگر الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبان کے سلسلے میں جس قدر کام ہونا چاہیے اس میں کوتاہیاں ہورہی ہیں۔ کتابوں کی اشاعت میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی اور پڑھنے والا طقبہ محدود ہوا۔ اگر اردو کو زندہ رکھنا ہے تو نئے حالات و تقاضوں کے تحت نئی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ اگر ہم اس مقولے پر عمل کریں تو ہماری زبان ہمارے لوگوں میں یقینا پھیل جائے گی “Each one teach one”۔ میرا نہیں خیال کہ اردو ادب روبہ زوال ہے۔ ادب وقت کی گود میں پلتا ہے، لکھنے والا ماحول سے جو کچھ حاصل کرے گا وہی آپ کو دے گا۔ آج انسانی ترقی عروج پر ہے، اس کی سوچ کی اڑان خاصی بلند ہے۔ ہاں ڈکشن اردو کا وہ نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب عوامی زبان کے ذریعے قاری تک دل کی بات پہنچائی جاتی ہے جو خالصتاً ادب ہے۔ جب تک دنیا ہے، اردو ادب ترقی کرتا رہے گا اور اپنے وقت کے مطابق بلندی پر پہنچے گا۔
جسارت میگزین: وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے کتب بینی کا ادارہ کمزور ہورہا ہے؟
رضیہ سبحان: یہ سوال بہت اہم بھی ہے اور فکر طلب بھی۔ آج ہم میں مطالعے کی شدید کمی ہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس طرف رغبت نہیں رکھتیں۔ کتاب لکھی تو جاتی ہے مگر پڑھی نہیں جاتی۔ یہ آج کا المیہ ہے۔ سوشل میڈیا اور نیٹ کے بے جا استعمال نے کتب بینی کے رجحان کو کم کردیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو، نوجوان نسلوں کو کتب بینی کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب کریں۔ ان شاء اللہ کچھ نہ کچھ تو بہتری آئے گی۔
جسارت میگزین: ادب کے حوالے سے آپ کن شخصیات سے متاثر ہیں؟
رضیہ سبحان: ادب کے حوالے سے میں اساتذہ سے متاثر ہوں۔ میر، غالب، فیض، میر انیس اور نثر میں منٹو، کرشن چندر، شوکت صدیقی، آغا حشر جیسے معتبر نام لیے جاسکتے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں قلم کاروں کے اہم مسائل کون سے ہیں؟ یا آج کے قلم کار کن مسائل سے دوچار ہیں؟آپ کے نزدیک یہ مسائل کس طرح حل ہوسکتے ہیں؟
رضیہ سبحان: ہمارے معاشرے میں قلم کار کی ویسے تو بہت قدر ہے مگر معاشی طور پر اس کا مقام بہت کم ہے۔ بے چارہ قلم کار بہت معصوم ہوتا ہے، اُسے دنیا داری اور بزنس کے اصول نہیں آتے اور وہ ان چیزوں میں پڑنا بھی نہیں چاہتا۔ وہ اپنی تخلیق قاری کے سامنے پیش کرکے داد لینا ہی اپنی محنت کی اجرت سمجھتا ہے۔ معاشرہ بھی اس سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے، اور جب وہ ادب کی خدمت کرتے کرتے ضعیف العمر ہوجاتا ہے، اس کے رابطے کم ہوجاتے ہیں تو اسے کوئی نہیں پوچھتا، یہاں تک کہ جب وہ مرتا ہے تو اس کے پاس کفن دفن کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ ہمیں قلم کاروں کو ایک ادارے میں رجسٹرڈ کرنا چاہیے۔ انہیں کتابوں کی اشاعت کے لیے پیسے فراہم کرنے چاہئیں۔ پھر ان کی کتابوں کو قومی لائبریری میں خرید کر جمع کریں۔ لکھاری کو پنشن اور علاج کی سہولت ملنی چاہیے۔
جسارت میگزین: کیا آپ قارئینِ جسارت کی آسانی کے لیے شاعر اور متشاعر کا فرق بتائیں گی؟
