قولِ حق کی برکتیں۔۔۔۔ کلمہ طیبہ: سچ کا اظہار

2666

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
۔’’کلمہ طیبہ‘‘ کے لفظی معنی وہ قولِ حق اور عقیدۂ صالحہ ہے جو سراسر راستی پر مبنی ہو۔ سورہ ابراہیم (آیات 24 سے 26) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کلمۂ طیبہ کی کس چیز سے مثال دی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا پاکیزہ درخت، کہ جس کی جڑ زمین گہری بھی ہو اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ تعالیٰ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں۔ اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔‘‘ سورہ انعام میں ارشاد ہوا ’’اور تیرے رب کا کلمہ سچائی اور انصاف (اعتدال) کے اعتبار سے پورا ہے۔‘‘
قرآن پاک میں کلمۂ طیبہ، قولِ ثابت، کلمہ تقویٰ، مقالید السمٰوات والارض اسی کلمۂ توحید کو کہا گیا ہے۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن کی رو سے وہی ہوسکتا ہے جس میں توحید کا اقرار، انبیاء اور کتبِ آسمانی کا اقرار، اور آخرت کا اقرار ہو۔ زمین سے آسمان تک چونکہ سارا نظامِ کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن کلمۂ طیبہ میں کرتا ہے، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانونِِ فطرت سے نہیں ٹکراتا۔ یہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص اسے بنیاد بناکر اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرے اس کو ہر آن مفید نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ وہ فکر میں سلجھائو، طبیعت میں سلامت، مزاج میں اعتدال، سیرت میں مضبوطی، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت و نظافت، برتائو میں خوش گواری، معاملات میں راست بازی، کلام میں صداقت شعاری، قول و قرار میں پختگی، معاشرت میں حُسنِ سلوک، تہذیب میں فضیلت، تمدن میں توازن، معیشت میں عدل و انصاف، سیاست میں دیانت، جنگ میں شرافت، صلح میں خلوص اور عہد و پیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ کلمۂ طیبہ سے مراد کلمۂ شہادت ہے جس کی جڑ مومن کے قلب میں ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں، کہ اس کی وجہ سے مومن کے اعمال آسمان تک جاتے ہیں۔ سورہ فاطر میں ارشادِ ربانی ہے ’’جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے وہ اللہ ہی سے عزت حاصل کرے، کیوں کہ ساری عزت اللہ ہی کے واسطے ہے، اسی تک اچھے کلمے پہنچتے ہیں اور نیک اعمال ان کو پہنچاتا ہے۔
حضرت انسؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اچھے کلمے سے مراد ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ ہے۔ حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب قبر میں سوال ہوتا ہے تو مسلمان لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے بھی یہی فرمایا۔ اس سے مراد قبر کا سوال جواب ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مسلمان جب مرنے والا ہوتا ہے تو فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اس کو سلام کرتے ہیں، جنت کی خوش خبری دیتے ہیں۔ جب وہ مر جاتا ہے تو فرشتے اس کے ساتھ جاتے ہیں، اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اور جب دفن ہو جاتا ہے تو اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال جواب ہوتے ہیں جن میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ تیری گواہی کیا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’اشہدان لا الٰہ الا اﷲ و اشھدان محمد رسول اﷲ۔‘‘ حضرت ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میں پکی بات سے مراد لا الٰہ الا اللہ، اور آخر میں قبر کا سوال جواب مراد ہے۔
