نمود و نمائش و شان و شوکت کا مظاہرہ فضول خرچی کے مترادف ہے

2701
افروز عنایت
نیٹ پر وائرل ایک وڈیو نظروں کے سامنے سے گزری، جس میں ایک موصوفہ اپنے محل نما گھر کی تزئین و آرائش کو لوگوں سے شیئر کررہی تھیں۔ یہ وڈیو بے شمار لوگوں کی نظروں سے گزری ہوگی۔ کسی نے ٹھنڈی آہیں بھری ہوں گی، کسی نے منہ چڑھایا ہوگا، کسی نے لعن طعن کے ساتھ برا بھلا کہا ہوگا۔ دو فیصد لوگ بھی ایسے نہیں ہوں گے جنہوں نے ماشاء اللہ کہہ کر یہ بھی کہا ہوگا کہ اللہ نظرِ بد سے بچائے۔
٭…٭
جی ہاں، مذکورہ بالا قسم کی شان و شوکت کی نمائش کی تجلیاں چاروں طرف نظر آتی ہیں، جس پر عوام الناس کا وہی ردعمل ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، یعنی روپیہ پیسے کا بے دریغ اصراف اور لوگوں کے سامنے اپنی شان و شوکت کی نمائش، جس سے دینِ اسلام نے روکا ہے اور ممانعت فرمائی ہے۔ یہ خصلت تکبر کی نشانی ہے اور فضول خرچی کے زمرے میں آتی ہے۔ تکبر کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ رب العزت نے اچھا پہننے، اوڑھنے اور کھانے پینے سے منع نہیں کیا بلکہ پسند فرمایا ہے، لیکن اس لحاظ سے خرچ کرنا اور نمود و نمائش کا مظاہرہ کرنا کہ دوسرے لوگوں پر اپنی برتری قائم ہو، اور انہیں کمتر سمجھنا… یہ گناہ ہے جسے رب نے ناپسند فرمایا ہے۔ تکبر کرنے والا اللہ کی رضا سے محروم رہتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا اُسے اللہ جنت میں داخل نہیں کرے گا۔‘‘ نموو نمائش اور اپنے مال و متاع کی شان دکھانا ایسا تکبر ہے جس سے اللہ کے بندوں کو بھی تکلیف اور محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسری طرف نمود و نمائش میں بے جا اصراف ہوتا ہے جسے اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ ایسی فضول خرچی کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے: ’’اے آدم کی اولاد، تم ہر نماز کے وقت اپنا لباس (پہن) زینت کرلیا کرو، اور کھائو، پیو، اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
دوسری جگہ اللہ پاک نے قرآن میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا ہے۔
ان آیاتِ کریمہ کی روشنی میں واضح ہے کہ بننے سنورنے اور جائز موقعوں پر خرچ کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ بے جا اور بے مصرف جگہوں پر خرچ کرنے کی ممانعت ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں ایک عملدار خستہ بوسیدہ لباس میں آپ کے پاس آیا۔ آپ کو اُس کی حالت پر افسوس ہوا کہ شاید لاچار ہے۔ اپنے مالِ غنیمت کے عملدار کو آہستہ سے کہا کہ اس کی مالی مدد فرمائی جائے۔ جب اس کو کچھ درہم دیئے گئے کہ اپنی حالت سدھارے تو اُس نے کہا کہ ماشاء اللہ اللہ کا دیا  بہت کچھ ہے، تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا:  افسوس ہے کہ تجھے رب نے دیا ہے اور تُو اس حالت میں ہے! اللہ نے جو نعمتیں تجھے عطا کی ہیں وہ ظاہر ہونی چاہئیں، ان نعمتوں کو استعمال کرنا چاہیے۔
اس روایت سے واضح ہے کہ رب کی نعمتیں آپ کی شخصیت میں نظر آنی چاہئیں۔ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ لیکن اسلام نے ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم فرمائی ہے، جبکہ بے جا اصراف فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے۔ اور مال کو چھپا کر رکھنا کہ جائز معاملات میں بھی خرچ نہ کیا جائے، یہ کنجوسی ہے۔ ان دونوں خصلتوں کو اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔
روزِ قیامت رب العالمین ہم سے پوچھے گا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ جائز معاملات میں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا افضل ہے، اور اسی مال کو اپنی شان دکھانے اور اپنے آپ کو دوسروں میں نمایاں کرنے کے لیے خرچ کرنا تکبر کی علامت ہے۔ ہمارے آس پاس بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہیں، ایسے لوگوں کی یہ نمود ونمائش دیکھ کر نہ صرف انہیں اپنی محرومیوں کا مزید احساس ہوتا ہے، بلکہ بہت سے لوگ منفی سوچ و عمل کے حامل ہیں، وہ دولت کمانے کے لیے غلط راہیں ڈھونڈتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیوں نے اسی لیے جنم لیا ہے اور دن بدن ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس نمود و نمائش اور اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے سے نظر بھی لگ جاتی ہے۔ آج بھی خاندان کے بزرگ اپنی اولاد کو نمود و نمائش، شان و شوکت اور دکھاوے سے اس لیے روکتے ہیں کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔ جہاں اس دکھاوے اور نمود و نمائش کی دوسری معاشرتی خرابیاں ہیں، وہیں نظر کی حقیقت سے بھی انکار نہیں۔ نظرِ بد برحق ہے، احادیث سے بھی واضح ہے کہ نظر کے اثرات برحق ہیں، اسی لیے آپؐ نے اچھی چیز دیکھ کر ماشاء اللہ لا قوت الا باللہ العلی العظیم پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لہٰذا نمود و نمائش اور اپنی شان شوکت کا دکھاوا کرنے والوں کو جہاں اللہ کی ناراضی سے ڈرنا چاہیے، وہیں معاشرتی برائیوں کو جنم دینے سے خوف کھانا چاہیے، اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ دکھاوا، یہ نمود ونمائش ان کی اپنی ذات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ ہے نظر کا لگنا…
جی ہاں نظر… جس کا تذکرہ میں نے کالم کے شروع میں بھی کیا ہے۔ نظر برحق ہے جس کا تذکرہ احادیث سے بھی ثابت ہے۔ اچھی، خوبصورت اور نمایاں شے کو نظر لگنا ثابت ہے، اسی لیے آپؐ نے ایسے موقعوں پر سامنے والے کو ماشاء اللہ لاقوت الا باللہ العلی العظیم پڑھنے کی تاکید فرمائی… لیکن آپ یہ سوچیں کہ ایسی نمود ونمائش کرنے والوں کو آج 20 فیصد لوگ بھی ان الفاظِ مبارک سے داد نہیں دیتے۔ مشکل سے ہی چند لوگ ایسا کرتے ہیں۔  باقی لوگوں میں سے کچھ منہ بناتے ہوں گے، کچھ برا بھلا کہتے ہوں گے، کچھ نے ان کی ذاتی زندگی پر بھی کیچڑ اچھالی ہوگی، کوئی کہتا ہو گا کہ حرام کی کمائی ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ آج معاشرے میں چور بازاری، رشوت، لوٹ مار کا بڑا سبب یہی ہے، یا تو ایسے لوگ ’’انہیں‘‘ دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھریں گے یا دولت کمانے کے لیے غلط راہوں پر چل نکلیں گے۔
اس ایک برائی کے اتنے نقصانات ہیں، لہٰذا اسلامی تعلیمات کے مطابق سادگی کو اپنائیں۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا قول ہے: ’’زندگی سادہ اور مختصر ہونی چاہیے، ورنہ قیامت کے دن حساب میں بڑی پریشانی ہو گی۔‘‘
اسی طرح اصراف اور فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور قرابت داروں کو اُن کا حق ادا کرو، اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور اپنا مال فضول خرچی سے مت اڑائو، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ نے واضح کردیا کہ خرچ کہاں ہونا چاہیے۔ نمود نمائش اور شان و شوکت میں پانی کی طرح روپیہ بہانا فضول خرچی ہے جسے رب نے نا پسند فرمایا ہے۔ اللہ کی ناراضی سے بچنے کے لیے اعتدال کا راستہ اپنانے میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہو سکتی ہے۔
حصہ