رضیہ سبحان: شاعر پیدائشی ہوتا ہے، متشاعر برآمدی ہوتا ہے۔ میرا مطلب ہے اس کی آمد الہامی کیفیت سے نہیں گزرتی۔ جب وہ تخلیق کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس کا دل پارہ پارہ نہیں ہوتا۔ آج کل شاعر تن آسان ہوگئے ہیں، کسی سے کچھ لکھوا لیا، کسی کا پڑھ لیا، یوں شہرت کمائی۔ شاعر کی شاعری آپ بولتی ہے۔ معذرت کے ساتھ متشاعر کی شاعری پول کھولتی ہے۔ یہ سوال صرف شاعر اور شاعرات کے لیے کیوں؟ یہاں تو ہر چیز میں ملاوٹ ہے، کوئی خالص نظر نہیں آتا۔ سیاست کو دیکھیں، رشتوں کو دیکھیں۔ جس قوم سے ایمان داری کی خوبی ختم ہوجائے وہاں یہی ہوگا۔ نہ ہم خود سے ایماندار، نہ ہم اپنے من سے ایماندار۔ تو جو پذیرائی کرتے ہیں وہ خود کہاں ایماندار ہوتے ہیں! ایماندار لوگ تو آپ کو پردے پر نظر ہی نہیں آئیں گے۔
جسارت میگزین: کیا مشاعروں میں شریک شعرا، شاعرات کو معاوضہ دینا چاہیے؟ کیا ان کے پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرنا چاہیے؟
رضیہ سبحان: معاوضہ ضرور دینا چاہیے، پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی ہونی چاہیے، اور تمام شاعر، شاعرات اس بات پر متفق ہوجائیں تو دیکھیے کیسے نہیں دیتے۔ ہم تو شاعری کے اور واہ واہ کے طلب گار ہوتے ہیں، داد سمیٹنے کے لیے خود اپنے پیسے خرچ کرکے مشاعرہ پڑھتے ہیں، اور داد ملنے پر فاتح کی طرح چلے آتے ہیں جب کہ جیب خالی ہوتی ہے، حالانکہ اس میں بھی وقت، توانائی اور پیسہ لگتا ہے، تو اس کا معاوضہ بھی کیوں نہ ہو!
جسارت میگزین: آپ مبتدی قلم کاروں کے لیے کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟
رضیہ سبحان: مبتدی قلم کاروں کو صرف اتنا کہوںگی کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور ریاضت کریں، کتاب کی اشاعت کے لیے جلد بازی نہ کریں۔ پہلے کلام کو پختہ کریں پھر اپنا نام… جس کے لیے مستقل مزاجی ضروری ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں گروہ بندی نے اردو ادب کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟ یا کچھ فائدہ بھی پہنچایا ہے؟ آپ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں؟
رضیہ سبحان: گروہ بندی… یہ لفظ ہی نقصان کی علامت ہے اور اردو ادب کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پڑھے لکھے سمجھ دار لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ للہ اس کو ختم کریں اور ایک ہوجائیں۔
جسارت میگزین: کیا مشاعرے اردو ادب کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں؟
رضیہ سبحان: مشاعرہ پچھلے دور میں تہذیب کی علامت ہوا کرتا تھا، لیکن اب تو اس میں کمرشل اور شوبز کے لوگ بھی شامل ہوچکے۔ یہاںٍ ادب کا فروغ نہیں بلکہ کسی خاص شاعر یا شاعرہ کا فروغ ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: آپ ایک ماہرِتعلیم بھی ہیں، پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار کیسا ہے؟ نیز بہتر تعلیم کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