سورہ آل عمران میں ارشادِ ربانی ہے ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ اے اہلِ کتاب آئو ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے، اور وہ یہ کہ بجز اللہ تعالیٰ کے ہم کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے خداوند تعالیٰ کو چھوڑ کر۔ پھر اس کے بعد وہ اعتراض کریں تو تم کہہ دو کہ تم اس کے گواہ رہو کہ ہم لوگ تو مسلمان ہیں۔‘‘
حضرت ابوذرؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرتے رہو، جب کوئی برائی صادر ہوجائے تو فوراً کوئی بھلائی اس کے بعد کرو تاکہ اس کی مکافات ہوجائے اور وہ زائل ہوجائے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا لا الٰہ الا اللہ بھی نیکیوں میں شمار ہے، یعنی اس کا ورد کرنا بھی اس میں داخل ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو نیکیوں میں افضل ترین چیز ہے۔ حضرت انسؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ جو بندہ رات میں یا دن میں کسی وقت بھی لا الٰہ الااللہ پڑھتا ہے اس کے اعمال نامے سے برائیاں دھل جاتی ہیں۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت سعیدؓ بن زید، حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ زمانۂ جاہلیت ہی میں لا الٰہ الااللہ پڑھا کرتے تھے۔ سورہ فتح میں ارشاد ہوا ’’پس اللہ تعالیٰ نے سکون (تحمل یا خاص رحمت) اپنے رسول پر نازل فرمایا اور مومنین پر، اور ان کو تقویٰ کے کلمے پر جمائے رکھا، اور وہی اس تقویٰ کے کلمے کے مستحق اور اہل تھے۔‘‘ تقویٰ کے کلمے سے مراد کلمہ طیبہ یعنی لا الٰہ الا اللہ ہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت براءؓ نے بھی کلمۂ طیبہ سے مراد یہی لا الٰہ الا اللہ لیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے دنیا میں لاالٰہ الااللہ کہنے کا التزام کیا، بھلا آخرت میں جنت کے سوا اُس کا کوئی اور بدلہ ہوسکتا ہے۔
سورہ مومن میں ارشادِ ربانی ہے ’’یہ کتاب اتاری گئی ہے اللہ کی طرف سے، جو زبردست ہے، ہر چیز کا جاننے والا ہے، گناہ کا بخشنے والا ہے اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا ہے، قدرت (یا عطا) والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ گناہ کی مغفرت کرنے والا ہے اُس شخص کے لیے جو لا الٰہ الااللہ کہے، اور توبہ قبول کرنے والا ہے اُس شخص کی جو لا الٰہ الااللہ کہے، سخت عذاب والا ہے اُس شخص کے لیے جو لاالٰہ الااللہ نہ کہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام اذکار میں افضل لا الٰہ الااللہ ہے، اور تمام دعائوں میں افضل الحمدللہ ہے۔ یہی کلمۂ طیبہ دین کی بنیاد ہے، ایمان کی جڑ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ’’قیامت اُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک لا الٰہ الااللہ کہنے والا کوئی زمین پر ہو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’ ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ مجھے کوئی ورد تعلیم فرما دیجیے جس سے آپ کو یاد کیا کروں اور آپ کو پکارا کروں۔ ارشادِ خداوندی ہوا کہ لا الٰہ الااللہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا: اے پروردگار یہ تو ساری ہی دنیا کہتی ہے۔ ارشاد ہوا لا الٰہ الا اللہ کہا کرو۔ عرض کیا: میرے رب میں تو کوئی ایسی مخصوص چیز مانگتا ہوں جو مجھ ہی کو عطا ہو۔ ارشاد ہوا: اگر ساتوں آسمان اور زمین ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں اور دوسری طرف لا الٰہ الااللہ کو رکھ دیا جائے تو لا الٰہ الا اللہ والا پلڑا جھک جائے گا۔‘‘ اخلاص پیدا کرنے کے لیے جس قدر مفید اس کلمے کی کثرت ہے اتنی کسی دوسری چیز کی نہیں۔ اس کلمے کا نام ہی جلاء القلوب (دلوں کی صفائی) ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سب سے سعادت مند اور نفع اٹھانے والا میری شفاعت کے ساتھ وہ شخص ہوگا جو دل کے خلوص کے ساتھ لا الٰہ الااللہ کہے۔‘‘ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے لا الٰہ الا اللہ پڑھتا رہے اور حق تعالیٰ سے ایمان کے باقی رہنے کی دعا بھی کرتا رہے اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتا رہے۔ اس لیے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ گناہوں کی نحوست سے آخر میں ان کا ایمان سلب ہوجاتا ہے اور دنیا سے کفر کی حالت میں جاتے ہیں، اس سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ہوگی کہ ایک شخص کا نام ساری عمر مسلمانوں کی فہرست میں رہا ہو مگر قیامت میں وہ کافروں کی فہرست میں ہو۔ جامع ترمذی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’کوئی بندہ ایسا نہیں کہ لا الٰہ الا اللہ کہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے نہ کھل جائیں، یہاں تک کہ یہ کلمۂ طیبہ سیدھا عرش تک پہنچتا ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔‘‘ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں کہ ان میں ایک کے لیے عرش کے نیچے کوئی منتہا نہیں، دوسرا آسمان اور زمین کو اپنے نور یا اپنے اجر سے بھرے، جس میں پہلا کلمہ لا الٰہ الااللہ، اور دوسرا اللہ اکبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ایمان کی تجدید کس طرح کریں؟‘‘ ارشاد فرمایا ’’لا الٰہ الااللہ کو کثرت سے پڑھتے رہا کرو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں فرمایا ’’لاالٰہ الا اللہ کا اقرار کثرت سے کرتے رہا کرو قبل اس کے کہ ایسا وقت آئے کہ تم اس کلمے کو نہ کہہ سکو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ کوئی بندہ دل سے اس کلمے کو حق سمجھ کر پڑھے اور اسی حالت میں اس کو موت آجائے تو جہنم کی آگ اس پر حرام ہوجاتی ہے، اور وہ کلمہ لاالٰہ الااللہ ہے۔‘‘ مشکوٰۃ اور جامع ترمذی میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لاالٰہ الا اللہ کا اقرار کرنا جنت کی کنجیاں ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو بندہ کسی وقت بھی دن میں یا رات میں لاالٰہ الا اللہ کہتا ہے اُس کے اعمال نامے سے برائیاں مٹ جاتی ہیں اور نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’عرش کے سامنے نور کا ایک ستون ہے، جب کوئی شخص لاالٰہ الااللہ کہتا ہے تو وہ ستون ہلنے لگتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہوتا ہے ٹھیر جا، وہ عرض کرتا ہے کیسے ٹھیروں، حالانکہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والے کی ابھی تک مغفرت نہیں ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے: اچھا میں نے اس کی مغفرت کردی، تو وہ ستون ٹھیر جاتا ہے۔‘‘
عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لاالٰہ الااللہ والوں پر نہ قبروں میں وحشت ہے، نہ میدانِِ حشر میں۔ اس وقت گویا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ جب وہ سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے قبروں سے اٹھیں گے اور کہیں گے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم سے ہمیشہ کے لیے رنج و غم دور کردیا۔‘‘
قرآن پاک کی سورہ فاطر میں مسلم امت کے تین طبقے بیان فرمائے گئے ہیں۔ ایک طبقہ مسابق بالخیرات، جو بے حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ ایک حدیث کے مطابق جو شخص سو مرتبہ لا الٰہ الااللہ پڑھا کرے اُس کو حق تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ چودھویں رات کے چاند کی طرح اس کا چہرہ روشن ہوگا۔ حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کی زبانیں اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہتی ہیں، وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔ عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’حق تعالیٰ قیامت کے دن میری امت میں سے ایک شخص کو منتخب فرما کر تمام دنیا کے سامنے بلائیں گے اور اس کے سامنے ننانوے دفتر اعمال کے کھولیںگے، ہر دفتر اتنا بڑا ہوگا کہ انتہائے نظر تک پھیلا ہوا ہوگا، اس کے بعد اُس سے سوال کیا جائے گاکہ ان اعمال ناموں میں سے تُو کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے ان فرشتوں نے جو اعمال لکھنے پر متعین تھے، تجھ پر کچھ ظلم کیا؟ وہ عرض کرے گا: نہیں۔ پھر ارشاد ہوگا: تیرے پاس ان بداعمالیوں کا کوئی عذر ہے؟ وہ عرض کرے گا: کوئی عذر بھی نہیں۔ ارشاد ہوگا: اچھا تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے، آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہے۔ پھر ایک کاغذ کا پرزہ نکالا جائے گا جس میں اشھدان لا الٰہ الا اللہ و اشھدان محمداً عبدہ و رسولہ لکھا ہوگا۔ ارشاد ہوگا: جس اس کو تُلوا لے۔ وہ عرض کرے گا کہ اتنے دفتروں کے مقابلے میں یہ پرزہ کیا کام دے گا! ارشاد ہوگا کہ آج تجھ پر ظلم نہ ہوگا۔ پھر ان سب دفتروں کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا، دوسری جانب وہ پرزہ ہوگا تو دفتروں والا پلڑا اس پرزے کے وزن کے مقابلے میں ہلکا ہوجائے گا۔‘‘ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تمام آسمان و زمین اور جو لوگ ان کے درمیان میں ہیں وہ سب، اور جو چیزیں ان کے درمیان میں ہیں وہ سب کچھ، اور جو کچھ ان کے نیچے ہے وہ سب کا سب ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں لا الٰہ الا اللہ کا اقرار، تو وہی پلڑا تول میں بڑھ جائے گا۔ ’’جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوا آئے گا وہ اللہ کے قلعے میں داخل ہوجائے گا، اور جو اللہ کے قلعے میں داخل ہوگا وہ اس کے عذاب سے مامون ہوجائے گا۔‘‘ (ابن ماجہ)۔
ابن ماجہ، بیہقی اور حافظ ابن حجرؒ نے منبہات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے نقل کیا ہے کہ اندھیرے پانچ ہیں، اور پانچ ہی ان کے لیے چراغ ہیں۔ دنیا کی محبت اندھیرا ہے جس کا چراغ تقویٰ ہے۔ گناہ اندھیرا ہے جس کا چراغ توبہ ہے۔ قبر اندھیرا ہے جس کا چراغ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے۔ آخرت اندھیرا ہے جس کا چراغ عملِ صالح ہے۔ پلِ صراط اندھیرا ہے جس کا چراغ ’یقین‘ ہے۔‘‘
دین کا سارا مدار کلمۂ شہادت اور اسلام کی جڑ کلمۂ طیبہ ہے۔ دنیاوی کاموں میں جتنی بھی مشکلات پیش آئیں، وسوسے گھیر لیں، شیطان کی رخنہ اندازی کام میں خلل ڈالے، دنیاوی ضروریات پریشان کریں، کلمۂ طیبہ کی کثرت ان سب چیزوں کا علاج ہے کہ وہ اخلاص پیدا کرنے والا، دلوں کو صاف کرنے والا اور شیطان کی ہلاکت کا سبب ہے۔ حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لاالٰہ الا اللہ اور استغفار بہت کثرت سے پڑھا کرو، شیطان کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور لوگوں نے مجھے لا الٰہ الا اللہ اور استغفارسے ہلاک کردیا، جب میں نے دیکھا کہ یہ تو کچھ نہ ہوا تو میں نے ان کے ہوائے نفس (بدعات) سے ہلاک کیا اور وہ اپنے کو ہدایت پر سمجھتے رہے۔‘‘
مقابر اور میت کے قریب کلمۂ طیبہ پڑھنے کی بہت زیادہ ہدایات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنازے کے ساتھ کثرت سے لاالٰہ الااللہ پڑھا کرو۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا ’’جب وہ قبروں سے اٹھیں گے تو ان کا نشان لا الٰہ الا اﷲ وعلی اﷲ فلتوکل المومنون ہوگا۔ قیامت کے اندھیروں میں ان کا نشان لا الٰہ الا انت ہوگا۔ ایک حدیث میں ارشاد ہوا ’’جب تم فرض نماز پڑھا کرو تو ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ لا الہٰ الا اﷲ وحدہٗ لاشریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر… پڑھا کرو۔ اس کا ثواب ایسا ہے جیسے ایک غلام آزاد کیا۔‘‘
صحیح مسلم، ابودائو، ابن ماجہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث عمرؓ بن خطاب نے بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’’جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح (یعنی سنتوں اور آداب کی پوری رعایت کرے) پھر یہ دعا پڑھے ’’اشھدان لا الٰہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمداً عبدہ و رسولہ۔ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں، جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔‘‘۔

حصہ