رضیہ سبحان: اس سوال کا جواب طویل ہے، میرا تجربہ 40 سال پر محیط ہے، میں آپ کو ایک ایک دن کا حساب دے سکتی ہوں۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ تعلیم کا معیار وہ نہیں… گر گیا ہے، مگر ہم اساتذہ اگر اپنے گریبان میں جھانک لیں، خود اپنا محاسبہ کریں تو اس جواب سے خود ہی شرمند ہوجائیں گے، کیوں کہ اس خرابی کی بنیادی وجہ ہم خود ہیں۔ میں معافی چاہتی ہوں، میں طالب علموں سے ہمدردی رکھتی ہوں، وہ تو معصوم ہیں۔ استاد اچھا ہو تو وہ تعلیم کا معیار بلند کرسکتا ہے۔ طلبہ میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ بیدار کر سکتا ہے۔ والدین کا کردار بھی اس طرح نہیں رہا، وہ بچے کی آگہی کے لیے، اس کے اچھے گریڈ کے لیے اسے تعلیم نہیں دلاتے، بلکہ لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ آپ نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے، میں اپنے آپ کو یہیں روک لوں تو بہتر ہے۔ ہاں تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے اس پیشے کے تقدس کو سمجھنا ہوگا اور ایمانداری سے کام کرنا ہوگا۔ نیت اچھی ہو تو ہر کام سنور جاتا ہے۔ ماہرینِ تعلیم کو ہر سال نصاب کو اَپ گریڈ کرنا ہوگا جو عصری تقاضوں کے مطابق ہو۔ آج تک پچاس سال پرانا نصاب ہی پڑھایا جارہا ہے تو معیار کیسے بلند ہوگا! یہ دو کام کرلیں تو ہی بہت ہے۔
جسارت میگزین: نقل مافیا کے سدباب کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گی؟
رضیہ سبحان: نقل مافیا کو ختم کرنے کے لیے پھر وہی بات کہ امتحانی پرچہ ایسا ہو جس میں معروضی سوالات (MCQ’s) ہوں، یہ جو کوچنگ سینٹر عام ہیں انہیں ختم کیا جائے، گیس پیپر کا رجحان ختم کریں۔ استاد اور شاگرد میں رابطہ رہے تو ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ Internal امتحان ہوں۔
جسارت میگزین: دیارِ غیر میں اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کیا ہورہا ہے؟
رضیہ سبحان: دیارِ غیر میں اردو کی ترقی کے لیے کچھ تنظیمیں ہیں جو باقاعدہ مشاعرے کرواتی ہیں، مگر میرا ذاتی تجربہ خاصا تلخ رہا۔ کچھ جگہ جب میں نے دیکھا کہ یہاں بھی گروہ بندی کا رجحان ہے، کھینچا تانی کا عالم ہے تو مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ پھر یہ بات سامنے آئی کہ جگہ بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، ذہنیت اور فطرت کو بدلنا ضروری ہے۔
جسارت میگزین: شاعری میں خواتین کی شمولیت سے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
رضیہ سبحان: شاعری میں آج کل خواتین کی بھرمار ہے اور مجھے یہ بات بہت مثبت اثرات کے ساتھ نظر آتی ہے، وہ اس لیے کہ عورت کے لیے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کوئی مناسب اور مؤثر راہ نہیں تھی، مگر آج اس نے شاعری کے ذریعے وہ راستہ پالیا جب وہ دل کی بھڑاس نکالنے لگی ہے، اپنے اندر کی کیفیت کو تشنگی کے ساتھ بیان کرنے لگی ہے۔ آج کی عورت زیادہ عقل مند، خوددار اور اَنا رکھتی ہے۔ یہ ہمارے ادب کے فروغ کے لیے بھی اچھی علامت ہے۔
جسارت میگزین: کیا دبستانِ کراچی میں جدید لب و لہجہ نظر آرہا ہے؟ کیا نئے عہد کے لکھنے والے نئے مسائلِ زندگی رقم کررہے ہیں؟
رضیہ سبحان: جی! مجھے تو بالکل نوجوان شعرا میں جدید لہجہ نظر آرہا ہے اور وہ بہت خوش اسلوبی سے معاشرے کی تبدیلیوں کی طرف نشان دہی کررہے ہیں اور نئے مسائل رقم کررہے ہیں۔
جسارت میگزین:آج کل مشاعروں سے سامعین کیوں غائب ہورہے ہیں؟ آپ کے نزدیک اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
رضیہ سبحان: مشاعرے روز روز نہیں ہونے چاہئیں۔ ہر پندرہ دن یا ایک ماہ میں ایک اچھا مشاعرہ ہونا چاہیے جس میں مختلف شعرا کو پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ریڈیو اور ٹی وی پہ بھی ماہانہ مشاعرہ ہو تو سامعین کی تعداد بڑھے گی، اس طرح زیادہ سننے والے شامل ہوسکتے ہیں۔

رضیہ سبحان کی غزلیں

کسے بتائوں کہ دل کو ملال کتنا ہے
اور اس پہ دل کو تمھارا خیال کتنا ہے
یہ فیصلہ تو اراکینِ بزمِ عشق کریں
مرے جمال میں اس کا کمال کتنا ہے
یہ بات غور طلب ہے تو غور بھی کر لو
خوشی کے رنگ میں حزن و ملال کتنا ہے
بساطِ زیست کے مُہروں سے پوچھ کر آئو
خوشی کے رنگ میں حزن و ملال کتنا ہے
کبھی جو روند کے اس دل کو چل دیا میرے
وہ آ کے دیکھ لے دل پائمال کتنا ہے
بلا سبب ہی نہیں خوابِ عیش میں رضیہؔ
اذانِ صبح میں رنگِ بلال کتنا ہے
٭
ہیں معطر جو فضائیں کہیں برسات ہے کیا
یہ عنایت بھی تیرے پیار کی سوغات ہے کیا
بند آنکھوں میں تو اک چاند چھپائے ہوئے ہوں
حد سے تاحدِ نظر تاروں کی بارات ہے کیا
ضبط کا مان رکھا ہے تو شکایت کیسی
عشق کی جیت میں پوشیدہ کوئی مات ہے کیا
تیری دنیا میں ہر اِک شخص ہے بہروپ لیے
سچ کو سچ کہنا مرے دوست بری بات ہے کیا
رات سے صبح ہوئی، صبح سے پھر رات ہوئی
تم جو خاموش ہو، بولو تو سَہی بات ہے کیا
نہ گزشتہ میں نہ حاضر میں نہ فردا میں رہی
زندگی میرے لیے صبح ہے کیا رات ہے کیا
٭
آنکھ کو منظر سہانا چاہیے
کچھ تو جینے کا بہانہ چاہیے
نیست ہونے کو ہے اک لمحہ بہت
بات بننے کو زمانہ چاہیے
صحنِ گلشن میں جو مہکایا تو کیا
پھول صحرا میں کھلانا چاہیے
دعویٰ الفت کیا کرتے ہیں جو
ہاں انہیں بھی آزمانا چاہیے
ظرفِ اعلیٰ کی یہی پہچان ہے
کر کے احساں بھول جانا چاہیے
یوں تو ہیں سامانِ تسکینِ وفا
دل کو رونے کا بہانہ چاہیے
ریت پر لکھی ہوئی تحریر ہوں
موج دریا سے مٹانا چاہیے
زیست کی دہلیز پر کب تک رکوں
وقتِ رخصت اس کو آنا چاہیے

٭

جانے کیسی یہ مجھ کو عادت ہے
خوب سے خوب تر کی چاہت ہے
نہ سیاست ہے نہ وکالت ہے
میرے ہر لفظ میں صداقت ہے
وقت بھی آگیا ہے سکتے میں
آج اس سے ملن کی ساعت ہے
روند کر جو دلوں کو حاصل ہو
تف ہے ایسی خوشی پہ لعنت ہے
تنگ داماں مجھے نہیں رکھتی
یہ طبیعت میں جو سخاوت ہے
حیثیت فاصلوں کی کچھ بھی نہیں
من و تُو میں اگر رفاقت ہے
میرے چہرے پہ عشق کا مضمون
تیری نظروں کی ہی عنایت ہے
معجزہ حرف حرف ہے رضیہؔ
شاعری فکر کی کرامت ہے
٭
تمھاری رمزِ عداوت سمجھ سے باہر ہے
اور اپنی خوئے محبت سمجھ سے باہر ہے
کسی بھی گنتی میں گردانتے نہیں ہو مگر
تمھیں ہے میری ضرورت سمجھ سے باہر ہے
جو لوگ اپنے رویوں سے مار دیتے ہیں
انہی سے اپنی عقیدت سمجھ سے باہر ہے
جو لوحِ دل پہ لکھے عہد سے مکرتے ہیں
انہی سے دل کو ہے رغبت سمجھ سے باہر ہے
جو میری دعوتِ دیدار سے گریزاں ہے
اسی سے مجھ کو ہے نسبت سمجھ سے باہر ہے
کرے ہے مدح رسائی سے یوں تو خاطرِ دوست
رکھے ہے دل میں کدورت سمجھ سے باہر ہے
٭
وہ مرا دوست بھی ہے دشمن بھی
اور اسی سے ہے آج اَن بَن بھی
اِک نشیمن چمن میں کیا اجڑا
کیسا ویراں ہوا ہے گلشن بھی
تم سے اظہارِ عشق کیسے ہو
کچھ تذبذب ہے اور الجھن بھی
میری آنکھوں میں جھانک لو آکر
ہے یہاں پر تمھارا درپن بھی
تتلیوں کے سراب کے پیچھے
کھو دیا میں نے اپنا بچپن بھی
جسم کی قید میں جو اِک دل ہے
وہ محافظ بھی میرا رہزن بھی
٭

حصہ